ستمبر 2001 امریکی تاریخ کا
تاریک ترین مہینہ تھا اور ستمبر2011 اسرائیل کے لئے منحوس ترین مہینہ بننے
جارہا ہے ایسا لگتا ہے صہیونی ریاست پر چہارجانب سے مشیت نے اپنا شکنجہ کس
لیا ہے ۔اس شش جہت حملے میں اس کا دایاں ہاتھ ترکی مروڑ رہا ہے اور بائیں
پنجے کو مصر کچل رہا ہے ۔ یہ دونوں ہاتھ عرصۂ درازسےاسرائیل کی وہ خدمت کر
رہے تھے جواس کے کسی اور حلیف کیلئے ممکن نہیں تھی ۔آگے سے محمود عباس
آنکھیں دکھلا رہے ہیں اور پیچھے سے وزیر خارجہ اویگڈور لائبرہمن
چھراگھونپنے کی تیاری میں ہیں ۔ایکطرف سرسے امریکی سرپرستی کا سایہ اٹھتا
جارہا ہے تو عوامی مظاہرے قدموں تلے کی زمین کھسکا رہے ہیں ۔ مشرقِ وسطیٰ
کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کیلئے یہ اشارات کافی ہیں لیکن چونکہ
ہندوستانی ذرائع ابلاغ کو اپنے داخلی مسائل سے فرصت نہیں اس لئے تفصیل کی
ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔
اس سال 11 ستمبر کو قاہرہ کی عدالت میں ایک مقدمہ کی سماعت ہونے والی ہے جس
میں نورہ الفرع نامی وکیل نے حکومت مصر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قاہرہ میں
واقع اسرائیلی سفارتخانہ بند کردے ۔ ایک اور مقدمے میں اسرائیلی فوج کے
ہاتھوں ہلاک ہونے مصری سپاہیوں کا قصاص پانچ بلین ڈالر طلب کیا گیا ہے ۔
ایلاط کے سانحہ کے خلاف منعقد ہونے والے مظاہروں کے درجِ ذیل مطالبات بھی
دورس نتائج کے حامل ہیں :
•اسرائیل کی جانب سےمعذرت کی درخواست
•حادثہ کی مشترکہ تفتیش
•اسرائیل کے سفیر ملک بدری
•مصری سفارتکاروں کی تل ابیب سے واپسی
•1979 میں ہونے والے کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں ترمیم
وسط ِاگست سےایلاط کی سرحد پر اسرائیلی گولی باری میں ہلاک ہونے والے مصری
اہلکاروں کے خلاف ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔اس کے دوران
ایک مرتبہ اسرائیلی ریڈیو کی ویب سائٹ کو اور اس کے بعد وزیر اعظم نتن یاہو
کی ویب سائٹ کو مصریوں نے اپنے قبضے میں لے لیا اور اس پر اسرائیل کے خلاف
مواد اور تصاویر لگا دیں۔اس کے علاوہ اسرائیلی سفارتخانے کی ۲۲ منزلہ عمارت
کی چھت پر ایک شخص تمام سفارتی انتظامات کو پھلانگ کر پہنچ گیا اور وہاں
موجود اسرائیلی پرچم کو پھاڑ کر مصری جھنڈا لہرا دیا ۔پھٹا پرچم جب نیچے
آیا تو اسے موجود مظاہرین نے جلادیا۔اس واقعہ نے راتوں رات احمد سہلات
نامی نوجوان کو مصری اسپائیڈر مین کی حیثیت سے مقبولِ عام کر دیا ۔ایلاط کے
مقام پر اسرائیلی فوجی بس پر مجاہدین نے گھات لگا حملہ کیا تھاجس میں ۸
یہودی فوجی ہلاک ہوئے اس کے جواب اسرائیلی فوج نے نہ صرف ۵ مصری حفاظتی
اہلکاروں کو شہید کیا بلکہ ۱۵ شہریوں کو غزہ میں بمباری کر کے ہلاک کر دیا
۔
ان بزدلانہ مظالم کے باوجود وزیر اعظم نتن یاہو نے غزہ پر فوجی کارروائی کی
دھمکی دے دی دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ نتن یاہو کو حزب اختلاف قدیمہ کی
رہنمازیپی لیفنی کی تائید حاصل ہو گئی اور اس نےپارلیمنٹ میں قرارداد پیش
کردی لیکن اس بار سخت گیر وزیراعظم اور ان کے بددماغ وزیر خارجہ بھی۲۰۰۸ کی
حماقت دوہرانے کی جرأت نہ کر سکے اور اس تجویز کوواضح اکثریت کے ساتھ
نامنظور کر دیا گیا جس کی وجہ یہ بتلائی گئی کہ موجودہ صورتحال میں مصر کو
مزید ناراض نہیں کیا جاسکتا ،ایسا کرنے کے نتیجے میں اسرائیل یکا و تنہا ہو
جائیگااور ایک ایسی مشکل میں پھنس جائیگا جس سے وہ ہر صورت بچنا چاہتا
ہےنیزاسرائیل کے پاس اس فوجی کاروائی کیلئے وافر جواز موجود نہیں ہے ۔یہ
کسی مبصر کے نہیں بلکہ وزیراعظم کے الفاظ ہیں جو اسکی کمزوری کا ببانگِ دہل
اعتراف کرتے ہیں ۔مصر میں برپا ہونے والے عوامی انقلاب سے قبل اس بات کا
تصور بھی محال تھا لیکن اب مصرحسنی مبارک کے اس نامبارک چنگل سے نکل چکا جس
نے اسرائیلی حملے کے وقت غزہ کی سرحد کو بند کرکے خود کوعذابِ الٰہی کا
مستحق بنا لیا تھا۔
ایک زمانے تک مصر سے بھی زیادہ اسرائیل کاحامی ترکی ہوا کرتا تھا لیکن
اسرائیل نے غزہ کی جانب آنے والی امدادی قافلہ فلوٹیلا پر حملہ کر کے ۸
ترکی باشندوں کے ساتھ ایک ترکی نژاد امریکی شہری کو شہید کردیا جس سے دونوں
ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی ۔اقوام ِ متحدہ نے اس واقعہ کی تفتیش
کرکے بالکل ویسی ہی رپورٹ تیار کردی جیسی کہ بابری مسجد تنازعہ میں الہ باد
ہائی کورٹ کا فیصلہ تھا اس میں عدل و انصاف کو بالائے طاق رکھ کرتمام
فریقوں کو خوش کرنے کی کوشش میں سبھی کو ناراض کردیا ۔
نتن یاہو نے رپورٹ کو ملتوی کرنے کی لاکھ کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ
ہوسکا ۔مذکورہ رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ اسرائیل نے طاقت کا بیجا
استعمال کیا مگر غزہ کے محاصرے کو جائز قرار دیا گیا جبکہ خود اقوام متحدہ
کی دیگر قرارداد اس کے خلاف ہیں۔چونکہ یہ حملہ بین الاقوامی سمندر میں نہتے
لوگوں پر کیا گیا اس لئے پوری طرح غیرقانونی تھا مگراس بابت مکمل خاموشی
برتی گئی ۔ ترکی حکومت نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے نہ صرف یہ مطالبہ
کیاکہ اسرائیل اپنی اس حرکت کیلئے غیر مشروط معافی مانگے بلکہ شہید ہونے
والوں کے ورثہ کو فی کس ۱۰ہزار ڈالے قصاص ادا کرےاور اسی کے ساتھ غزہ کا
غیر انسانی محاصرہ بھی فی الفور ختم کرے۔ترکیوں نے اپنے مطالبے کے پیش نظر
اسرائیلی سفیر کو واپس بھیج دیا اور اسرائیل کی سفارتی حیثیت کو کم کردیا
نیز تمام فوجی معاہدوں کو منسوخ کر ڈالا۔ اب ترکی حکومت اسرائیل کے خلاف
بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے جارہی ہے اور ممکن ہے اس ستمبر میں
وہ مقدمہ قائم ہوجائے ۔ اس مقدمہ میں ترکیوں کو کامیاب کرنے کیلئے اقوام
متحدہ کی رپورٹ میں کافی شواہد موجودہیں جسے سیاستدانوں نے تو نظر انداز
کردیا لیکن کسی عدالت کیلئے ایسا کرنا خاصہ مشکل ہے۔
اسرائیل کی حمایت جس طرح مصر اور ترکی کی حکومتیں کر رہی تھیں اسی طرح
فلسطینیوں کے گھر کا بھیدی محمود عباس بھی کرتا رہاہے۔محمود عباس کیلئے سب
سے بڑا مسئلہ حماس ہے جس نے پی ایل او کی اجارہ داری نہ صرف ختم کردی بلکہ
گزشتہ انتخابات میں اسے شکست فاش سے دوچار کردیا۔خود محمود عباس کی صدارتی
میقات ایک سال قبل ختم ہو چکی ہے اوروہ دوبارہ انتخاب لڑنے کی ہمت نہیں جٹا
پارہے ۔ اسرائیل کی دوستی نے ایکطرف ان کے اعتبار کو بری طرح متاثر کیا
دوسری جانب اسرائیل کی بدعہدی نے ان کا بیڑا غرق کردیا۔ نوآبادیات کی
توسیع بلا توقف جاری رہی اور اس سے نام نہاد امن گفتگو ایک ایسے تعطل کا
شکار ہوگئی کہ خود امریکہ بھی بے دست وپا ہوکر رہ گیا ۔ اب ہر طرف سے مایوس
ہوکر محمود عباس نے اسرائیل سے ناراضگی کی قیمت پر اپنی مقبولیت میں اضافے
کا داؤں رچایا اور اقوامِ متحدہ میں فلسطینی ریاست کی باقائدہ رکنیت کیلئے
جدو جہد میں لگ گئے ہیں،محمود عباس کے اس موقف سے اسرائیل و امریکہ دونوں
کی نیند حرام ہو گئی ہے ۔اب محمود عباس کو معاشی امداد کے منسوخ کرنے کی
دھمکی دی جارہی ہے لیکن یہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا نظر نہیں آ رہا ۔
جلاوطن فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان تو پی ایل او نے ۱۹۸۸ میں کر دیا
تھا کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد فلسطینی نمائندے کو اقوامِ متحدہ میں مستقل
مشاہد کی حیثیت سے شامل کیا گیا اور باقائدہ ممبران کے بعد سب سے پہلے اسی
کو بحث میں شامل کیا جانے لگا لیکن وہ ہنوز رائے دینے کے حق سے محروم ہے ۔
اس بیچ یہ ہوا کہ اقوام متحدہ کے ۱۹۳ ممبران میں سے ۱۳۰ نے فلسطین کی ریاست
کو تسلیم کر لیا اور ان ممالک میں اپنے سفارتخانے قائم کردئیے ۔اس
بارباقائدہ رکنیت کے لئے جنرل اسمبلی اور سیکیورٹی کاؤنسل کے دروازے
کھٹکھٹائے جارہے ہیں ۔ سیکیورٹی کاؤنسل میں یقیناً امریکہ اسے ویٹو کرسکتا
ہے لیکن اگر جنرل اسمبلی کی دوتہائی اکثریت اس کے حق میں رائے دے دے تو
امریکہ کچھ نہیں کر سکتا ۔۱۲۵ ممالک نے تجویز کے پیش ہونے سے قبل ہی اپنی
حمایت کا اعلان کردیا اور باقی لوگ تجویز کے آنے کا انتطار کر رہے ہیں۔اس
دوران ۲۳ ستمبر کو اقوامِ متحدہ کے ہونے والے اجلاس کے جاری شدہ پروگرام نے
ساری دنیا کو چونکا دیا ہے۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ۲۳ستمبر جمعہ کا دن ہے جسے دینِ اسلام میں تقدس کا
درجہ حاصل ہے ۔عالم اسلام میں تمام احتجاجی مظاہروں کیلئے اسی مبارک دن کا
انتخاب کیا جاتا رہا ہے۔ویسے تو مصری مسلمانوں نے عیدالفطر کے دن بھی
اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان خوشی اور غم کے ہر
موقع پر اپنی احتجاجی فرائض ادا کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔اقوام متحدہ کے
اس اجلاس میں محمود عباس کیلئے دوپہر ۱۲ بجے کا وقت مختص کیا گیا جو بڑے
سربراہانِ مملکت کیلئےخاص ہوتا ہے اور اس وقت سارے ہی ممبران حاضر ہوتے
ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم کیلئے رات نو بجے کا وقت تجویز کیا گیا ہے جبکہ اکثر
لوگ واپس جاچکے ہوتے ہیں۔ اسرائیل نےمذہبی بنیاد پر اسے یوم السبت میں کے
باعث اعتراض کیا ہے ۔اس اجلاس میں شریک ہونے کیلئے امریکہ اور اور اسرائیل
کی آنکھوں کا کانٹا سمجھے جانے والے ایرانی صدر احمدی نژاد بھی بنسِ نفیس
شریک ہورہے ہیں گویا اسرائیل کے زخموں پر نمک کے چھڑکاؤ کا انتظام زور شور
سے ہورہا ہے ۔گردشِ زمانہ نے اسرائیل کی وہی حالت پی ایل او کے سامنے کردی
ہے جو کبھی اس کے آگے پی ایل اوکی ہوا کرتی تھی کہ اسرائیل کا غلام بھی
اسے آنکھیں دکھارہاہے۔
اسرائیلی حکومت کی پشت میں چھرا گھونپنے کی تیاری خودوزیرِ خارجہ
اویگڈورلائبرمن کر رہا ہے ۔ یہ شخص چند سال قبل روس سے ہجرت کرکے اسرائیل
میں آیا اور صدیوں سے وہاں بسنے والے مسلمانوں سے اسرائیلی حکومت کی
وفاداری کا مطالبہ کرنے لگا اس کا کہنا ہے کہ اگر عرب اس کیلئے تیار نہیں
ہوتے تو انکو شہریت کے حق سے محروم کردیاجانا چاہئے ۔ وہ یہودی مہاجرین کے
حقوق کا بھی بہت بڑا حامی ہے۔پہلے یہ سرمایہ دار لکڈ پارٹی میں شامل تھا
مگر بعد میں اس نے اپنی مادرِ وطن پارٹی بنالی اور گزشتہ انتخاب میں ۱۵
نشستوں پر کامیابی درج کرلی ۔بنجامن نتن یاہو کو چونکہ اس بار واضح اکثریت
حاصل نہ ہو سکی اس لئے اس نے لائیبر من کی حمایت حاصل کرکے اسے وزیر خارجہ
بنا دیا لیکن لائبرمن پر دس سال قبل غبن کا الزام ہے اور ڈیڑھ سال قبل اس
کو رشوت ستانی کے معاملے میں بھی ملوث پایا گیا ہے ۔پہلے تو وہ کہتا تھا کہ
اگر میرے خلاف مقدمہ قائم ہوگیا تو میں استعفیٰ دے دوں گا لیکن اب وہ اپنے
وعدے سے مکر گیا ہے مبصرین کا خیال ہے کہ اگر اسے استعفیٰ دینا پڑا تو نتن
یاہو کی مخلوط حکومت کو خطرہ لاحق ہو جائیگا ۔ اب اپنی حکومت کو بلیک میل
کرکے اس پر دباؤ بنانے کیلئے اس نے نئی افواہ پھیلا دی ہے فلسطینی ایک بہت
بڑے پر تشدد مظاہرے کی تیاری کر رہے ہیں اس لئے حکومت کو پی ایل او سے
روابط توڑ لینے چاہئیں ۔یہ اس قدر بے بنیاد افواہ ہے کہ فلسطینی حکام کے
علاوہ خود اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے بھی اس کی تردید کردی ہے ۔
لائبر من کے اس مطالبے نے اسرائیلی حکومت کے لئے نئے مسائل کھڑے کر دئیے
ہیں ۔ایک طرف محمود عباس کو اقوامِ متحدہ میں قرار داد پیش کرنے سے روکنے
کیلئے اسرائیل انہیں کسی صورت مذاکرات کی میز پر لانا چاہتا ہے اور دوسری
جانب یہ احمق قومی مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے حکومت کو گرا
کر دوبارہ انتخاب کروانا چاہتا ہے تاکہ اس کی سیاسی حیثیت مضبوط تر ہوسکے
اور وہ متوقع ۱۰ سال کی سزا سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔اسرائیلی
سیاستدانوں کے بارے میں جو غلط فہمی پائی جاتی تھی وہ اپنے ملک کو اپنی ذات
پر ترجیح دیتے ہیں اسے وندے ماترم کا کلمہ پڑھنے والے لائبرمن نے دور کردیا
ہے ۔
اسرائیل کی بقاء اور استحکام کی بنیادی وجہ اسکی داخلی قوت نہیں بلکہ
بیرونی حمایت رہی ہے ۔ اس کے قیام کی حمایت کیلئے دو ازلی دشمن امریکہ اور
سوویت یونین یکجا ہوگئے تھے اور اس کے بعد سارا مغرب اسرائیل کا ہمنوا بنا
رہا اور تو اور اب اسے ہندوستان کی بھی مددو نصرت حاصل ہو گئی ہے لیکن فی
الحال امریکی ریاست اور امریکی صدر دونوں کی حالت بہت پتلی ہے اور وہ دونوں
خود اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہیں ۔اسرائیل کےلائبرمین اور زیپی لیونی کی
طرح امریکہ کی حزبِ اختلاف جماعت بھی اوبامہ کا بیڑہ غرق کرنے کیلئے قومی
مفادات سے کھلواڑ کر رہی ہے۔اوبامہ اپنی مقبولیت میں اضافے کے پیش نظر
عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کا اعلان کرتے ہیں تاکہ آئندہ انتخاب میں
کامیابی حاصل کی جائے لیکن ریپبلکن ان کو اپنے اس ہدف سے محروم کرنے کیلئے
ان کاموں میں روڑا اٹکاتے ہیں تاکہ اوبامہ کی ناکامی کا سہارا لے کر خود
اپنی سیاسی روٹیاں سینک سکیں ۔ اس رسہ کشی میں ری پبلکن پارٹی اپنی کانگریس
(پارلیمان) کے اندر اکثریت کے باعث کامیاب ہو جاتی ہے۔ہاتھی اور گدھے کی اس
لڑائی میں ایک طرف جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے اور دوسری طرف عوام کا نقصان ہو
رہا ہے ۔سیاسی جماعتوں کی اس چکی میں عوام پس رہے ہیں ۔
اسرائیل کے سر پر جو سب سے مضبوط سائبان امریکہ کا تھا اس میں ہر روز ایک
نیا چھید ہورہا ہے ۔اس کے دست و بازو مفلوج ہو رہے ہیں ۔یہودیوں نے اللہ کو
چھوڑ کر جن کا سہارہ پکڑا تھا ان کی مثال مکڑی کے جال کی سی تھی جیسا
فرمانِ خداوندی ہے ‘‘جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دُوسرے سرپرست بنا لیے
ہیں اُن کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے
زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے کاش یہ لوگ علم
رکھتے’’(۴۱:۲۹)تاریخ شاہد ہے کہ ایسے تمام لوگ جو کمزور سہاروں کی بنیاد پر
اپنا گھر بناتے ہیں وہ بالآخر اس آیت کی زندہ تفسیر بنا دئیے جاتے ہیں جس
میں فرمایا گیا ‘‘آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا، پھر ان میں
سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی، اور کسی کو ایک زبردست دھماکے
نے آ لیا اور کسی کو ہم نے زمین میں دھسا دیا، اور کسی کو غرق کر دیا اللہ
اُن پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے’’
(۴۰:۲۹)۔
اس تباہی و بربادی کی فضا میں حق کا سراپا منتظر شاعرانتظار نعیم امید کی
ایک نئی کرن دیکھ لیتا ہے اور کہتا ہے
اک نئے عہد کی تعمیر کا موسم آیا
قصرِطاغوت ہواؤں میں بکھرتا دیکھوں
(اسرائیل میں حکومت و نظام کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں کی وجوہات اور
متوقع اثرات پرگفتگو انشا اللہ دوسری قسط میں ہوگی) |