جمہوری اقدار اور سیاسی بھنور

سرزمین برصغیرپاک و ہندمیں مختلف قومیں اُس وقت بھی آباد تھیں جب یہاں اسلام کا نام لیوا کوئی ایک شخص بھی نہ تھا ۔۔ اُن وقتوں میں حکومتیں آہنی طاقت اور دولت کی بنیاد پر ہوا کرتی تھیں اسی وجہ سے رعایا اور حاکموں میں مستقل فاصلے رہتے تھے ۔۔۔۔ بادشاہوں، ماہ راجاﺅں اور شنہشاہوں کے حواری جن میں وزیر ،مشیر اور سپہ سالار ایک اعلیٰ طبقہ میں دیکھے جاتے تھے جبکہ رعایا کا کام حکومتی طبقے کی عیش وآسائش کا سامان بہم کرنا تھا ، عوام کو خود پر ظلم کرکے اور ان کے بے شمار ظلم کو سہتے ہوئے انہیں وہ سب کچھ فراہم کرنا تھا جو ان کے دل و دماغ میں سمایا ہوتا تھا ، رعایا گویا حکومتی عیش و عشرت کے ساماں کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھی جاتی تھی اور حکم عدولی کے سبب سخت سے سخت سزا کا مرتب بھی کہلاتی تھی اسی لیے کسی میں بھی بغاوت کرنے کا گماں بھی پیدانہ ہوتا تھا، قانون ، عدل و انصاف، انتظامیہ، کھیتی باڑی و تجارت سب کی سب حکومت کو سہولت باہم پہنچانے کیلئے عمل پزیر ہوتی تھیں ،اُس دور میں حکومتی سیاست انتہائی سنگین سطح پر تھی جس میں منافقت، جھوٹ،رعیا کاری، مکار پن، عداوت، نفاق جیسی شدید برائیوں کا مجمع تھی ، اس سبب حاکم اعلیٰ کو کسی بھی نائب،ماتحت اور افسر شاہی پر قطعی بھروسہ نہیں ہوتا تھا ۔حکومت میں اندرونِ خانہ گھناﺅنی سازشوں کا انبار ہوتا تھا۔یہ وہ دور ہے جب یہاں کے باشندے بت اور دیگر اشیاءکی پوجا پاٹ کیا کرتے تھے یعنی اُس وقت دین محمدی دنیائے میں ظہور نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔اس دور میں انسان نے یوں تو کئی فن و ہنر کے کارنامے دکھائے جن میں اہرام مصر، ومنات کا مندر(بھارت)، موئن جو ڈرو (لاڑکانہ)، کاہو جو ڈرو (میرپورخاص)، ہڑپا (ساہیوال)، ٹیکسلا (ہزارہ) ، چوکنڈی (کراچی) ، مکلی(ٹھٹھہ) جیسے اور بہت ساری آثار قدیمہ آج ہمارے سامنے اُس دور کے لوگوں میں موجود ہنر و فن کو ظاہر کرتی ہیں۔۔۔۔ نبی الآخر زماں حضور کائنات محمد ﷺ کے آنے کے بعد آپ کے دین محمدی یعنی دین اسلام نے سیاست ،حکومت اور عوام کو نہ صرف حق دیا بلکہ بہترین طریقہ سے بھی نوازا، جنھوں نے آپ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ کار کو اپنایا اُس نے نہ صرف اعلیٰ ترین حکومت کی بلکہ پوری دنیا میں سرفراز رہا جیسے آپ ﷺ کے جانثار صحابہ کرام و اجمعین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے ادوار گزارے ۔جن میں خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ،خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، خلیفہ سوئم حضرت ذوالنورین عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔۔ خلفائے راشدین کا دور حکومت عالم اسلام کیلئے مشعل راہ ہے کیونکہ ان ادوار میں کئی فتنوں نے جنم لیا تھا اورخلفائے راشدین نے ہر لمحہ اللہ اور اس کے رسول پاک ﷺ کے احکامات کی روشنی میں رہتے ہوئے بلا تفریق اورکم تر و بالاتر حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے جزا و سزا کا عمل جاری رکھا اور کسی طور اسلام کے اصول سے ہر گز نہ ڈگمگائے کیونکہ یہ جانتے تھے کہ سچ اور حق اللہ کی طرف سے تحفہ اور بہت بڑی نعمت ہے جسے اپنانے سے رضائے الٰہی حاصل ہوتی ہے اسی لیئے صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کیلئے دین اسلام کے قوانین کے احکامات کو اپنے دور حکومت میں رائج رکھا۔۔۔دنیا میں مدینة المنورہ کے بعد دوسری اسلامی ریاست پاکستان ہے جو خالصتاً اسلام کے نام پر معروض وجود میں آئی ہے۔ ۔۔ پاکستان کے خطے کا انتخاب اللہ اور اس کے رسول پاک ﷺ نے خود کیا تھا جس زمین کو اللہ نے آزاد اسلامی ملک کیلئے منتخب کیا ہو اسے بھلا کون مٹا سکتا ہے یا اس پر اپنی حاکمیت کون دعویدار ہوسکتا ہے جو لوگ پاکستان کے حاکم کہلوانا چاہتے ہیں وہ بھول گئے کہ بغیر رضائے الٰہی وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہو سکیں گے یوں کفار نے بھی اللہ کے دین کی مخالفت میں کئی جنگیں لڑی لیکن ہمیشہ ایمان والوں کو کامیابی نصیب ہوئی کیونکہ سچے، ایماندار بندﺅں کے ساتھ اللہ کی رضا شامل رہتی ہے اور جو جھوٹے اور بے ایمان ہوتے ہیں ان کی نسلیں تک ختم ہو جاتی ہیں جیسے آج تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دھن، دولت ، اختیارات اور سیاسی طاقت ہونے کے با وجود جب اللہ کے غضب نے انہیں جکڑا تو پوری کائنات میں انہیں بچانے والا نہ تھا ان میں شیخ مجیب الرحمن کا خاندان، اندرا گاندھی کا خاندان، ذوالفقار علی بھٹو کا خاندان۔۔۔پاکستان جو خالصتاً اسلامی اساس و بنیاد پر معروض وجود میں آیا اس کی بد قسمتی رہی کہ اس کے وجود میں آنے کے بعد مخالف پاکستان گروہ نے پاکستانی سیاسی و انتظامی حدود میں داخل ہونا شروع کردیا اور یوں آہستہ آہستہ پاکستانی قوم کو لسانی و قومیت میں تقسیم در تقسیم کرڈالا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان اپنے دائیں بازو مشرقی پاکستان سے محروم ہوگیا اور اس طرح یہ نہ ختم ہونے والا زہر مغربی پاکستان میں بڑھنے لگا ، اُدھر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں نیا ملک دنیا کے نقشہ پر ابھرا اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش نے اپنے معاشی ، معاشرتی، سیاسی ، تعلیمی و صحت کے میدان میں ترقی حاصل کی اور یوں آج یہ پاکستان سے بہتر ہے ۔ مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان میں مخالف گروپوں نے یہی قومیتی زہر کو پھیلانا شروع کردیا حتیٰ کہ اس میں بسنی والی تمام قوموں میں شدید فاصلے پیدا کردیئے گئے اور یوں اب پاکستان زندہ باد کہنے والا کوئی شہری نظر نہیں آتا البتہ رنگ و نسل کے نعروں سے زمین گونجتی نظر آتی ہے گھر وسرکاری دفاتر میں پارٹی و تنظیم کے جھنڈے اور نغمے سنے جاتے ہیں ۔۔

موجودہ حالات میں پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون نظر آتی ہیں جبکہ صوبائی سطح پر عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچ فرنٹ آرگنائزیشن اور بہت۔۔۔ پاکستان کا سیاسی و انتظامی ڈھانچہ انتہائی ناپید اور فرسودہ ہے اس سلسلے میں ،میں نے کئی کالم بھی لکھے ہیں ۔۔۔۔درحقیقت پاکستان اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کے نظام کو جدید طرز پر استوار نہ کیا جائے جس میں کمپیوٹرائز خانہ شماری مع اسکینگ، الیکشن کو مکمل پروف اسکینگ بنایا جائے ، تھانے اور عدالتوں کو نیٹ ورکنگ کے ذریعے منسلک کردیا جائے تاکہ پاکستان بھر کے تمام تھانے ایک دوسرے کے ایف آئی آر کو دیکھ سکیں اور کیسس کو حل کرسکیں اسی طرح سیشن کورٹ، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ، اینٹی نارکوٹکس کورٹ وغیرہ کو آپس میں کمیونیکشن کے تحت کمپیوٹرائز منسلک کردیا جائے۔۔۔تمام ایجنسیوں کے مقدمات کو بھی نیٹ ورکنگ کے ذریعے عدلیہ سے منسلک کردیا جائے تاکہ کیس کو حل کرنے میں آسانی ہو اور کم وقت میں فیصلہ کردیئے جائیں ۔ ۔۔۔صدر مملکت محمد آصف زرداری جانتے ہیں کہ موجودہ نظام میں جس قدر بھی کرپشن ہو وہ پکڑی نہ جاسکے گی کیونکہ احتسابی عمل انتہائی کمزور اور ناکام ہے اور اس طرح مجرم اپنے کیئے کی سزا سے بچا رہ سکتا ہے ، یہ حقیقت ہے کہ محمد آصف علی زرداری نے پاکستان میں بسنے والی سیاسی جماعتوں اور لیڈاران کا نفسیاتی ، اخلاقی ، سیاسی گہرا مطالعہ کیا ہے یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس کو کس طرح کسا جاسکتا ہے اسی وجہ سے آج ساڑھے تین سال احسن طریقے سے گزار دیئے ہیں ، صدر مملکت آنے والے سینیٹ کے ا لیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں اسی سبب انھوں نے تحمل مزاجی، بردباری اور عقل و شعور کو استعمال کرتے ہوئے باہم مشاورت کے عمل کو اپنایا ہوا ہے اور خود کو دور رکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے مختلف امور پر کام لے رہے ہیں ، پاکستان پیپلز پارٹی کی جب بھی حکومت بنی ہے کبھی بھی پاکستان میں ترقی کی راہیں نہ کھل سکی ہیں اس کے برعکس سیاسی انتشار اور بے چینی ہمیشہ سے دیکھی گئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا پارٹی میں سیاسی حکمت عملی کا رخ تبدیل کیا ہے کہ نہیں ۔۔۔۔۔ ۔۔مانا کہ لوٹ مار، اقربہ پروی کا سلسلہ ہر سیاسی پارٹی میں رہاہے مگر کیا پاکستان پیپلز پارٹی چند ماہ میں یعنی اب اس کی حکومتی میعاد کو کچھ ماہ ہی رہ گئے ہیں اس میں بہتری کی طرف جا پائے گی یا نہیں ؟؟ یا یہ اپنے اندر پائی جانے والی بد نظمی اور سیاسی انتشار کو روک پائے گی کہ نہیں؟؟کیا ذوالفقار مرزا کو مسلسل متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف زہر پھیلانے سے روک پائے گی کہ نہیں؟؟ ممکن ہے صدر محمد آصف علی زرداری نے ان پہلوﺅں پر طرف نظر ضرور ڈالی ہوگی۔۔۔۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ ذوالفقار مرزا کو سندھی انتہا پسند جماعتیں روشن مستقبل کا خواب دکھا کر انہیں متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف شدت کے ساتھ استعمال کر رہی ہیں تو ایک طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ غیر سندھیوں نے سندھ میں اپنے تحفظات کے خاطر انہیں استعمال کیا ہے ۔ایک طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ ذوالفقار مرزا کو ایجنسیوں نے استعمال کیا ہے اور ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے مطابق یہ صدر محمد آصف زرداری کی سیاسی چال ہے اور آخر میں ایک طبقہ کا کہنا یہ بھی ہے کہ ذوالفقار مرزا ذہنی بیمار ہو گئے ہیں اسی لیئے اُول فول بکنا شروع کردیا ہے بحرکیف ذوالفقار مرزا کے بیانات کسی بھی سیاست کے اصولوں، ضابطوں، نظریوں پر نہیں اترتے بلکہ یہ بیانات صرف اور صرف ذاتی عناد، نفرت، نا کامی، عداوت، بغض، کینہ کی عکاسی کرتی ہے اور ایسے انسان طبی دنیا میں ذہنی بیمار انسان کہلاتے ہیں۔ تمام سیاسی لیڈاران کا کہنا ہے کہ اگر وہ سچے ہیں اور اللہ کی ذات سے ڈرتے ہیں تو اپنے دور اقتدار میں انھوں نے ان رازوں کو کیوں چھپائے رکھا اور کرسی چھین جانے کے غم میں اب کہا ہے گو یا انہیں صرف اپنی ذات ہی پیاری ہے یعنی خود غرضی کا مادہ انتہا کو پہنچا ہوا ہے ایسا انسان جو انتہائی خود غرض ہو وہ بھلا عوام الناس کی کیا خدمت کرسکے گا ۔۔۔۔۔ ذوالفقار مرزا نے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف دستاویزات در دستاویزات دکھائیں، اگر ذوالفقار مرزا کے الزامات کی کوئی اہمیت ہے تو حکومت نے ان دستاویزات کو تسلیم کیوں نہیں کیا؟ ان الزامات کے باوجود ایم کیو ایم کی حکومت میں شمولیت کیوں برقرار رہی۔۔؟ ذوالفقار مرزا نے ایم کیو ایم پر سب سے سنگین الزام یہ لگایا کہ ان سے اور پیر مظہر الحق سے مشترکہ ملاقات میں الطاف حسین نے پاکستان توڑنے کی سازش میں امریکہ کا ساتھ دینے کا اعتراف کیا اس پر وزیراطلاعات نے کہا کہ ذوالفقار مرزا کے الزامات ان کی ذاتی رائے ہے۔۔ اگر حالات کی خرابی میں واقعی ایم کیو ایم کے لوگ ملوث ہیں تو ساری ذمہ داری حکومت پر آتی ہے کہ اس نے انہیں روکاکیوں نہیں، ذوالفقار مرزا نے الزامات کا پٹارا اس وقت کھولا ہے جب سپریم کورٹ نے کراچی کے حالات پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے مقدمے کی بلاتعطل سماعت شروع کررکھی ہے، سپریم کورٹ لگتا ہے کہ اب اس معاملے کی تہہ تک پہنچ کررہے گی۔۔ذوالفقار مرزا نے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے خلاف بھی سنگین بیانات دیئے ،ذوالفقار مرزا نے اپنی توپوں سے ایم کیوایم کو ہی نہیں اپنی حکومت کو بھی دہلا کررکھ دیا، وہ پیپلزپارٹی کے اپنے ساتھیوں، وزیر اعلیٰ سندھ اور صدر زرداری پر بھی بالواسطہ تنقید کرتے نظر آئے ہیں،انھیں عدالت کو یہ بتانا ہوگا کہ ان کی حکومت ایم کیو ایم کے خلاف ایکشن میں کیوں ناکام ہوئی، پی پی پی نے ذوالفقار مرزا کے الزامات سے اظہار لاتعلقی کیا ہے تاہم حکومت کو ثابت کرنا ہوگا کہ ذوالفقار مرزا کے پاس جھوٹی یا سچی دستاویزات ہیں یا حکومت کو اس سلسلے میں تحقیقات کرنا ہوں گی۔۔۔ذوالفقار مرزا نے کراچی میں قتل کی وارداتوں اور قاتلوں کا تعلق براہ راست ایم کیو ایم سے جوڑا ہے اور یہ الزامات لگاتے ہوئے وہ ایک لمحے کو بھی نہیں جھجک رہے ہیں۔ ۔۔ جبکہ رمضان المبارک کے ماہ سے چند دن پہلے اور دوران رمضان اے این پی کے کارکنان نے کٹی پہاڑی ، قصبہ کالونی اور بنارس میں انسان سوز بربریت کی تاریخ رقم کی جس میں اردو بولنے والوں کو سفاک طریقے سے نہ صرف گولیوں سے شہید کیا گیا بلکہ جسموں کو کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے بند بوریوں میں شہر کراچی میں مختلف اردو بولنے والی آبادیوں میں پھینک دیا گیا اور خوف و وہشت کا ماحول پیدا کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری اور پاک فوج کی از خود مداخلت پر حکومتی وقت کو خیال آیا کہ پاکستانی شہری دہشت گردوں کے ہاتھوں ذبح ہو رہے ہیں جبکہ حکومت سندھ ان حالات پر کان اور آنکھیں بند کیئے بیٹھی رہی۔۔۔۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے الزام لگایا کہ سی پی ایل سی پر بھی ایم کیو ایم کا قبضہ ہوگیا ہے۔ احمد چنائے دراصل ایم کیو ایم کی سماجی ونگ کے رکن بھی ہیں، انہیں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی مخالفت کے باوجود سی پی ایل سی کا چیئرمین بنادیا گیا، ذوالفقار مرزا نے الطاف حسین، ڈاکٹر عشرت العباد، بابر غوری اور انیس قائم خانی پر بھی الزامات لگائے یہ واقعی ان کے ذاتی خیالات ہیں یا وہ پارٹی کے خیالات کی ترجمانی کررہے ہیں یا کسی نے پیچھے سے انہیں تھپکی دی ہے کہ وہ یہ بیانات دیدیں کیونکہ ابھی تک لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اتنا دھماکا خیز بیان اور اتنے دھماکا خیز الزامات ذوالفقار مرزا تنہا ہی لگارہے تھے۔ پاکستان کے ساتھ کوئی بین الاقوامی سازش تو نہیں ہورہی ہے، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان خلیج کو پاٹنے میں برطانوی سفارتکاروں نے بہت کلیدی کردار ادا کیا ہے اور مسلسل چار ہفتوں سے برطانوی سفارتکار انتہائی باریک بینی سے کوشش کررہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان شراکت اقتدار کا فارمولا پھر طے ہوجائے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے مقتدر غیرسیاسی حلقے بھی وہی کام کررہے ہیں جو برطانوی سفارتکار کررہے ہیں۔۔۔ یہ جتنے الزامات لگائے گئے ہیں اورجتنے ثبوت پیش کئے گئے ہیں یہ حکومت کی ملکیت ہیں۔ حکومت کے پاس جب یہ ثبوت موجود ہیں تو اس نے کیوں اصل ملزمان پر پردہ ڈالا ، کیوں ان کے خلاف کاروائی نہیں کی۔ اگر یہ تمام الزامات درست ہیں اور اس پر حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا ہے تو یاد رکھئے سپریم کورٹ آف پاکستان اس کیس کی سماعت کررہی ہے اور حکومت کیلئے اس کے نتائج انتہائی سنگین ہوسکتے ہیں۔ ۔۔ دراصل یہ مفادات کی جنگ ہے، کراچی کی مہنگی زمین کےلئے یہ سارے گروہ آپس میں لڑ رہے ہیں، یہ سیاست دان نہیں گینگسٹرز ہیں جنھوں نے بڑے بڑے معززین کا روپ دھار لیا ہے۔۔۔ ذوالفقار مرزا کا سب سے سنگین الزام یہ تھا کہ امریکہ پاکستا ن کے ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہتا ہے اور الطاف حسین امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔

سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے کہاہے کہ ممتازبھٹواورالطاف انڑ لاڑکانہ کے سب سے بڑے قبضہ گروپ ہیں جبکہ دادو میں لیاقت جتوئی اورٹھٹھہ میں شیرازی سب سے بڑے قبضہ گروپ ہیں۔ ذوالفقار مرزا نے کہاکہ کچے کے علاقے میں زیادہ زمین لیز نہیں کی گئی جو لیز دی گئی ہے وہاں پچیس فیصد پر جنگلات لگانا ضروری ہے۔سندھ کے سابق صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت انہیں ہٹانے کے لیے صدر آصف علی زرداری پر دباؤ ڈالتی رہی ہے۔مگر ایم کیو ایم نے ڈاکٹر مرزا کی ’رخصت‘ کو پیپلز پارٹی کا اندرونی معاملہ قرار دیا اور کہا ہے کہ ایم کیو ایم نے کبھی بھی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو ہٹانے کا مطالبہ نہیں کیا۔موجودہ حکومت کے ساڑھے تین سال میں متحدہ قومی موومنٹ تین بار حکومت سے علیحدگی اختیار کرچکی ہے، جس میں ہر بار کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا حوالہ شامل رہا ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی نائن زیرو آمد کے بعد ایم کیو ایم صوبائی حکومت میں تو واپس آگئی مگر وفاقی کابینہ میں شمولیت پر آمادہ نہیں ہوئی۔۔ایک طبقہ کا کہنا ہے کہ شہر میں کئی نوگو ایریاز موجود ہیں، کٹی پہاڑی، لیاری، بلدیہ ٹاﺅن، شیرشاہ، شیر پاﺅ کالونی، قائد آباد، بنارس چوک، اورنگی، کورنگی اور لانڈھی کے محلوں میں سرحدیں کھنچی ہوئی ہیں جہاں دہشت گردوں کی حکمرانی ہے اور حکومت صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی ہے۔۔پاکستانی فوج کی جانب سے بار ہا بار تنبیہ کی گئی ہے کہ انتظامی امور اور سیاسی ماحول کو بہتر بنایا جائے مسلسل قتل و غارت گری کا خاتمہ یقینی بنایاجائے بصورت دیگر حکوتی ناکامی پر افواج پاکستان اپنے اختیارات کو استعمال کرنے پر پابند ہوجائے گی ، جمہوری حکومت پر ریاست میں امن و امان کی ذمہ داری حکومت وقت پر ہوتی ہے اور اگر حکومت امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہوجائے تو فوج حکومت کا نظام سنبھالنے کی پابند ہوتی ہے ، اگر یہی حالت جاری و ساری رہے تو شائد صدر پاکستان محمد آصف علی زرداری کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا کہ وہ سینیٹ کے الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں، اسی لیئے پاکستان پیپلز پارٹی متحدہ قوی موومنٹ کو حکومت میں لانے کیلئے کوشاں ہیں تاکہ متحدہ کی جانب سے بھی مزید ووٹ حاصل ہوسکیں ، ان حالات میں صدر پاکستان محمد آصف علی زرداری کسی بھی جماعت کی مخالفت کے متمنی نہیں ہیں یہ ہوسکتا ہے کہ سینیٹ کے الیکشن کے بعد کسی کی کوئی ضمانت نہیں؟؟؟؟۔۔۔۔ آپس میں لڑاﺅ اور حکومت کرو۔۔کے فلسفہ پر صدر مملکت محمد آصف زرداری کار فرما ہیں۔۔۔۔ پاکستانی بیوروکریٹس اور افواج پاکستان جو کہ عوام الناس کے ٹیکس سے تنخواہ دار ہوتے ہیں یہی پاکستان کی بقاءو سلامتی کیلئے ایسے اقدامات کو اسمبلی سے پاس کروائیں جو براہ راست پاکستان اور پاکستانی قوم کیلئے مثبت ، پائیدار اور ترقیاتی امور پر قائم ہو جس میں مکمل تحفظاتی نقاط کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کیا جائے، ٹیکسوں کی وصولی سے لیکر ووٹنگ سسٹم تک ،اسکینگ اور کمپیوٹرائز ڈیٹنگ سے لیکر دوہری شہریت کا مواد، کرائم سے لیکر جرائم کے تفصیلی جائزے، سیاسی مالی ریکارڈ سے لیکر سیاسی نظریات تک، مذہبی درسگاہوں کے مالیات سے لیکر ان کے کردار تک،حکومتی ادروں کے نرخ سے لیکران کی کارکردگی تک ان سب میں بہتری لانے کیلئے جدید خطوط پر استوار کرنا اب ناگزیر ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا صحیح احتسابی عمل اور قانونی تادیبی کاروائی کے عمل کو بھی شفاف بنانے کی ضرورت ہے ، تن ہی ہم پاکستان کو ایک مستحکم اور ترقی کی راہ پر دیکھ سکیں گے۔ بالخصوص کراچی شہر میں قانون کے مطابق عدلیہ عظمیٰ کو چاہیئے کہ وہ لینڈ مافیہ کا کلی طور پر خاتمہ کیلئے مضبوط سطح پر گرینڈ آپریشن کرائے بلا تفریق غیر قانونی قابضین کو بے دخل کیا جائے اور حق دار کو اس کی زمینیں دی جائے اس کے ساتھ سرکاری املاک پر قابضین کا خاتمہ یقینی بنایا جائے تاکہ اس طرح لوٹ مار اور بربریت کے دور کا خاتمہ ہوسکے یاد رہے اس معملہ کو شفاف انداز میں اپنایا جائے تاکہ کبھی بھی پھر کوئی لینڈ مافیہ اپنی کاروائی میں دوبارہ مصروف نہ ہو سکے۔۔۔۔ ہر پاکستانی کو اپنے دلوں کی میل کو سچائی کے ساتھ ختم کرکے خالصتاً وطن عزیز کیلئے یکجا ہونا پڑے گا ۔آمین انشاءاللہ ضرور ، مایوسی کفر ہے!!!
Jawed Siddiqui
About the Author: Jawed Siddiqui Read More Articles by Jawed Siddiqui: 310 Articles with 246068 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.