منو سمرتی اور آئین: ایک میان میں دو تلوار

سر سنگھ چالک نے یوم جمہوریہ کے موقع پر ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا یہ پیغام یاد دلایا کہ اب کوئی بندش نہیں ۔ اب انگریز چلے گئے ۔ اب ہم کو اپنا دل بڑا کرنا ہوگا اور ان بیڑیوں کو توڑنا ہوگا جو ہمیں بار بار پیچھے کھینچتی ہیں ۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کی نظر میں آگے بڑھنے سے روکنے والی سب سے بڑی بیڑی کون سی تھی؟ ملک کا آئین وضع کرنے کی ذمہ داری تو ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر پر 1947میں آئی مگر اس سے بیس سال قبل انہوں نے منوسمرتی کو علانیہ نذرِ آتش کرکے یہ بتادیا تھا کہ غلامی کی اصل زنجیر تو یہ ہے جو انگریزوں کے نکل جانے کے بعد بھی ہمیں پیچھے کھینچے گی ۔ 25 دسمبر 1927کو انہوں منوسمرتی جلاکر ہر سال وہ دن منانے کی تلقین کی۔ بدقسمتی سے وہ خود اسے جاری نہیں رک سکے اور وہ سلسلہ رک گیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے منو سمرتی کے علمبردار اقتدار پر فائز ہوگئے۔

ڈاکٹر امبیڈکر نے جس کتاب کو جلایا اس کے متعلق ہندوتوا کے سب سے بڑے دانشور ونایک دامودر ساورکر نے لکھا تھا کہ ہندو راشٹر کے لیے منو سمرتی ویدوں کے بعد سب سے مقدس صحیفہ ہے۔ وہ زمانۂ قدیم سے ہندووں کی تہذیب ، رسم و رواج اور فکر و عمل کی بنیاد بنا ہوا ہے ۔ صدیوں سے یہ کتاب ہماریقوم کاروحانی اور الہامی راستہ متعین کرتا ہے۔ آج بھی کروڈوں ہندو اپنی زندگی اور رویہ میں منوسرتی پر منحصر اصولوں کی اتباع کرتے ہیں ۔ آج بھی منوسمرتی ہندو قانون ہے۔وی ڈی ساورکر جن کروڈوں ہندووں کو منوسرتی کا پیروکار بتایا ان میں آر ایس ایس اور اس کے سر سنگھ چالک شامل ہیں ۔ ایسے میں ایک کتاب کو مقدس سمجھ کر اس کی پیروی کرنا اور اس کو جلانے والے کی مثال پیش کرنا منافقت نہیں تو کیا ہے؟

منو سمرتی آر ایس ایس کو کتنی عزیز ہے اس کا اندازہ آئین ہند کی تدوین کے چار دن بعد سنگھ کےانگریزی ترجمان آرگنائزر میں چھپے اداریہ سے لگایا جاسکتا ہے۔26 نومبر 1949 کو جب آئین بن کر تیار ہوگیا تو 30 نومبر 1949 کو آرگنائزر نے دستور کی سرخی لگا کر اداریہ لکھا ۔ اس کے اندر یہ اعتراض کیا گیا کہ دستور کی سب سے بری بات یہ ہے کہ اس میں کچھ بھی ہندوستانی نہیں ہے۔ اس کے بعد منوسمرتی کے بارے میں بتایا کہ وہ دیگر قوانین کی کتابوں سے کہیں زیادہ قدیم ہے اور آج بھی اس کی تعریف ہوتی ہے لیکن اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ہمارے ماہرین ِ دستور کے لیے وہ بے معنیٰ ہے۔ آر ایس ایس کو آئین ہند پر اعتراض اس لیے تھا کہ وہ منو سمرتی کےمطابق نہیں ہے بلکہ اس سےمختلف یا اس کے خلاف ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر آئین میں ایسا کیا ہے جس سے یہ لوگ اتنے پریشان ہیں ۔یہ جاننے کے لیے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آئین کی تمہید کا منو سمرتی سے موازنہ کرلینا کافی ہے۔

دستورہند ملک کے باشندوں کے لیے 4 چیزیں یقینی بنانے کا عزم کرتا ہے۔ سب سے پہلے سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف کی بات یعنی یہ نہیں کہ انتخاب میں سب کو ایک ووٹ کا حق دے کر بہلا دیا جائے۔ ان کے ساتھ معاشرے میں کسی قسم کا تفریق و امتیاز نہ ہواور نہ معاشی میدان میں خوشحال امیر تر اوبدحال غریب ترین ہوتا چلا جائے۔ دوسری بات اظہارِخیال ، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی کا تیقن ہے۔ اس کا مطلب یہ نہ ہو کہ میڈیا کو خرید کر گود میں بیٹھا لیا جائے اور آئے دن مساجد پر تنازع یا گرجا گھروں پر حملے کیے جائیں ۔تمہید کی تیسری شق بہ اعتبار حیثیت اور موقع مساوات ہے۔ یعنی اے سی میں پڑھ کر آنے والے طالبعلم کے مقابلے پیڑ کے نیچے تعلیم حاصل کرنے والے بچے کو خصوصی مراعات(ریزرویشن) دے کر اس کے برابر لایا جائے۔ تمہید کے اندر یہ بھی لکھا ہے کہ سبھی کے درمیان اخوت کافروغ اس لیے کیا جائے تاکہ فرد کی عظمت و انفرادیت بھی برقرار رہے اور کسی فسادی کو قوم کے اتحاد اور سالمیت کو برباد کرنے کا موقع نہ ملے۔ یہ ساری باتیں منو سمرتی اور ہندوتوا نواز فسطائیت کے خلاف ہیں۔

موہن بھاگوت کے خیال میں ملک کے لوگ بھول گئے ہیں کہ ان کی چہیتی کتاب منو سمرتی میں کیا کیا لکھا ہے۔ اس کے مطابق دنیا کی خوشحالی کی خاطر (قدرت )نے برہمن، کشتری، ویش اور شودر کو اپنے منہ، بازو، رانوں اور پاؤں سے پیدا کیا۔ کسی انسان کو پیدائش پر اختیار نہیں لیکن اس بنیاد پر بنی آدم کے درمیان ایک مستقل ناقابلِ تسخیر دیوار تعمیر کرنا جرم عظیم ہے۔ اس کتاب میں برہمن کی پہچان نیکی بتائی گئی ، کشتری کو طاقت کا دھنی اور ویش کو دھن دولت کا مالک اور شودر کو حقیر فقیر بتایاگیا ہے۔ اس میں برہمن کا مطلب خوشی ، کشتری کے معنیٰ تحفظ ، ویش کو خوشحالی کا مظہر اور شودر کی پہچان خدمت بتایا گیا ہے۔ برہمنوں کی خدمت کو شودر کے لیے بہترین پیشہ تجویز کیا گیا اور اسے بتایا گیا کہ وہ اس کے علاوہ کچھ اور کرےگا اُسے پھل(اجر) نہیں ملے گا۔ یہ کتاب کہتی ہے کہ شودروں کا پیشہ دیگرتین ذاتوں کی نرمی سے خدمت کرنا ہے۔ یعنی شودر تو سیوا کریں گے اور باقی لوگ میوا کھائیں گے۔ یہ کتاب شودر کو دولت جمع کرنے سے منع کرتی ہے کیونکہ اس کے ایسا کرنے سے برہمنوں کو تکلیف ہوتی ہے اور براہمن چاہے، تو شودر سے رقم چھین سکتا ہے ۔ اس نظامِ قانون میں شودر پر تعلیم حاصل کرنے کی ممانعت ہے۔یہ اصول سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف سے ٹکراتے ہیں۔

منو سمرتی کے ظالمانہ قانون کی روُ سے نچلی ذات والا نام نہاد اونچی ذات والے کے ساتھ ایک نشست پر بیٹھے تو اس پیٹھ پر داغ لگائے جائیں گے اور اسے ملک بدر کر دیا جائے گا، یا [بادشاہ] اس کی پیٹھ کو کچل دے۔ شودر اگر کسی اونچی ذات کے آدمی کی توہین کردے تو اس کی زبان کاٹ دی جائے گی کیونکہ وہ کم نسل ہے اور اگر وہ تکبر سے برہمنوں کو ان کا فرض یاد دلائے تو بادشاہ اس کے منہ اور کانوں میں گرم تیل ڈال دے ۔وہ اگر ان کو ذات یاد دلائے تو دس انگلی لمبی لال گرم کیل اس کے منہ میں ٹھونس دی جائے۔وہ اپنا ہاتھ یا لاٹھی اٹھائے اس کا ہاتھ کاٹ ڈالاجائےاورغصے سے لات ماردے تو ٹانگ کاٹ دی جائے۔ یہ سزائیں اظہار خیال سے لے کر ہر طرح کی آزادی کے خلاف ہیں۔

منو سمرتی میں شودروں کے لیے تو کڑے قانون ہیں مگر برہمنوں کے لیے بڑی نرمی ہے۔ اس میں کہا گیا برہمن کو کسی صورت موت کی سزا نہ دی جائے وہ اگر کوئی سنگین جرم کردے تو اس کا مال لے کر اسے چھوڑ دو یا بھگا دو۔ بلقیس بانو کے قاتلوں کو سنسکاری برہمن کہہ کر رہا کردیا جانا اور ان کی ویڈیو بناکر جشن منانا دراصل منو سمرتی پر عمل درآمد ہے اور آئین کی تمہید میں درج اخوت ومساوات کی خلاف ورزی ہے۔ منو سمرتی سے متعلق آرگنائزر کا یہ دعویٰ تو صد فیصد درست ہے کہ یہ بہت پرانا قانون ہے لیکن اس میں ایک لفظ کی کمی ہے۔ یہ در اصل دنیا سب سے قدیم فسطائی قانون ہے جس میں کسی شرم و لحاط کے بغیر ڈنکے کی چوٹ پر علی لاعلان عدل و مساوات اور اخوت و آزادی کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں ۔ اس لیے آئین اورمنو سمرتی جیسی دو تلواروں کا ایک میان میں ساتھ رہنا ناممکن ہے ۔

صدیوں پہلے ایک لویہ کی کہانی میں اس کا انگوٹھا کاٹ کر منو سرتی پر عمل کیا گیا تھا اور آج بھی گھوڑے چڑھ کر برات نکالنے والے دلت پر دیگر ذات کے لوگ حملہ کردیتے ہیں کیونکہ انہیں اس میں اپنی توہین محسوس ہوتی ہے۔ پولس کو اسے تحفظ دینا پڑتا ہے اور سر سنگھ چالک اس کے خلاف پروچن دیتے پھرتے ہیں مگر زمینی سطح پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ لوگ نہ صرف دلتوں کے دشمن ہیں بلکہ ان کے حقوق کی وکالت کرنے والے گاندھی جی کو بھی نہیں چھوڑتے ۔ناتھو رام گوڈسے انہیں گولی مار کر ہلاک کردیتا ہےاور ہر سال 30؍ جنوری کو شکونی پانڈے جیسی خاتون گاندھی کی تصویر پر گولی چلا کر اس کی ویڈیو بنانےکے بعد فخر سے اسے پھیلاتی ہے۔انتظامیہ اس کو گرفتار کرنے کا ناٹک کرنےکے بعد چھوڑ دیتاہے۔ انہیں لوگوں کے بارے میں ساورکر نے کہا تھا کہ وہ منوسمرتی کے پیروکار ہیں اور موہن بھاگوت بھی ان میں سے ایک ہیں۔

منو سمرتی کے مطابق نہ ہونا دستور ہند کا مسئلہ نہیں بلکہ وہ ہے جس کا اظہار قانون ساز اسمبلی کے رکن مولانا حسرت موہانی اس طرح کیا تھا کہ "یہ دستور برطانوی دستورکاہی اجراء اورتوسیع ہے جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزا دہند کا مقصد پورا نہیں ہوتا "۔ 73؍ سال بعد یہ الفاظ سچ ثابت ہوگئے۔منو سمرتی کو نذرِ آتش کرنے والے ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر نے بھی یہ خدشہ یوں ظاہر کیا تھا کہ ’’ میں نے آئین بنایا ہے۔ لیکن میں یہ کہنے کے لیے بالکل تیار ہوں کہ میں اسے جلانے والا پہلا شخص ہوں گا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہاں اکثریت اور اقلیتیں بھی ہیں۔ وہ ایسا کہہ کر اقلیتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے،کہ آپ کو تسلیم کرنا جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہے۔ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ سب سے زیادہ نقصان اقلیتوں کی ایذا رسانی سے ہوگا‘‘۔ اس کے دو سال بعد وہ بولے’’ میں نے کہا تھا کہ میں آئین کو جلانا چاہتا ہوں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ: ہم نے دیوتاکے رہنے کی خاطر مندر بنایا، لیکن اس سے پہلے کہ دیوتا نصب ہو، اگر شیطان اس پر قبضہ کر لے، تو ہم مندر کو تباہ کرنے کے سوا اور کیا کر سکتے تھے۔ہم اس پر آسوروں کا قبضہ نہیں چاہتے تھے ۔ ہمارا ارادہ تو دیوتاوں کو بسانےکا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کہا کہ میں اسے جلانا پسند کروں گا‘‘۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی پیشنگوئی کے مناظر چہار سو پھیلے ہوئے ہیں۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450328 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.