اب بھی وقت ہے نہیں تو قصہ پارینہ بن جاگے


پاکستان میں سیاسی عدم و استحکام جب سے ہاکستان وجود میں آیا ہے وقفہ وقفہ سے رہا ہے ہے مگر 1971 کے بعد یہ مسلسل اور متواتر اس پر نہ ہی ہماری سیاسی جماعتوں نے اور نہ حکمرانوں اور نہ ہی اسٹیبلیشمنٹ نے کبھی اس کو سنجیدگی سے لیا اور اس کو سنجیدگی نہ لینے پر ہی ہمارا ملک معاشی طور پر پیچھے کی جانب ہی جارہا ہے اور حالت اس وقت یہ ہیں کہ ملکی مجموعی پیداوار اور برآمدات کے اہداف پورے کرنا ہی مشکل نظر آرہے ہیں جبکہ امن وامان کی اور سیاسی کشیدگی کی اُبلتی ہوئی غیریقینی صورتحال معاشی زبوں حالی کو مزید گمبھیر سے گمبھیر بنارہی ہے. جیسے ہی سیاست میں لاوا بن کے باہر اُمڈ آیا ہے اور اس کی تپش نے معاشی صورتحال کو بھی اپنی لپیٹ میں لیکر پگھلا کر رکھ دیا ہے.
حکمراں جماعت کی طرف سے معاشی ایمرجینسی کے نفاذ کو خارج از امکان قرار دیے جانے کے باوجود ملک میں زرمبادلہ کے زخائر میں کمی اور آئی ایم ایف سے اگلی قسط آنے میں تاخیر کی وجہ سے ملکی معیشت کے حوالے سے تشویش ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے. پاکستان سیاسی عدم توازن و استحکام ملک کو معاشی طور پر کیا ہر چیز سے افراتفری اور بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے . ملک کا معاشی بحران ایک جماعت حل نہیں کر سکتی اور نہ ہی کوئی جماعت اس کے لیے افلاطون والا کردار ادا کرسکتی ہے اس کے لیے پاکستان کی تمام سیاسی جماعت اور حکمران جماعت کو ایک پلیٹ پر آنا پڑئیگا اور اس کے لیے ایک چارٹر آف اکانومی کی ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو مل کر بیٹھنا ہو گا . پاکستان اپنے دو حالیہ معاشی بحرانوں سے کامیابی کے ساتھ نمبرآزوما ہوچکا تھا تو پھر پاکستانی عوام کو اعتماد کیوں نظر نہیں آرہا ہے انشا ء اللہ پاکستان اس مرتبہ بھی معاشی بحران سے نمٹ لیگا. حکومت ترقیاتی اور غیرترقیاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیکسوں کے ذریعے رقم جمع کرتی ہے لیکن جب آمدنی سے زیادہ اخراجات ہوجائیں تو حکومت کو قرض لینا پڑتا ہے. جب کسی بھی بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے قرض لیا جاتا ہے تو پھر اُن کی شرائط بھی پوری کرنا لازمی ہوتی ہیں جس میں ایک شرط ٹیکسوں میں اضافے کی بھی ہوتی ہے یا ان شعبوں میں ٹیکس لاگو کرنا جہاں ٹیکس نہیں ہے۔ حکومت کے اس عمل سے بالآخر عام آدمی متاثر ہوتا ہے اور اُس کی قوتِ خرید بھی متاثر ہوتی ہے، جب قوتِ خرید پر منفی اثر پڑتا ہے تو طلب کم ہوجاتی ہے اور طلب کے کم ہوجانے سے پیداوار میں کمی کرنا پڑتی ہے جس کا مجموعی پیداوار پر اثر پڑتا ہے، اور یہ تمام معاملات عمومی طور پر سیاسی حالات اور امن و امان کی غیریقینی صورتحال کا باعث ہوتے ہیں. جب ملک میں غیریقینی صورتحال ہو، بجلی کا بحران ہو، شرح سود بہت زیادہ ہو، بین الاقوامی طور پر ملک کا تاثر اچھا نہ ہو، تو یہ تمام چیزیں مل کر معیشت کے پہیہ کی رفتار کو سست روی کا شکار کردیتی ہیں۔ بغور جائزہ لیتے ہیں اور پھر سرمایہ کاری کرنے یا نہ کرنے فیصلہ کرتے ہیں۔ اسی طرح جو بیرونی سرمایہ کار، ملک میں سرمایہ کاری کرچکے ہیں وہ بھی صورتحال کا بغور جائزہ لیتے رہتے ہیں اور جوں ہی وہ دیکھتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہورہا ہے تو بیرونی سرمایہ ملک سے جانے لگتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے ملک سے باہر جانے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستانی کرنسی جو بین الاقوامی کرنسیوں سے منسلک ہوتی ہے، کمزور ہوتی ہے اور گزشتہ تین سے چار ماہ کے دوران پاکستانی کرنسی، امریکی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل کمزور ہورہی ہے، حالانکہ امریکی ڈالر دنیا کی دیگر کرنسیوں کی نسبت کمزور ہوا ہے۔ جب ملک میں غیریقینی صورتحال ہو، بجلی کا بحران ہو، شرح سود بہت زیادہ ہو، بین الاقوامی طور پر ملک کا تاثر اچھا نہ ہو، تو یہ تمام چیزیں مل کر معیشت کے پہیے کی رفتار کو سست روی کا شکار کردیتی ہے۔

ملک کی اقتصادی صورتحال سنگین تو ہے مگر ان کے نزدیک ابھی بحران کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔ ملک میں معاشی اور مالی استحکام لانے کے لیے مختلف کچھ بنیادی اصول پر وفاق اور صوبائی حکومتیں ان ہر عمل کریں کافی حد تک پاکستان کی معشیت پر واضع فرق نظر آجائیگا ملک کی اقتصادی صورتحال سنگین تو ہے مگر ان کے نزدیک ابھی بحران کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔ اشیاء کی سرحد پار سمگلنگ کو روکنے کے لیے ایک مضبوط اور فعال روڈ میپ وضع کردی ملک کی اقتصادی صورتحال سنگین تو ہے مگر ان کے نزدی ابھی بحران کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔

آنے والے ہفتوں میں اگر ملک کو بیرونی امداد نہ ملی تو پھر بحران کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ بحران اس وقت ہوتا ہے جب عوام کی زندگی پر براہ راست اثر پڑنا شروع ہو جائے۔ مثلا پٹرول کی سپلائی متاثر ہو جائے یا ضروری اشیا ملنا بند ہوجائیں۔ ملک کا معاشی بحران ایک جماعت حل نہیں کر سکتی اور اس کے لیے ایک چارٹر آف اکانومی کی ضرورت ہے جس میں تمام جماعتوں کو مل کر بیٹھنا ہو گا۔ ملک میں معاشی اور مالی استحکام لانے کے لیے مختلف اشیاء کی سرحد پار سمگلنگ کو روکنے کے لیے ایک مضبوط اور فعال روڈ میپ وضع ہونا چاہیے۔ ملک کی اقتصادی صورتحال سنگین تو ہے مگر ان کے نزدیک ابھی بحران کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔

آنے والے ہفتوں میں اگر ملک کو بیرونی امداد نہ ملی تو پھر بحران کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔اس وقت دنیا میں غذائی تحفظ اور انرجی سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں اور پاکستان کے لیے عالمی سطح پر معاشی رسک اور مواقع دونوں پیدا ہوئے ہیں. اقوامِ عالم کے لیے فوڈ سیکیورٹی بہت اہمیت اختیار کرگئ ہے۔ تیزی سے بڑھتی آبادی کی وجہ سے غذائی اجناس کی طلب بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سال 2050ء تک غذائی اجناس کی طلب دگنی ہوجائے گی۔ سال 2020ء میں 80 کروڑ انسان غذائی قلت کا شکار تھے اور ان میں اضافے کے خدشات ہیں۔ روس اور یوکرین مل کر دنیا کی گندم کا 20 فیصد فراہم کرتے تھے۔ مقامی سطح پر دیکھیں تو پاکستان کی آبادی 2050ء سے پہلے ہی دگنی ہوجائے گی۔ اس لیے معیشت کو سب سے بڑا خطرہ فوڈ سیکیورٹی کا ہے۔ ’پاکستان سال 2022سے گندم کا درآمد کنندہ ہے۔ اس سال پاکستان 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کرے گا اور اگر پاکستان نے گندم کی پیداوار میں اضافہ نہ کیا تو ہماری ادائیگیوں کا توازن مزید بگڑ جائے گا مگر پاکستان کے لیے اس میں ایک موقع بھی ہے۔ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں اس وقت گندم کی فی ایکڑ پیداوار 30 سے 40 فیصد کم ہے حالیہ بارشوں اور سیلاب سے پیداوار میں کافی کمی آئی ہے اگر پاکستان اپنی گندم کی پیداوار کو بہتر بنائے اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنے کے اقدامات کرے تو پاکستان گندم کے درآمد کنندہ ممالک کی فہرست سے نکل کر برآمد کنندہ کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں زرعی شعبہ غیر منظم اور بکھرا ہوا ہے۔ ذراعت کا شعبہ دستاویزی بھی نہیں ہے۔ زرعی شعبے میں سپلائی چین، تحقیق اور بیج پر تحقیق کے بڑے منصوبے بھی نہیں ہیں۔ مقامی کمپنیوں اور حکومت کو مل کر یہ صلاحیت پیدا کرنا ہوگی اور یہ منصوبے اس قدر بڑے ہونے چاہئیں کہ وہ اسٹاک مارکیٹ سے سرمایہ کاری حاصل کرسکیں. ’سیاسی اور معاشی رسک کو الگ الگ کرنے کے لیے چارٹر آف اکانومی پر جانا ہوگا۔ اس وقت ہم صرف لگی آگ بجھانے میں مصروف ہیں جبکہ ہمیں 10 سال کا چارٹر دینا ہوگا جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو دستخط کرنا ہوں گے. پاکستان میں بیجوں کی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے۔ باقی ہر ملک نے بیج اپنی مقامی زمین اور موسم کے مطابق ڈھال لیے ہیں۔ پاکستان کی زمین منفرد ہے، یہ نہ تو افغانستان اور نہ ہی بھارتی زمین کی طرح ہے۔ پاکستان کو بیج کی طلب مقامی زمینی حالات کے مطابق درکار ہے جس پر تحقیق اور سرمایہ کاری کی ضرورت ہے. ملکی ذراعت کو لارج اسکیل میکنائز فارمنگ پر جانا ہوگا۔ ٹریکٹر کے علاوہ دیگر زرعی میکنائز آلات کا استعمال بڑھانا ہوگا جو گندم، کپاس اور دیگر فصلوں کی پیداوار بڑھائے گی۔ کسانوں کی انجمن سازی ہونی چاہیے تاکہ وہ بیجوں، میکنائزیشن اور دیگر امور پر مل جل کر کام کرسکیں اور جدید ٹیکنالوجی کا بوجھ مل کر اٹھا سکیں۔ ملک میں اجناس کو محفوظ بنانے کے لیے سائلوز اور گوداموں کی ضرورت ہے۔ اس میں حکومت اور نجی شعبہ یا نجی شعبہ از خود بھی یہ کام کرسکتا ہے۔ اس بارے میں یہ ضروری ہے کہ اجناس کے ذخیرہ کرنے کے لیے جو بھی منصوبہ بندی کی جائے وہ بڑے پیمانے پر ہو یعنی کم از کم صوبائی سطح پر. پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ملک میں سوئی کے بڑے گیس ذخائر اور 2 بڑے ڈیمز بنانے کے بعد 1980ء کی دہائی کے اختتام تک پاکستانی معیشت کا انحصار مقامی توانائی پر تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ توانائی کی طلب بڑھنے، ڈیمز کی گنجائش میں کمی اور قدرتی گیس کے ذخائر ختم ہونے سے پاکستان میں انرجی سیکیورٹی اہم مسئلہ بن گئی ہے۔

روس دنیا میں گیس کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور اب روس-یوکرین جنگ کے بعد کس طرح سیال اور گیس ایندھنا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے. پاکستان کو توانائی میں اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی .اس وقت پاکستان میں 70 فیصد مقامی گیس اور 30 فیصد درآمدی گیس استعمال ہوتی ہے۔ مگر حالیہ سالوں سے مقامی گیس میں کافی حد تک کمی واقع ہورہی ہے اور اس کی وجہ سے انڈسٹری ایریا ، تجارتی اور گھریلو حالت پر جو مشکلات آرہی ہیں اگر پاکستان نے اب بھی اپنے مقامی وسائل پر توجہ نہ دی اور صورتحال اسی طرح سے تبدیل ہوتی رہی تو یہ تناسب الٹ جائے گا اور سال 2030ء تک درآمدی گیس 70 فیصد اور مقامی گیس 30 فیصد رہ جائے گی۔ پاکستان کی مجموعی درآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ایندھن کا ہے۔ رسک بالکل واضح ہے مگر اس میں ایک موقع ہے اور یہ سب کے سامنے ہے کہ ہمیں اپنے مقامی وسائل کا استعمال اور انحصار بڑھانا ہوگا. تھرکول پاکستان میں مقامی توانائی وسائل کی اہم مثال ہے۔ اس وقت فی کلو واٹ بجلی ایل این جی پر 27 سے روپے فی یونٹ ہے، درآمدی کوئلے پر 35 روپے ہے جبکہ مقامی کوئلے پر بجلی کی فی یونٹ قیمت 13.4 روپے ہوگی۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے پاس وسائل موجود ہیں۔ ہمیں توانائی کی درآمد کم کرنے کے لیے تھرکول کی طرح توانائی کے مقامی وسائل کو بروئے کار لانے کی حکمتِ عملی بنانا ہوگا .پاکستان کو متبادل توانائی پر جانا ہوگا کیونکہ پاکستان سالانہ 10 ارب ڈالر کا ایندھن درآمد کرتا ہے۔ اگر آئندہ 2 سال میں پاکستان متبادل توانائی کے استعمال کو 20 فیصد بڑھا لے تو درآمدی بل آدھا ہوکر 5 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ یہی وہ رقم ہے جس کے لیے ہم آئی ایم ایف اور دیگر قرض دینے والے اداروں کے پیچھے گھومتے ہیں۔ عالمی بینک کی تحقیق ہے کہ اگر پاکستان اپنی 0.7 فیصد زمین کو استعمال کرے تو اس کے ذریعے 24 ہزار میگاواٹ شمسی توانائی پیدا کرسکتا ہے۔ پوری دنیا اس جانب منتقل ہورہی ہے اور دنیا بھر میں متبادل توانائی پر منتقل ہونے کے لیے سرمایہ کاری دستیاب ہے جس کا فائدہ پاکستان اٹھا سکتا ہے۔ ملک کو موجودہ صورتحال اور مستقبل کے معاشی چیلنجز خصوصاً توانائی اور غذائی سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے مثیاق معیشت اس پر عمل درآمد کیا جائے اور حکومتوں کی تبدیلی سے اس پر کوئی فرق نہ پڑے یعنی کم از کم 10 یا 20 سال تک حکومتیں بے شک تبدیل ہوجائیں لیکن اس ایجنڈے اور چارٹر پر کام جاری رہے۔ معاشی مسائل کاحل ملک میں سیاسی استحکام اور سیاسی محاذ آرائی کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے ۔کوئی بھی حکومت یا تیر مار خان وزیر خزانہ یا آئی ایم ایف روایتی اور وقتی پالیسی ملک و قوم کو موجودہ سیاسی، معاشی بحرانوں سے نہیں نکال پائے گی۔سیاسی مسائل کو نظر انداز کرکے معاشی ترقی کا حل ڈھونڈنا پاگل پن تو ہوسکتا ہے مگر درست تجزیہ نہیں۔مضبوط اور مربوط سیاسی صف بندی اور اہم قومی سیاسی اور معاشی معاملات پرقومی قیادت اتفاق رائے سےہی ہم بحیثیت قوم موجودہ سیاسی، معاشی بحرانوں پر پائیدارانداز میں قابو پا سکتے ہیں۔ پاکستان کی جمہوری یا آمریت نے 75 سال سے اس ملک کو وقتی معشیت پالیسیاں تو دیں صرف اپنی جماعتوں یا اپنی شخصیتوں کو عوام سے ووٹ لینے اور اپنے آپ کو مقبول کرنے کے لیے مگر مُلک کو سوائے اُدھیڑنے کے لیے مگر عوام اور ملک کو کچھ نہیں دیا اگر اب بھی یہ ہی 75 سال والا کھیل کھیلا گیا تو پھر نہ ہی سیاسی جماعتیں اور نہ ہی اشرافیہ اس ملک کو بھنور سے نکالنے سے لاچار ہوجائینگی اب بھی وقت ہے اپنی آنے والی نسلوں کو دوبارہ کسی کے غلام نہ بناؤ روز حشر میں ان سب کی پکڑ ہوئیگی اُدھر نہ تمھارے ووٹ نہ تمھاری انتیظامیہ نہ ہی اشرافیہ اور نہ صاحب بہادر تمھارے کام آسکیں گے.

Engr, Shahid Siddique Khanzada
About the Author: Engr, Shahid Siddique Khanzada Read More Articles by Engr, Shahid Siddique Khanzada: 392 Articles with 191225 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.