پانچ فروری کس عزم کی یاد دلاتا ہے،کس ولولے،جوش سے بھر
پور ہے؟کس سے یک دل اور یک جان ہونے کا اعلان ہے؟سنا ہے ارادے کی پختگی،نیت
کا خلوص اور عمل میں استقامت منزلوں کا راستہ آسان کر دیتے ہیں۔80 سال ہونے
کو ہیں مگر میرا کشمیر اب بھی ارادوں کی مضبوطی کا منتظر ہے،وہ اب بھی ہم
سے بد ظن نہیں،صبر واستقلال کی تصویر بنے کشمیری مسلمان ہمارے با عمل بننے
کے انتظار میں شہادت کا رتبہ پاتے جا رہے ہیں مگر پاکستان پر جان چھڑکتے
ہیں۔قائد نے کیا خوب کہا تھا
وہ کون سا رشتہ ہے جس سے مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں،وہ کون سی چٹان ہے جس
پر ملت کی عمارت استوار ہے وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ
کر دی گئی ہے وہ رشتہ وہ چٹان وہ لنگر قرآن ہے۔
بلا شبہ کشمیری جب پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں تو یہی نظریہ ان کے
پیش نظر ہوتا ہے۔یہی رشتہ 74 سالوں سے جنت نظیر کو پاکستان سے جوڑے ہوئے
ہے،یہی چٹان جس پر کشمیری عمارت استوار کرنے میں مگن ہیں اور قرآن ہی کی
بدولت پاکستان کشمیریوں کے لئے اس لنگر کی مانند ہے جہاں تک وہ اپنی ڈوبتی
ناؤ کو پہنچانے کے مشن پر ہیں مگر ہے کوئی رشتے کی مضبوطی اور بقاء کے لئے
سرگرم عمل؟کیا واقعی ہم نے پاکستان کو اس چٹان کی طرح بنا لیا ہے جس پر
کشمیری عمارت استوار کر سکیں!کیا پاکستان کو ہم نے اس لنگر کی مانند بنا
لیا ہے کہ ملت کا ایک ٹکڑا کشمیر یہاں ہر اپنی کشتی محفوظ سمجھے؟
یقینا،یکجہتی کے اس پیغام کو بچے بچے کے ذہن میں راسخ کرنا ہم پر قرض ہے
یقینا شاعر نے درست کہا ہے کہ
کشمیر کے جنت بننے میں ممکن ہی نہیں تاخیر بہت
مگر یہ اسی صورت میں ہے اگر ہم ملت کے اس رستے زخم پر پھاہا رکھیں گے،ہم
اپنی نسل میں یہ شعر بیدار کریں کہ زخموں سے لہو لہان یہ سرخ نظر آنے والی
وادی جنت کا ٹکڑا ہے،ہماری شہ رگ ہے،جنت کو ٹھکرایا نہیں جاتا اور شہ رگ کے
بنا رہا نہیں جاتا۔اللہ کے لئے پانچ فروری کے دن یہ عہد کر لیجئے کہ ہم اس
جنت پر کسی 'شداد' کے قبضہ کو گوارا نہیں کریں گے،کوئی عبداللہ بن صباح اس
پر 'اپنی جنت' کا ٹیگ لگانے کا مجاز نہیں ہو گا۔ہم مذمت کرتے ہیں ہر ایسے
حکمران کی جس نے کشمیر پر سیاست کی مگر ملت کے مظلوم لوگوں کے درد کو محسوس
نہیں کیا ہم مذمت کرتے ہیں ہر ایسے حکمران کی جس نے کشمیر کا سودا کر کے
'تجربہ گاہ'(پاکستان) کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ہم حمایت کرتے ہیں ان
درد مند رہنماؤں کی جو امت کے فکری مسائل سے آشنا ہیں جو امت کے نبض آشنا
ہیں،جنہیں لہو لہو وادیوں اور ملکوں کے رستے زخموں کی فکر سونے نہیں دیتی
جو طبیب بن کر زخم کی وجہ بننے والے جراثیموں کا قلع قمع کرنے پر زور دیتے
ہیں۔
یقیناً،یہ سوچنا ہم پر واجب ہے کہ ہم اگر اپنے آپ کو بے بس سمجھتے ہیں اور
زخموں سے چور چور وادی کو کشمیریوں کا معاملہ سمجھ کر سکون سے بیٹھے رہتے
ہیں تو کشمیریوں کی عزتوں،جانوں،مالوں کی حفاظت کس پر قرض ہے۔
اب نہیں تو کب ہم نہیں تو کون
|