پاکستان میں دھشت گردی کی شرح کا کافی تیزی سے اضافہ
ہورہا ہے،اب تو یوں لگتا ہے کہ ماضی کو پھر سے دوہرانے کی کوشش کی جارہی
ہے۔پاکستانی عوام کو دوبارہ سے ان اندھیروں میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی
ہے، جن اندھیروں سے ہم کافی جدوجہد کے بعد نکلے تھے،یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ
اس وقت تمام دشمن طاقتوں کی ناپاک نظریں ہمارے پاک وطن پر ہیں،دشمن ہر حال
میں پاکستان کو بکھیرتے دیکھنا چاہتا ہے، اور پاکستانی عوام کو فوج کے خلاف
ورغلانہ چاہتا ہے،تبھی تو حملہ ہوتے ہی فوراََ پروپیگنڈے شروع کردیے جاتے
ہیں، سوشل میڈیاپر اشتعال انگیز پوسٹوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ایسے لگتا ہے
جیسے یہ نام نہاد سوشل میڈیا ایکٹیویٹیسٹ اس ہی انتظار میں بیٹھے ہوں۔
30 جنوری کو جو مسجد میں سانحہ پیش آیا انتہائی دردناک تھا جس کی جتنی مذمت
کی جائے اتنی کم ہے۔اس سانحے کے پیش آنے سے کچھ گھنٹے قبل سیکورٹی فورسز نے
کولاچی کے علاقے گڑھا مدھا پر آپریشن کرکےدھشتگردوں کے ارادوں کو ناکام
بنایا،سیکورٹی فورسز اور دھشتگردوں کے درمیان ہونے والے فائرنگ کے تبادلے
میں آئی ای ڈی ماسٹر مائنڈ سمیت دو دھشتگرد ہلاک ہوئے، سیکورٹی فورسز نے ان
دھشتگردوں سے اسلحہ بارود وغیرہ برآمد کرلیا تھا،واضح رہے ان دھشتگردوں کا
تعلق ٹی ٹی پی کے گنڈاپور گروپ سے تھا،یہ لوگ ماضی میں ہونے والے پولیس اور
سیکورٹی فورسز پر حملوں کے ذمہ دار تھے۔۔
اس واقعہ کے بعد سیکورٹی فورسز نے ایک اور کامیاب آپریشن کرکے ملک کو بڑے
نقصان سے بچایا،دھشتگرد صوابی میں ایک بہت بڑی پلاننگ کے ساتھ گھسے
تھے،خفیہ اطلاعات ملنے پر سیکورٹی فورسزنے آپریشن کرکے دھشتگردوں کا گھیرا
تنگ کیا،سیکوٹی فورسز نے دھشتگردوں سے ہتھیار ڈالنے کو کہا جس پر دو حملہ
آوروں نے خودکش حملہ کرکے خود کو اڑا دیا، جبکہ تین دھشتگردوں کو حراست میں
لے لیاگیا۔
بدقسمتی سے مسجد میں سانحہ ہوگیا،بے شمار نمازی شہید ہوگئے کئی نمازی اس
وقت لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ٹی ٹی پی اسلام
اور جہاد کے بڑے دعوے کرتے دکھائی دیتا ہے۔
مگر پشاور میں ہونے والے دھماکے پر یہ نام نہاد پارٹی کیا کہے گی؟کیا انہیں
مقدس مقام پر ایسی حرکت کرتے ہوئے ذرا شرمندگی محسوس نہیں ہوئی؟ کیا ٹی ٹی
پی یہ نہیں جانتی اسلام ایک پر امن مذہب ہے اور ہمارا مذہب امن اور صلہ
رحمی کا درس دیتا ہے۔؟ کیا یہ لوگ یہ نہیں جانتے ایک قتل پوری انسانیت کے
قتل کے مترادف ہے؟ایسے ظالم حملہ آوروں کا تعلق نہ تو اسلام سے ہے اور نہ
ہی کسی اور مذہب سے۔ کیونکہ اس دنیا کا کوئی بھی مذہب کسی کو ناحق قتل کرنے
اور مقدس مقا مات پر حملے کرنے کی اجازت نہیں دیتاہے۔
پچھلے کئی وقت سے سیکورٹی فورسز اور حساس مقامات کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی
جارہی ہے، اور سوشل میڈیا پر فوج مخالف پروپیگنڈے کرنے کی کوشش کی جارہی
ہے،جس میں کچھ نام نہاد سیاسی پارٹیز کا اہم کردار ہے، یہ لوگ سیاست میں اس
قدر گرچکے ہیں ان کو صحیح غلط کی پہچان نہیں رہی ہے،ان کی حرکات سے ملک کو
کس قدر نقصان ہو رہا ہے انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے، انہیں غرض ہے تو
صرف اپنی سو کالڈ سیاست چمکانے سے، عوام تڑپ رہی ہے مر رہی ہے، حملے ہورہے
ہیں، ا س معاملے میں یہ لوگ اندھے،گونگے،بہرے بن چکے ہیں۔حملے ہوتے ہی ان
کے سو کالڈ خریدے ہوئے چند سوشل میڈیا ایکٹیویٹسٹ فوج پر تنقید کرنا شروع
کردیتے ہیں،اور سوشل میڈیا پر فوج مخالف ٹرینڈز چلاتے ہیں، جبکہ حقیقت تو
یہ ہے آج بھی ہمارے وطن کے محافظ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کردھرتی ماں کی
خاطر اپنی جانوں کے نظرانے پیش کررہے ہیں،اور رات دن دشمن کو ان کے ناپاک
ارادوں میں شکست دینے کے لئے مصروف ہیں،ان چند گھنٹوں میں کتنے ہی حملے
ناکام ہوئے، کتنے ہی دھشتگرد اپنے ناپاک ارادوں سمیت مارے گئے،عوام پر جب
جب مشکل وقت آتا ہے،یہ فوجی جوان اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کی حفاظت کو
پہنچتے ہیں،مشکل گھڑی میں یہی لوگ ہوتے ہیں جو عوام کا ہاتھ مضبوطی سے
تھامتے ہیں،کیونکہ یہ وطن کے محافظ ہیں اس دھرتی ماں کے بیٹے ہیں جنہوں نے
وطن کی حفاظت کا عہد کیا ہے۔کہتے ہیں ”کسی ملک کو توڑنا ہو توسب سے پہلے
وہاں کے لوگوں کو فوج کے خلاف کردو۔“ دیکھا جائے تو آج یہی سب ہورہا ہے ایک
طرف اپنی دھشت پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے دوسری طرف فوج مخالف پروپیگنڈے
کیے جارہے ہیں، اب عوام کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس خطرناک جنگ کو سمجھے وہ
ففتھ جنریشن وار کو سمجھے،اور خود کو دشمن کا آلہ کار نہ بنائے، اس مشکل
گھڑی میں اپنی فوج کاساتھ دے اسی طرح جس طرح پاک فوج ہر مشکل گھڑی میں عوام
کے ساتھ کھڑی رہتی ہے۔
|