مسلم ممالک کے خلاف امریکا کی
دوغلی اور جارحانہ پالیسی کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ تو ایک ابدی حقیقت کی
ترجمان ہے ۔طاقت کے نشے میں چور امریکہ اپنے آباءکے نقوشِ پا پہ چلتے ہوئے
صلیبی جنگوں کا آغاز بہت پہلے کر چکا ہے جس کا نشانہ بلخصوص وہ مسلم ممالک
ہیں جو انفرادی طور پر یا کسی کے ساتھ ملکر اس کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں ۔وہ
یا تو انہیں سیاسی غلاموں کی طرح رکھنا چاہتا ہے یا پھر نیست و نابود کر
دینا چاہتا ہے۔یہ اس کی پالیسی ہے کہ وہ تین چیزیں کبھی برداشت نہیں کرتا ۔
ّ(۱) مسلمان آپس میں متحد ہو جا ئیں۔
(۲)مسلم ممالک معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم ہوں۔
(۳)کوئی مسلم ملک ایٹمی اور فوجی قوت کے طور پہ دنیا میں موجود رہے۔
عراق اور افغانستان کو تباہ کرنے اور وہاں پر اپنی مرضی کی حکومتیں قائم
کرنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ پر اپنا تسلط قائم کرنا امریکا کی مجبوری ہے۔اور
اس سلسلہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ایران ہے جس کا خطے میں ایک اپنا
جغرافیائی،سیاسی اور فوجی اثر و رسوخ ہے اور یہی بات ایران میں حکومت کی
تبدیلی یا اس پر حملے کا سبب بن سکتی ہے۔اس سلسلہ میں امریکہ کے مقاصد بڑے
واضح ہیں کہ
(۱)ایران پہ کنٹرول کرکے اور اس کے تیل پرقبضہ کرکے عرب ریاستوں پر معاشی
اور سیاسی تسلط قائم کرنا ۔(۲)اسرائیل کی توسیع اور تحفظ۔
(۳)مڈل ایسٹ میں امریکہ اور اسرائیل کی اجارہ داری قائم کرنا ۔
اگر ہم غور کریں تو مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور عراق ہی دو ایسے ممالک تھے
جو اسرائیل کو چیلنج کر سکتے تھے جن میں سے عراق کو تباہ کیا جا چکا اور اب
ایران کی باری ہے۔اس حوالہ سے 1996میں Clean Breakاور Rebuilding American
Defence Papers میں یہ بات واضح طور پہ کہی گئی ہے کہ امریکہ کو اسرائیل کے
تحفظ کے لئے اب جارحانہ پالیسی اپنانا پڑے گی اور اس کا پہلا ٹارگٹ عراق
اور پھر ایران ہو گا ۔عراق چونکہ اک آسان ٹارگٹ تھا کیونکہ قوم صدام کے
ساتھ نہیں تھی لہذا وہ پہلا شکا ر بنا اور منصوبے کے مطابق اب ایران کی
باری ہے۔تاہم اس سے پہلے شام کی حکومت کو بھی تبدیل کرنے کی زبردست کوشش
ہوگی۔منصوبے کے مطابق 2002میں بش نے اپنے خطاب میں ایران کو بدی کا محور
قرار دیکر اپنے عزائم کا اظہار کر کے منصوبہ کا آغاز کر دیا تھا۔پھر
اسرائیل اور ایران کے مابین دھمکیوں کا سلسلہ شروع کروایا تاکہ رائے عامہ
کو ہموار کیا جاسکے۔2002اور2003میں FBIنے اشارہ دیا کہ ایران کو شکار کرنا
ضروری ہو گیا ہے۔اور اس کے بعض گروپوں کو دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل کرکے
الزام لگایا کی ایران جوہری ہتھیا ر بنانے کا مستحکم ارادہ رکھتا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یو ایس سنٹرل کمانڈCENTCOMنے مئی 2003میں Departmnet
of Defence کی ہدایت کے مطابق ایران کے خلاف ممکنہ حملے یا آپریشن کا جائزہ
لیا اور اس کے لوازمات پر تفصیل سے کام کرنا شروع کردیا اور اس compaign
Anylsisکو TIRNNTکا نام دیا جس کے مطابق ایران کے ساتھ عراق طرز کی جنگ پر
زور دیا گیا ۔ گارڈین کے مطابق جولائی 2004 میں Cirginiaمیں واقع امریکی
بیس Fort Belvoirکے مقام پر جنگی مشقیں ہوئیں جن کا کوڈ نیم Hotspurرکھا
گیا ۔ان مشقوں میں برطانوی افواج نے بھی حصہ لیا جس کا واضح مطلب ہے کی
برطانیہ بھی اس حملے یا کاروائی میں امریکہ کا اتحادی ہو گا ۔ان مشقوں کے
بارے میں Ministry Of Defence نے کہا کہ یہ امریکہ اور برطانیہ کی مشترکہ
مشقیں تھیں جن کا مقصد اپنے آفیسرز کی صلاحیتوں کو آزمانا تھا جن میں ہم کے
مختلف ملکوں اور حالات کے مطابق اصل نقشے استعمال کئے ۔گارڈین نے مزید کہا
کہ عراق پر امریکی حملے کے ایک سال بعد ایران کے خلاف وار گیم میں برطانوی
افسران نے شرکت کی تھی جس کا مقصد ایران پر حملہ کی تیاری تھا۔
جولائی 2005 میں بش نے اسرائیل کو گرین سگنل دیا کہ اگر ایران کے ساتھ
مذاکران ناکام ہو گئے یا ایران نے گھٹنے نہ ٹیکے تو وہ ایران کے ایٹمی
پلانٹ پر حملہ کر دے۔اس پر جب بش سے سوال کیا گیا کہ اگر ایران نے بھی
اسرائیل پر جوابی حملہ کر دیا تو آپ کا ردِ عمل کیا ہوگا؟ اس پر بش نے جواب
دیا کہ اسرائیل ہمارا اتحادی ملک ہے اور اس طرح کی صورتِ حال میں ہم پکا
ارادہ کر چکے ہیں کہ ہم اسرائیل کی مدد کریں گے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ
اسرائیل اور امریکہ کے مابین اس طرح کا کوئی معاہدہ ہی نہیں ۔
American Strategic Commandنے 450ایرانی مقامات کی نشاندہی کی جن کو جنگ کے
دوران نشانہ بنایا جانا تھا۔جن میں سے کچھ ہارڈ ٹارگٹ بھی تھے جن کا تعلق
ایٹمی ہتھیاروں سے تھا۔ معروف تجزیہ نگار ٹوم ڈونلے نے انکشاف کرتے ہوئے
کہا کہ خطے میں بڑا خطرہ ایٹم بم نہیں بلکہ طاقت کا توازن بگڑنے میں ہے اور
ایران پر امریکی حملے کا سب سے بڑا مقصد ایرانی حکومت کی تبدیلی ہے۔ایران
کے ساتھ حالیہ مذاکرات بھی فراڈ ہیں کیونکہ ایک اہم امریکی عہدے دار کے
مطابق ہمارے پاس ایران کے ساتھ بات کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے ہم تجاویز اور
مطالبے میز پر رکھ چکے ہیں ۔ تھنک ٹینک کے مائیکل رجن کا کہنا ہے ایران سے
مذاکرات کا مطلب تہران کے رہنماﺅں کو عزت دینا ہے حا لانکہ یہ وہ لوگ ہیں
جو ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتے ہیںاور اسرائیل کے حق کو تسلیم نہیں کرتے اور
اپنے ملکوں میں بھی مقبولیت کھو چکے ہیں ۔
تریتا پارسی کے مطابق امریکی حکومت ایران کے خلاف مسلح کاروائی کرنا چاہتی
ھے جس کا اولین مقصد ایران کو جنگ میں الجھا کر اپنے عزائم کا حصول
ہے۔گارڈین کے مطابق ایران پر حملے کے کئے جو تاریخ مقرر کی گئی ہے وہ مشرقِ
وسطیٰ اور ایشیا ءکے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 2015تک ہے مگر ہوں لگتا
ہے کہ یہ کام ذرا پہلے ہو جائیگا۔ |