پاکستان میں دہشت گردی نے پھر سر اٹھا لیا

وطن عزیزمیں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے سے ایک نئے خطرے کے احساس سے دو چار کر دیا ہے اور لمحہ بہ لمحہ یہ عدم تحفظ اورامن وامان کی سنگین صورتحال میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دشمن ہمیں تباہ کرنے کیلئے چالیں چلنے میں مصروف عمل ہے اور ہم ہیں کہ اسمبلیاں توڑنے اور انتخابات کا کھیل رچانے میں سر گرم ہیں ۔2022 ء کا اختتام دہشت گردی سے ہوا اور اب نئے سال 2023ء میں بھی کے پی کے اور سابق فاٹامیں سی ٹی ڈی اورسیکورٹی فورسز پر حملوں نے دل دہلا کر رکھ دیا ہے۔گزشتہ دنوں پشاور پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے پرپوری قوم سکتے میں ہے کیونکہ سجدہ ریز نمازیوں کو جس سفاکی اور ظالمانہ طریقے سے شہید کیا گیاوہ ناقابل بیان ہے۔سانحہ پشاور جس میں 100سے زائدشہید اور200 کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں آرمی پبلک سکول میں 16 دسمبر 2014ء کو پیش آنے والی گھناؤنی کارروائی کی ہی ایک کڑی ہے۔حکومت پاکستان اور دیگر انٹیلی جنس ادارے اس افسوسناک واقعہ کے بعد امن و مان کی صورتحال پر تفصیلی غور کر رہے ہیں کہ سخت سکیورٹی حصار میں ایک دہشت گرد بآسانی پولیس لائنز میں کیسے داخل ہوا ؟۔دہشت گردی جس کا کوئی دین اور مذہب نہیں کے خاتمے تک چین سے نہ بیٹھنے کے روایتی بیانات ایک مرتبہ پھر سے سنائی دے رہے ہیں لیکن مقام افسوس ہے کہ ایسے روح فرسا واقعات میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی ۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس قصہ خوانی بازار میں جمعہ کے روز جامع امامیہ مسجدکوسیاہ کپڑوں میں ملبوس خودکش حملہ آوروں نے انسانی خون سے رنگین کر دیاتھا،اس دلسوز واقعہ میں 65افراد کی شہادت اور200سے زائد زخمیوں کی تشویشناک حالت سے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں مقیم درددل رکھنے والے شہریوں کی آنکھیں اشکبار تھیں ۔ بلوچستان اور کے پی دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ،حیران کن یہ ہے کہ کے پی میں دو بار پی ٹی آئی کو حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن حالیہ خود کش حملے صوبے کی سیکورٹی کی کار کردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔ نہ سی ٹی دی کے پاس بجٹ ہے ،نہ جدید ٹریننگ ، دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے جدید ہتھیاروں کے فقدان نے کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت کی اعلیٰ گورننس کی قلعی کھول دی ۔ پشاور میں انسداد دہشت گردی کے قائم کئے گئے محکمے کے مرکز پر دہشت گردوں کا قبضہ کرنا لمحہ فکریہ سے کم نہیں کیونکہ سرکاری مشینری اس سلسلے میں مکمل ناکام دکھائی دی لہٰذا یہاں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ محب وطن سول اور عسکری قیادت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکیورٹی نظام کا جائزہ لے کر تمام خامیوں اور نقائص پر قابو پانے کے لئے مؤثر اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے ٹھوس حکمت عملی وضع کرے تا کہ ملکی سالمیت کے خلاف دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں و سہولت کاروں کے عزائم خاک میں ملائے جاسکیں۔اس سلسلے میں کور کمانڈر کانفرنس میں دہشت گردی کی سر کوبی کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔بے شک قیام امن میں عساکر پاک کی مخلصانہ کاوشیں اور قربانیاں قابل تحسین ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے گزشتہ عرصے میں کے پی حکومت کو دئیے گئے 417ارب روپے کہاں گئے؟ ان کا بھی احتساب ہونا چاہئیے۔ اگر اس فنڈ کا تھوڑا سا حصہ بھی دہشت گردی کی بیخ کنی پر خرچ ہوتا تو آج وہاں کی عوام امن کی میٹھی نیند سوتی، جوں ناحق حملوں میں ان کا خون نہ بہتا ۔افسوس!لیکن ان پر آشوب حالات میں بھی سیاسی رہنماؤں کے درمیان محاذ آرائی کی صورتحال،معاشی ماہرین کی ناقص منصوبہ بندی، غیر حقیقت پسندانہ تجزیوں اور غلط فیصلوں نے مادرملت کوڈیفالٹر تک پہنچا دیا ہے مگر سیاسی قائدین کے رویے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں ملکی سالمیت کی کوئی پروا نہیں انہیں بس اپنے مفادات ہی مقدم اور عزیز ہیں۔جیسا کہ پی ٹی اآئی سر براہ سابق وزیر اعظم نے جیل بھرو تحریک کا نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے ۔گذشتہ 75 برسوں میں کرسی اور حصول اقتدار کی ہوس نے آج ہمیں اس دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں ایک جانب بھوک کے لالے پڑ گئے ہیں ، مفلسی اور غربت کے مہیب سائے بڑھتے جا رہے تو دوسری جانب دہشت گردی کی نئی لہر سے ابھرتے خطرات نے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ۔ اﷲ سے دعا ہے کہ
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان نے خطے میں قیام امن اورسے انتہاء پسندی کے ناسور سے پاک کرنے کیلئے جو بھرپور کردار ادا کیااس کا خمیازہ آج فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے ہاتھوں بھگتنا پڑرہا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ میں گزشتہ2 دہائیوں سے سکیورٹی افسران اور جوانوں سمیت 80 ہزار کے قریب شہریوں کی جانوں کانذرانہ پیش کرنے کے علاوہ اربوں ڈالرز کا مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ افغانستان میں البتہ آج پہلے جیسا پاکستان مخالف ماحول نہیں لیکن یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رکھی جائے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے خود سیز فائر توڑکر اب گاہے بگاہے حملے کر نے کا جو سلسلہ شروع کر کھا ہے اس سے قوم اور پاک فوج کے مورال کو شکست دینے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ طالبان نے برسر اقتدار آنے سے قبل یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف تخریبی سرگرمیوں کی غرض سے استعمال نہیں کرنے دی جائے گی لیکن ماضی کی طرح یہ بھی جلد ہی بے اثر ثابت ہو گئی ہے۔ جبکہ دوحہ معاہدے کے تحت طالبان حکومت پابند ہے کہ وہ افغان سر زمین کسی پڑوسی ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی۔ تاہم پاک افغان بارڈر پر پاک سیکورٹی فورسز پر حملوں اس بات کا ثبوت ہیں کہ افغانستان سے کسی خیر کی امید رکھنا غلط ہے ، کیونکہ طالبان کے مخصمانہ رویے سے یہ عیاں ہوگیا ہے کہ وہاں سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آ سکتا۔پاکستان کے باضابطہ احتجاج ، افغان حکام سے مذاکرات اور حال ہی میں سول اور عسکری حکام کی طرف سے افغانستان کے دفاعی امور کے ذمہ داران سے فلیگ میٹنگ جس میں دونوں اطراف سے اعلیٰ سول، ملٹری حکام ، علماء اور عمائدین نے شرکت کی تھی کے باوجود افغانستان میں پناہ گیر کالعدم ٹی ٹی پی نے خطے میں دہشت گردی کی جو کارروائیاں شروع کررکھی ہیں اس نے عالمی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ کے پی کے، بلوچستان اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والے دھماکے کی کڑیاں بھی اسی تنظیم کی ان کارروائیوں سے ملتی ہیں جو اس نے باقاعدہ اور اعلانیہ الٹی میٹم دینے کے بعد شروع کر رکھی ہیں کابل انتظامیہ کے مخاصمانہ طرز عمل کے باوجود پاکستان کی سول اور عسکری قیادتیں افغانستان میں امن کی مستقل بحالی کیلئے فکرمند ہیں ۔ بلاشبہ پاکستان کی بہادر افواج آج بھی بڑی خوش اسلوبی سے محدودوسائل،معاشی ناہمواریوں اور ازلی دشمن بھارت کی بزدلانہ کارروائیوں کے باوجود عالمی استعمارکی آنکھ میں کھٹکتے سی پیک منصوبے سمیت خطے میں قیام امن کیلئے دجالی قوتوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملارہی ہیں ۔ سکیورٹی فورسز نے حال ہی میں جس طرح جان ہتھیلی پر رکھ کر بنوں میں 25 دہشت گرد وں کو واصل جہنم کرتے ہوئے یرغمال بنائے گئے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو بازیاب کرایا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔اس میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے کہ انتہاء پسندی کے خاتمہ کیلئے2007ء اور2009ء میں سوات ،2011-12ء میں جنوبی وزیرستان جبکہ 2015-16ء میں شروع کئے گئے آپریشنز کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔ نائن الیون کے بعدسابق صدر بش نے بھی پاکستان کو پتھر کے زمانے کی جانب واپس دھکیلنے کی دھمکی دے کر’’ ڈومور ‘‘کے جو تقاضے جاری رکھے وہ آج بھی مسلسل دہرائے جا رہے ہیں ۔فرنٹ لائن اتحادی کا کردارادا کرنے کے باوجود واشنگٹن نے ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ نہیں جانے دیا حالانکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ امریکی بلاک کے ساتھ نتھی ہونے سے سوویت یونین ہی نہیں دیگر ممالک سے تعلقات میں بھی بگاڑ پیدا ہوا ۔پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کا بڑا سبب افغانستان کا غیر مستحکم ہونا ہے ایسے محسوس ہورہاہے کہ طالبان کا کہیں کنٹرول نہیں رہا۔ حالا نکہ افغانستان وسطی اور جنوبی ایشیاء کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکاری نہیں کہ مزید بدامنی کی صورت میں خطے کا تقریباً کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکے گا لہٰذا موجودہ دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی نئی لہر پر فوری قابوپانے کیلئے ٹھوس اور مؤثر اقدامات نہ کئے گئے تو90 کی دہائی والی صورتحال دوبارہ جنم لینے کا خدشہ بد ستور موجود ہے ۔ ۔

 

Naseem Ul Haq Zahidi
About the Author: Naseem Ul Haq Zahidi Read More Articles by Naseem Ul Haq Zahidi: 193 Articles with 138708 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.