سیاست نہیں ریاست بچانے آئے ہیں۔ریاست ہے تو ہم ہیں۔سب
سے پہلے پاکستان۔ یہ سب دلفریب نعرے عرصہ دراز سے دیکھنے سننے کو ملتے رہے
ہیں ۔ طاہرالقادری صاحب کینیڈا سے سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ بلند
کرتے پوری قوم کو اپنے سحر میں مبتلا کرتے ہوئے دوبارہ سے اپنے اصلی وطن
کینیڈا پہنچ گئے۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے مشرف صاحب عرب
سرزمین پر بستر مرگ پر ہیں۔ جناب نواز شریف صاحب بھی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ
لگاتےلگاتےاپنی پلیٹ لیس کو پورے کروانے برطانیہ جاپہنچے۔ کچھ ایسے بھی ہیں
کہ جن کے لئے پورے ملک میں فلیکس لگوائی جاتی تھیں اور ان پر درج یہ
التجائیں تھیں کہ جانے کی باتیں نہ کریں اور خدشہ ظاہر کیا جاتا کہ اگر یہ
اس عہدہ پر نہ رہے تو خدانخواستہ ریاست پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے
گا۔ ان میں سے اکثر بیرونی ممالک میں یا تو نئی نوکریوں پر براجماں ہیں یا
پھر گمنامی کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ جنوری 2022 تک عمران خان حکومت کی
معاشی ناکامیوں کی بدولت ریاست پاکستان تقریبا دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکی
تھی۔ پاکستانی تاریخ کے تقریبا 75 فیصد قرضے پی ٹی آئی حکومت نے لئے، یہ
قرضے کہاں گئے اس بارے میں سوال پوچھنے پر آپ تنقید کی زد میں آسکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے گورنر پنجاب چوہدری سرور، ایف بی آر کے چیرمین شبر زیدی و
دیگر پی ٹی آئی رہنما پاکستان کو تقریبا دیوالیہ قرار دے چکے تھے۔ یہ بات
سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد سب سے پرانی اور منجی
ہوئی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کو آخر کیا مجبوری تھی جو پی ٹی آئی حکومت
خاتمہ میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کیا اور عمران خان حکومت کے ڈالے ہوئے
گند کوبیساکھیوں کے سہارےصاف کرنے کے چیلنج کو قبول کیا؟ یاد رہے حکومت چھن
جانے کے باوجود نومبر کے آخیر تک پی ٹی آئی کو پس پردہ کچھ طاقتوں کی
حمایت حاصل رہی اور بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج بھی کئی حلقوں کی پی
ٹی آئی کو درپردہ حمایت حاصل ہے۔ ن لیگ کی بدقسمتی کہ لیں کہ عمران خان
حکومت کے ڈالے ہوئے گند کو صاف کرتے کرتے ن لیگ نے اپنے کروڑوں چاہنے
ووٹروں کوبدظن، بدگمان کردیا ہے۔ مہنگائی کی بدولت آج ہر گھر میں شہباز
شریف کو گالیاں پڑ رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کا ووٹ تو محفوظ ہے ، جس کی تازہ
جھلک سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں دیکھنے کو ملی۔اسی طرح جے یو آئی کا
ووٹر بھی مولانا فضل الرحمن کی قیادت کے پیچھے کھڑا ہے۔ اب تو ایسے محسوس
ہورہا ہے کہ رجیم چینج کا سب بڑا بینیفشری عمران خان ہے کیونکہ بدترین
مہنگائی کی بدولت آج عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو چکا ہے۔اس رجیم
چینج معرکہ میں سب سے زیادہ گھاٹے کا سودا مسلم لیگ ن نے کیا ہے ۔ آئندہ
عام انتخابات میں نواز شریف کہیں نظر نہیں آرہے، انکی نائب اور پارٹی کی
سب سے متحرک لیڈر محترمہ مریم نواز صاحبہ عوام الناس کے پاس کس نئے نعرہ یا
اپنی حکومتی کارکردگی کو پیش کرکے ووٹ مانگیں گی؟ ڈالر بے لگام ہوچکا۔
اسحاق ڈار صاحب کو لانے کے لئے مسلم لیگ ن نے زور و شور نے مہم چلائی اور
مفتاح اسماعیل کو وزرات خزانہ چھوڑنا پڑی۔ آج حالت یہ ہوچکی ہے کہ مسلم
لیگ ن کے دو مرتبہ کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سرعام اسحاق ڈار کی معاشی
پالیسیوں پر تنقید کے نشتر برساتے دیکھائی دیتے ہیں۔راقم نے 21 مئی 2022 کے
کالم" میاں صاحب ڈالر کنٹرول کریں یا اقتدار چھوڑ دیں" میں درج ذیل معروضات
پیش کیں تھیں۔کہ" میاں صاحب ڈالر کو کنٹرول کرنا آپکی ذمہ داری ہے۔کیونکہ
ڈالر کنٹرول تو ملکی معیشت بھی کنٹرول۔ جمہوری ممالک میں حکومت کیساتھ ساتھ
اپوزیشن جماعتیں شیڈو کابینہ بنا کر رکھتی ہیں یعنی حکومت وقت کے ہر غلط
فیصلہ پر تنقید کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کو مجوزہ طور پر مفید اور قابل عمل
مشورہ بھی دیتی ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موجودہ اتحادی حکومتی
پارٹیوں نے عمران خان حکومت کے خلاف ہر محاذ پر کھل کر تنقید کی اور پی ڈی
ایم کی جانب سے عمران خان حکومت کے خلاف چلائی جانے والی آخری تحریک کا
موضوع ہی مہنگائی مارچ تھا۔ کیا موجودہ حکومتی جماعتوں نے عمران خان کو
اقتدار کو ہٹانے کے بعد پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالے کے لئے کسی قسم
کی منصوبہ بندی تیار نہیں کی تھی؟ مہنگائی کےنہ ختم ہونے والے سونامی نے
عوام الناس کا جینا حرام کردیا ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت کی زبان پر اب
یہ بات آچکی ہے کہ میاں شہباز شریف صاحب ڈالر اور مہنگائی کو کنٹرول کریں
ورنہ مسند اقتدار کو چھوڑ دیں اور گھر بیٹھ کر اللہ اللہ کریں"۔اور 27
اپریل 2022 کے اپنے کالم "وزیر خزانہ صاحب! عوام کڑوی گولی کیوں کھائے" میں
عرض کیا تھا کہ" وزیر خزانہ صاحب اب کڑوی گولی کھانے کی آپ کی باری ہے۔
ڈالر کر کنٹرول کریں، حکومتی شہ خرچیوں کو کم کریں، سادگی اپنائیں، کڑوروں
روپے کے حکومتی ٹی اے ڈی اے ختم کریں، کڑوروں اربوں کے حکومتی اللے تللوں
پر خرچ کرنا بند کرنے ہونگے۔ یاد رہے اگر موجودہ حکومت ڈالر کر کنٹرول کرنے
میں ناکام رہی اور تمام تر زور عوام الناس کو نچورنے میں رہا تو عمران
نیازی حکومت کے پونے چار سال کا گند بھی پاکستان مسلم لیگ ن کو اپنے کندھوں
پر اُٹھانا پڑے گا۔ اور آنے والے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کی
سیاست منہ کے بل گر پڑے گی"۔ ن لیگ کے پاس سوائے عمران خان کی توشہ خانہ
گھڑیوں کے انتخابات میں بیچنے کے لئے کوئی نیا چورن نہیں ہے۔ یاد رہے مسلم
لیگ ن کے ووٹرز کی زیادہ تعداد غریب اور مڈل کلاس افراد پر مشتمل ہے۔اسکے
ساتھ کاروباری حلقے بھی ن لیگ سے نالاں ہوچکے ہیں۔ن لیگ اس حقیقت سے
آنکھیں نہیں چرا سکتی کہ ڈالر اور مہنگائی کو کنٹرول کرکے ہی عام انتخابات
میں کامیابی ملے گی ۔ ورنہ مسلم لیگ ن۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
|