سیاسی منظر نا مے پر رچائی کٹھ پتلیوں کاکھیل جاری
ہے جس سے پاکستان کی معاشی بقاء کو سنگین خطرات سے دو چار کردیا۔اگرعمرانی
حکومت کے خاتمہ کے بعدفوری الیکشن ہوتے توشایدحالات مختلف ہوتے۔ شہباز
حکومت نے حیران کن اعتماد کے ساتھ ’’اچھے دن‘‘ لوٹنے کے والی ٹرک کی بتی کے
بیچھے لگایاہوا ہے۔پاکستان کو دیوالیہ کی دہلیزسے بچانے کیلئے جو فیصلے
مفتاح اسماعیل سے کرائے گئے وہ سب کے سامنے ہیں اورانہیں ذلت آمیز انداز
میں گھر بھیجاگیا۔ ان کی جگہ تجربہ کار اسحاق ڈارنے لی۔ ان سے زخموں کے لئے
امید دلاتی مرہم کی سی افواہ پھیلائی گئی۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کو
آنکھیں دکھانے کی کوشش کی مگرمحض ذاتی انا کی تسکین کرتی ’’ضد‘‘ نے ہرجگہ
رسواکیا جس کا ڈارصاحب کو سامناہے۔پاکستانی روپے کی ’’حقیقی قدر‘‘ کو تسلیم
کرلیا گیا ہے اور اتوار کی صبح اُٹھتے ہی خبر ملی کہ پیٹرول اور ڈیزل کی فی
لیٹر قیمت میں یکمشت 35روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اب ایک لاکھ روپے
ماہوار کمانے والوں کا بھی کچومرنکل چکاہے توسوچیں 20سے 30000کمانے والوں
کوتومرجاناچاہیے۔سب سیاستدان اپنی اپنی دھن میں مست ہیں کسی کو فواد چودھری
کی ’حکومت‘‘ کے ہاتھوں گرفتاری کی فکرلاحق ہے توکسی نے مریم نواز کی
پاکستان ا ٓمد اور زمان پارک میں جمع ہوکر عمران خان کو ’’ریڈ لائن‘‘
ٹھہرانے والوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے رونق لگانے کی کوشش ہورہی ہے۔
وفاقی حکومت نے ملک میں پیٹرول پر فی لیٹر لیوی کو 50 روپے پر برقرار رکھا
ہے۔مگر ڈیزل پر فی لیٹر لیوی 5 روپے بڑھادی گئی ہے۔ اس اضافے کے بعد ڈیزل
پر لیوی 40 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے۔ اسی طرح مٹی کے تیل پر لیوی 5 روپے 90
پیسے کم کردی گئی، جس کے بعد مٹی کے تیل پر لیوی 32 پیسے فی لیٹر ہوگئی
ہے۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ 236 روپے 40 پیسے کے اوسط ڈالر
ایکسچینج ریٹ پرکیا گیا۔ پیٹرولیم ڈویژن کے 16 جنوری سے 27 جنوری تک کے
ڈالر کے اوسط ایکسچینج ریٹ کو مدنظر رکھا گیا۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل و
دیگر مصنوعات 11 فیصد تک مہنگی ہوئی ہیں۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق سمری اوگرا نے 30 جنوری کو بھجوانی
تھی، تاہم ملک میں افواہوں کی وجہ سے پیٹرول پمپس پر تیل کی قلت اور ذخیرہ
اندوزی کے خدشے کے پیش نظر سمری اتوار 29جنوری کو ہی بھجوا دی گئی۔ اوگرا
نے جیسے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی ورکنگ وزارت خزانہ کو بھجوائی
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس کی منظوری دے دی اور دن گیارہ بجے ہی نئی
قیمتوں کو لاگو کر دیا گیا جبکہ اس سے پہلے ہر پندرہ روز کے بعد رات 12بجے
نئی قیمتوں کا اطلاق ہونا ہوتا ہے۔پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے
بعدٹرانسپورٹ نے کرایوں میں 10 فیصد تک اضافہ کردیا۔ ترجمان کے مطابق آل
پاکستان پبلک ٹرانسپورٹ اونرز فیڈریشن کے اجلاس میں کہا گیا کہ ڈیزل کی
قیمتوں میں اضافے نے ٹرانسپورٹ سسٹم تباہ کردیا ہے۔لاہور سے راولپنڈی، فیصل
آباد اور ملتان کے کرائے میں 100 روپے اضافہ کیا گیا ہے جبکہ لاہور سے
گوجرانوالہ 50، پشاور اور صادق آباد کے لیے کرائے میں 200 روپے جبکہ لاہور
سے کراچی کے لیے کرائے میں 600 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ترجمان کے مطابق
آل پاکستان پبلک ٹرانسپورٹ اونرز فیڈریشن نے تنبیہہ کی ہے کہ انتقامی
کارروائی ہوئی تو پبلک ٹرانسپورٹ کھڑی کر دیں گے۔ پٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں میں اضافے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں اضافہ کر دیا۔
لاہور سے سرگودھا کا کرایہ 1050 سے 1200 روپے کر دیا گیا۔ لاہور سے سیالکوٹ
کا کرایہ 100 روپے اضافے سے 900 روپے ہو گیا۔ لاہور سے بہاولپور کا کرایہ
2200 سے 2400 روپے‘ لاہور سے ملتان کا کرایہ 1990 سے 2090 روپے‘ لاہور سے
تونسہ کا کرایہ 2100 سے 2400 روپے‘ لاہور حیدر آباد کا کرایہ 6500 سے 7000
روپے ہو گیا۔ لاہور سے مری کا کرایہ 2450 سے 2700 روپے ہو گیا۔ مرکزی تنظیم
تاجران پاکستان اور ٹرانسپورٹرز نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں حالیہ
اضافے کو مسترد کر دیا۔ تنظیم تاجران پاکستان کے صدرکاشف چوہدری نے اپنے
بیان میں کہا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں35 روپے فی لیٹر اضافہ یکسر
مسترد کرتے ہیں، اضافے سے مہنگائی کا مزید طوفان آئے گا، حکومت فوری طور پر
پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ واپس لے۔ اس کے علاوہ صدر پاکستان گڈز
ٹرانسپورٹ الائنس ملک شہزاد اعوان نے بھی پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں
اضافے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تمام ٹرانسپورٹرز سے مشاورت کے بعد اپنے
لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت کے
خلاف سڑکوں پر نکلا جائے، ادھر مرکزی تنظیم تاجران خیبرپختونخوا کے جنرل
سیکرٹری ظاہر شاہ کا کہنا ہے حکومت پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا
اضافہ واپس لے۔ لاہور سے کامرس رپورٹر کے مطابق لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ
انڈسٹری کے صدر کاشف انور، نائب صدر پاکستان بزنس فورم جہاں آرا وٹو نے کہا
ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے کاروباری لاگت میں اضافہ ہو
جائے گا جس سے انڈسٹری بند ہونے کا خدشہ ہے۔ بے روزگاری پہلے ہی بلند سطح
پر پہنچ گئی ہے۔ حکومت فوری طور پر لیکیوڈیش کرائسز کو مینج کرنے کی طرف
جائے۔ عوام اور تنخواہ دار طبقے کو مزید کچل دیا گیا۔ اب بجلی اور گیس کی
قیمتیں بھی چند دنوں میں بڑھ سکتی ہیں۔ تقریباً 35 فیصد غیر معمولی مہنگائی
متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تمام درآمدی اشیاء اضافی 10 فیصد مہنگی ہو
جائیں گی، جس کی وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 10 فیصد سے زیادہ
کمی ہے۔ ان اشیاء میں خوراک، گندم اور گندم کا آٹا، دال اور کوکنگ آئل،
ٹیکسٹائل کے لیے کپاس، سٹیل سکریپ اور توانائی کی مصنوعات شامل ہوں گی۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں معاشی بحران ایک نازک مرحلے میں داخل ہو گیا
ہے۔تاجربرادری کا کہناہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پائیدار معیشت اور اس کے
تسلسل کیلئے قومی پالیسی مرتب کی جائے۔ حکومت اصلاحات کے ذریعے ایف بی آر
کی کارکردگی اور استعداد بڑھائے‘ حکومت ٹیکس کی شرح کو کم سے کم رکھے‘ غیر
ضروری اور لگژری مصنوعات منگوانا مشکل بنایا جائے اور اس کیلئے ڈیوٹیز
بڑھانے سمیت کڑی شرائط عائد کی جائیں۔ حکومت سے اپیل ہے کہ آئی ایم ایف سے
ہونے والی بات چیت پر قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔ جبکہ پاکستان انڈسٹریل
اینڈ ٹریڈر ز ایسوسی ایشنز فرنٹ (پیاف) نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پٹرول بم
مہنگائی بم ثابت ہو گا۔ 200 ارب کے منی بجٹ سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں
بھی اضافہ متوقع ہے۔ حکومت کی مس مینجمنٹ سے معیشت تباہ ہو رہی ہے، حکومت
ہوش کے ناخن لے اور پٹرولیم پروڈکٹس کی قیمت میں بھاری اضافہ فوراً واپس
لے۔حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عام لوگوں پر بوجھ ڈالنے کی
بجائے اپنے غیر پیداواری اخراجات میں کمی لا کر اس اضافے کو برداشست کرے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ملکی معیشت پر منفی اثرات آئیں
گے۔اب آخرمیں عوام کو ایک بات بتاتی چلوں کہ ریٹ بڑھانے سے پہلے جوافواہ
پھیلائی جاتی ہیکہ 100 روپے یا80روپے کی اوگراسے سفارش کی جارہے کے حوالیسے
ڈھنڈورا پیٹاجاتاہے اوربعدمیں اپنی من مانی کرتے ہوئے اس کا آدھابوجھ عوام
پرلاداجاتاہے اور احسان بھی تھونپاجاتاہے کہ عوام پرمزیدبوجھ نہیں ڈال سکتے
یہ سب سیاسی چونچلے ہوتے ہیں جن میں اب عوام آنے والی نہیں اب عوام کو
باہرنکلناہوگاکیونکہ اب انتخابات کی نہیں انقلاب کی ضرورت ہے۔
|