نظمِ اجتماعی کے مطابق مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور
ذرائع ابلاغ (صحافت) کسی بھی ریاست کے بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ایک
ستون بھی مضمحل ہوتوقصرِ سیاست لرزہ براندام ہو جاتا ہے۔ جہاں چاروں ستون
ہی کمزور ہوں وہاں سلجھاؤ کی ہر مشق رائیگاں ثابت ہونا اظہرمِن الشمس۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ ارسطو نے کہا ’’ریاست کا
انتظام وانصرام ہمیشہ اہلِ دانش کے سپرد کیا جائے‘‘ لیکن ہمارے صاحبانِ
اقتدار واختیار، فلسفہ وفکر، معاش ومعاشرت اور مذہب وسیاست کے ادراک سے
یکسر عاری۔ وہ پارلیمان جو ریاست کا اولین ستون ہے وہاں قانون ساز باہم دست
وگریبان اور جوتم پیزار۔ آئینِ پاکستان سے بے بہرہ اِن لوگوں کا گہرِ مقصود
فلاحِ وطن نہیں فلاحِ ذات۔ اُنہوں نے اذہان کے بند دریچوں میں جھانک کر یہ
ادراک کرنے کی کبھی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ دھرتی ماں کا قرض اور اُن کا
فرض کیا ہے۔ اپنی ذات کے گنبد میں گُم اشرافیہ کا غروروتمکنت آئینِ پاکستان
کو اپنے پاؤں تلے روندتا چلا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجبوروں، مقہوروں کا
نالۂ دلفگار، نغمۂ بہار میں ڈھلتا نہیں۔ دولت آفرینوں کے لیے لنگرخانے،
انکم سپورٹ سکیمیں اور فُٹ پاتھ جبکہ اشرافیہ کے لیے اطلس وکمخواب۔ اُن کے
رفیع الشان محلات کے خوشنما درودیوار میں دولت آفرینوں کے لہو کی بو رچی
ہوئی۔ اِن محلات کے ہر گوشے میں خودغرضی کے بسیرے، سیم وزَر کی جھنکار اور
ہوسِ اقتدار۔ مستعجب ہوں کہ راندۂ درگاہ ’’اہلِ کرم‘‘ کی حیلہ سازیوں کا
ادراک کرنے کے باوجود بار بار اُسی سوراخ سے کیوں ڈسے جاتے ہیں جس کا زہر
اُن کی نَس نَس میں سما چکا ہے۔
عدلیہ اور انتظامیہ کا کردار باعثِ ندامت کہ بین الاقوامی سرویز کے مطابق
یہ دونوں ادارے کرپٹ ترین، عدلیہ کا 138 ممالک میں سے 130 واں نمبر۔ علم کی
جس ٹکسال میں ڈھل کر یہ عادل اور بیوروکریٹس نکلتے ہیں وہاں فکری انحطاط کی
یہ صورت کہ قحط الرجال ہی قحط الرجال۔ اساتذہ فکری وسعتوں سے محروم اور
نابغۂ روزگار ہستیاں مفقود۔ علم فروشی کے ان اڈوں سے زندگی وتابندگی کے
مظاہر کی اُمید حماقت، محض حماقت۔ اُدھر دینی مدرسوں سے نکلنے والے
’’ہونہاروں‘‘ کو صرف اپنے اپنے فرقے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ سوال مگر یہ کہ
جب اﷲ ایک، رسولﷺ ایک اور قُرآن بھی ایک تو پھر اُلجھاؤ اورفکری انحطاط
کیوں؟ کیا شیعہ کا قُرآن اور ہے اور سُنّی کا اور؟۔ کیا رَبِ ذوالجلال کے
ہاں یہ گروہ بندی لائقِ تعزیر نہیں؟۔سورۃ الزمر آیت 39 میں فرمایا ’’قُرآن
عربی میں ہے، کجی والا نہیں‘‘۔ یعنی الفاظ اور معنی کے اعتبار سے اِس میں
کوئی خلل ہے نہ کسی قسم کا نقص۔ ہر بات صاف اور واضح ہے۔ سورۃ یونس آیت 32
میں فرمایا گیا ’’آخر تم کدھر پھرائے جا رہے ہو‘‘۔ گویا رَبِ لم یَزل ہر
بات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں اور اِس میں کوئی کجی یا ٹیڑھ نہیں تو پھر
ہم نے اپنے آپ کو فرقوں اور گروہوں میں کیوں تقسیم کر لیا جبکہ سورۃ
الانعام آیت 159 میں یہ تنبیہہ بھی کر دی گئی ’’ (اے نبی ﷺ) جن لوگوں نے
اپنے دین کو فرقے فرقے کر ڈالا اور گروہ در گروہ بن گئے، آپ کا اُن سے کوئی
تعلق نہیں۔ اِن کا معاملہ اﷲ کے حوالے ہے، وہی بتا دے گا اُن کو جو کچھ وہ
کیا کرتے تھے‘‘۔ میں عالمِ دین ہوں اور نہ اِس کا دعویٰ لیکن جہاں فرقانِ
حمید میں پوری صراحت کے ساتھ حکم دے دیا گیا ہو اور اُس میں کوئی کجی یا
ٹیڑھ بھی نہ ہو، وہاں حکمِ رَبی کو ماننا ہمارا فرض۔
رَبِ علیم وخبیر نے عدل کا حکم دیا ہے۔ فرمایا ’’اے ایمان والو! قائم رہو
انصاف پر، گواہی دو اﷲ کی طرف، اگرچہ تمہارا یا ماں باپ کا یا قرابت والوں
کا نقصان ہو۔ اگر کوئی مالدار یا محتاج ہے تو اﷲ تم سے زیادہ اُس کا
خیرخواہ ہے، سو تم انصاف کرنے میں دل کی خواہش کی پیروی نہ کرو‘‘ (النساء
125 )۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عدل کا معیار یہ کہ اقوامِ عالم کی آخری
صفوں میں۔ جسٹس منیر کا نظریۂ ضرورت جاری وساری۔ اپنے اِسی طرزِ عمل کے
باعث ملک کے عام شہریوں میں عدلیہ کا وقار گھٹتے گھٹتے صفر تک جا پہنچا ہے۔
محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ چشم کشا سوال اذہان وقلوب میں گھر کر چکا
کہ کیا جسٹس نسیم الحسن کا اعترافِ گناہ بھٹو مرحوم کی زندگی واپس لا سکتا
ہے؟۔ موجودہ دَور میں بھی عدلیہ اپنے وقار اور حیثیت داؤ پر لگا چکی۔ پچھلے
سات آٹھ ماہ میں اعلیٰ عدلیہ کے جو فیصلے سامنے آئے اُنہیں پڑھ کر ہر کہ
ومہ کا سَر ندامت سے جھُک جاتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جسٹس شوکت
عزیز صدیقی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ جنرل فیض حمید نے 2 بار اُن سے
ملاقات کی۔ وہ میاں نوازشریف کی سزا کے بارے میں اُن سے بات کرنا چاہتے
تھے۔ اُنہوں نے کہا ’’جب میں نے جنرل فیض حمید کو کہا کہ سَر میں تو میرٹ
پر فیصلہ کروں گا تو اُنہوں نے تاریخی جملہ کہا ’’سَر اِس طرح تو ہماری 2
سال کی محنت ضائع ہو جائے گی‘‘ میں نے اُنہیں کہا کہ آپ نے بڑی غلط محنت کی
تھی۔ یہ آپ کا کام نہیں ہے۔ پاکستان کے ساتھ اِس طرح مت کریں اِس کے نتائج
خطرناک ہوں گے‘‘۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے انکشاف کیا کہ جب پاناما کیس
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہنچا تو اُنہیں ڈی بی سے ہٹا دیا گیا۔ پاکستان کی
تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہواکہ چیف جسٹس اور سینئر جج ڈی بی میں نہیں بیٹھ
رہے۔ جسٹس صدیقی نے یہ بھی کہا کہ جب اُنہوں نے جنرل فیض حمید کو کہا کہ وہ
میرٹ پر فیصلہ کریں گے تو اُس کے بعد اُنہیں نکالنے کے لیے جسٹس ثاقب نثار
اور جسٹس آصف کھوسہ نے فوج کا کندھا استعمال کیا۔ اُنہوں نے یہ انکشاف بھی
کیا کہ آئی ایس آئی والے پوری طرح عدالتی معاملات میں جوڑ توڑ کرتے اور
اپنی مرضی کے بنچ بنواتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے اِن بھیانک انکشافات
کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ عدلیہ آزادانہ فیصلے کرتی ہے۔ اب بھی سپریم کورٹ
میں مخصوص بنچ بنتے ہیں جن میں معزز جسٹس صاحبان کے نام دیکھ کر ہر صاحبِ
نظر پہلے ہی بتا دیتا ہے کہ فیصلہ کیا آنے والا ہے۔ جہاں عدل کا یہ عالم ہو
وہاں جمہور کی صدائیں نقارخانے میں توتی کی آواز بن کے رہ جاتی ہیں۔
ریاست کا چوتھا ستون صحافت جس میں پیشہ ورانہ اخلاقیات کو ملحوظِ خاطر
رکھنا پڑتا ہے اور اصول وضوابط کے تحت صحافتی ذمہ داریاں نبھانا پڑتی ہیں۔
اِس میں اپنے تعصبات اور شخصیت پرستی کی ہر گز گنجائش نہیں۔ ایک سچا اور
سُچا صحافی تو وہ ہے جو خبر دیتا ہے اور نتیجہ قاری پر چھوڑ دیتا ہے لیکن
ہمارے ہاں تو صحافی بھی گروہوں میں بٹے ہوئے۔ ہماری صحافت سیٹھوں کے پنجۂ
خونی میں گرفتار، میڈیا مالکان کے گھر کی باندی دَر کی لونڈی۔ حقیقت یہ کہ
صحافت فرد کی ذہنی وقلبی اور روحانی بالیدگی کا ذریعہ ہے لیکن ہماری صحافت
کھنکتے سکوں کی محتاج۔ استثنائی مثالیں چھوڑ کر ہر کسی کا اپنا اپنا قبلہ
اور اپنا اپنا ممدوح جس کی شان میں ہمہ وقت مدح سرائی۔ یہ صحافت نہیں کثافت
ہے جس نے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو ایسے گٹر میں تبدیل کرکے رکھ
دیا ہے جس میں سوائے تعفن کے اور کچھ نہیں۔
جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ہر ستون ہی لرزہ بر اندام ہو اور مجبورومقہور
اشرافیہ کے پنجۂ خونی میں گرفتار ہوں تو پھر سوال اُٹھتا ہے کہ آخر یہ جبرِ
مسلسل کب تک؟۔ آخر کب تک تلاشِ رزق میں نکلے پنچھی نوکِ سنا ں پر سجتے رہیں
گے؟۔ آخر کب تک اِن کی رگوں سے نچوڑا ہوا لہو اشرافیہ کے محل تعمیر کرتا
رہے گا؟۔ آخر کب تک زورآوروں کی حیلہ گری جاری رہے گی؟۔ یوں محسوس ہوتا ہے
کہ ظلم کے ماتوں کے لب کھولنے کا وقت قریب آن لگا۔ یہی وہ وقت ہوگا ’’جب
تخت گرائے جائیں گے ، جب تاج اُچھالے جائیں گے‘‘ ۔ یہی وہ وقت ہوگا جب خزاں
کی کوکھ سے بہار جنم لے گی اور کاسۂ اُمید گلہائے رنگارنگ سے لبریز ہو جائے
گا۔ پھر آشاؤں کے دیپ جلیں گے، اُمیدوں کی کلیاں کھلیں گی اور مُشک بُو
ہواؤں سے صحنِ چمن مہک اُٹھے گا۔ ترکِ اُمید مرگِ جاوِداں ہے اِس لیے بطور
مسلم ہم مایوس نہیں کہ ایک مسلمان اﷲ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ بس
دیر ظلم کے ماتوں کے لب کھولنے کی ہے۔ آئیے انتظار کرتے ہیں آپ بھی اور ہم
بھی۔
|