ترکی، اتاترک سے رجب طیب اردگان تک

ایک وقت تھا جب ترکی عثمانی سلطنت کا مرکز تھا جس کی بنیاد خالص اسلامی اصولوں پررکھی گئی تھی لیکن خلافت کے خاتمے کے بعد عالم اسلام کا شیرازہ بری طرح بکھر کررہ گیا امت مسلمہ چھوٹی چھوٹی آزاد ریاستوں میں تقسیم ہوگئی اتاترک نے ترکی سے اسلامی تشخص کی خاتمے کیلئے ایسے اقدامات کئے جنہیں پڑھ کر آج بھی کلیجہ منہ کو آتا ہے اس کے اسلام دشمن اقدامات کا اندازہ آپ اس بات سے کریں کہ اس نے ترکی کو سیکولربنانے کیلئے مسجدوں تک کو تالے لگا دئے،قرآن وحدیث کی نشرواشاعت اور تعلیم ممنوع قرار دے دی گئی بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ترکی میں عربی رسم الخط تک کو غیر قانونی دیتے ہوئے اس کی جگہ لاطینی زبان کو رائج کردیا گیا دینی مدارس بند اور مخلوط تعلیم لازمی قرار دے دی گئی اسلامی لباس و کلچر کو ختم کرکے فحاشی و عریانی کی بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی اس کیلئے سرکاری سطح پر رقص گاہیں اور میخانے قائم کئے گئے اتاترک کے دور میں برطانیہ اور جرمنی کے بعد شراب کی سب سے زیادہ فیکٹریاں ترکی میں ہی تھیں اتاترک نے ہر ادارے اور محکمے کو فوج کے سپرد کر کے اسے سیکولرازم کی محافظ کا درجہ دے دیا جس کو بنیاد بنا کر مستقبل میں فوج نے کبھی بھی کسی ایسی حکومت کے پاﺅں نہیں جمنے دئیے جو سیکولرازم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی تھی ۔سیکولر حکومتوں کے ان اقدامات کو عوام کا ایک بڑا طبقہ ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا تھا لیکن اتاترک کے مضبوط انٹیلی جنس نیٹ ورک کے سامنے ان کی پیش نہ گئی لیکن 1949ء میں جب ترکی اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا اسلامی ملک بھی بن گیا تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریزہوگیا اور انہوں نے1950ءمیں ہونے والے الیکشن میں اسلامی ذہن رکھنے والے عدنان میندرس کی ڈیموکریٹک پارٹی کو منتخب کرلیا انہوں نے آتے ہی نہ صرف مساجد و مدارس کے دروازے عوام کیلئے کھول دئیے بلکہ 1959ءمیں انہوں نے ایک مرتبہ پھر اسلام کو سرکاری مذہب کا درجہ دے دیا ۔اگرچہ یہ اقدامات ترکی میں اسلام کی نشاة ثانیہ کیلئے بہت اہمیت رکھتے تھے لیکن وہ ہمہ گیر شخصیت جس نے ترک عوام میں اسلامی تشخص کی بیداری میں سب سے بڑا کردار ادا کیا وہ شخصیت تھی پروفیسرنجم الدین اربکان جنہوں نے 1969ءمیں پہلی مرتبہ ترکی کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا اس الیکشن میں پروفیسر نے زبردست کامیابی حاصل کی بعد ازاں 26جنوری 1970ءکو انہوں نے اپنی سیاسی جماعت ''ملی رفاع''پارٹی کی بنیاد رکھی یہ پارٹی چونکہ اربکان جیسے ہی صوم و صلوٰاة کے پابند لوگوں پر مشتمل تھی جو کہ سیکولر طبقے کوہرگز گوارانہ تھی لہٰذا اس پارٹی کو عدالت میں چیلنج کردیاگیا اور عدالت نے فوج کے دباﺅ میں 17مئی 1971ءکو اسے غیر قانونی قرار دے دیا ۔11اکتوبر 1971ءکو اربکان نے ملی سلامت پارٹی کے نام سے نئی پارٹی کی داغ بیل ڈالی اور 1973ءکے الیکشن میں 74ارکانِ اسمبلی لے کر بلندایجوت کے ساتھ ڈپٹی وزیرِاعظم بن گئے۔اپنے اس دور میں اربکان نے کئی اسلامی اصلاحات کیں ،نئے مدارس و مساجد تعمیر کی گئیں،قرآن و فقہ کی تعلیم کیلئے نئی قانون سازی کی گئی خصوصاََملٹری کالجوں اورعسکری تربیتی اداروں میں اسلامیات کی تعلیم لازمی قرار دینا ایک بہت بڑا انقلابی قدم تھااس سے پہلے کہ اربکان مزید آگے بڑھتا فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیااور ملی سلامت پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی جو 16جولائی1983ءتک قائم رہی تین سال بعد جب دوبارہ سیاسی سرگرمیاں بحال ہوئیں تو اربکان ایک بار پھر اپنی نئی سیاسی پارٹی ''ملی رفاع پارٹی''کے ساتھ میدان میں موجود تھا عوام اس کی دیوانی ہوچکی تھی اور آنے والے ہر ایکشن میں اس کی کامیابی کا تناسب بڑھتا جارہا تھاحتیٰ کہ 1996ءمیں اربکان153ارکان کی کامیابی کے ساتھ ترکی کا وزیرِ اعظم بن گیا انہی دنوں انہی کے ایک دست ِ راست اور موجودہ وزیرِ اعظم رجب طیب اردگان بھی استنبول کے مئیر کے طور پر شاندار خدمات سرانجام دے کر عوام کے دلوں میں گھرکرچکے تھے اربکان کی حکومت اسلامی پس منظر رکھنے کی وجہ سے خاصی مشکلات کا شکاررہی اور آخر کار ختم کردی گئی لیکن اس دوران عوام رجب طیب اردگان کی صورت میں ایک نئے مسیحا سے اپنا مستقبل وابستہ کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی جنہیں 1997ءمیں ایک ''باغیانہ ''نظم پڑھنے کے جرم میں جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی جس کے بول کچھ یوں تھے۔
مسجدیں ہماری پناہ گاہیں ہیں
ان کے مینار ہمارے نیزے ہیں
ان کے گنبد ہماری ڈھال ہیں
اور اہلِ ایمان ہمارے سپاہی ہیں

اس سزا کے خلاف پورا ترکی سڑکوں پر نکل آیاچنانچہ مجبوراََ اردگان کو رہا کر دیا گیا باہر آ کر انہوں نے جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی اردگان کو اربکان کی سیاسی حکمت عملی سے قدرے اختلاف تھا لیکن چونکہ منزل دونوں کی ایک تھی لہٰذا عوام نے بھی اردگان کا ساتھ دیا اور3نومبر2002ءکو ہونیوالے الیکشن میں 550میں سے 363ارکان اردگان کے ساتھی تھے اور آنیوالے الیکشنوں میں ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا گیا ۔موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ بھی حاصل ہے کہ وزیرِاعظم کے ساتھ ساتھ صدر عبداللہ گل کا تعلق بھی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی سے ہے اور فوج چونکہ صدر کے ماتحت ہوتی ہے اور ماضی میں ہمیشہ صدر اور فوج ہی مل کر حکومت کا تختہ الٹ دیتے تھے جیسا کہ 2003ءمیں بھی ایک کوشش ہوئی جو ناکام ہوئی اور اس سازش میں شریک تقریباََسو سے زائد اعلیٰ فوجی افسران گرفتار ہوچکے ہیں جن میں اکثر کو سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں ۔اب چونکہ اردگان حکومت خاصی مضبوط ہوچکی ہے اس لئے وہ تیزی سے اپنے اہداف کی جانب گامزن ہے حالیہ عرصہ میں اردگان کی جانب سے اٹھائے چند جراتمندانہ پالیسیوں اور اقدامات نے دنیا بھر میں فساد کی جڑ یہودیوں اور نام نہاد سپر پاور امریکہ کی نیندیں حرام کردی ہیں ۔ خصوصاََ حال ہی میں فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کے بارے میں اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد کہ اسرائیل کے یہ حملے غلط تھے ترکی نے جس طرح اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی و سفارتی تعلقات ختم کرتے ہوئے یہ مقدمہ عامی عدالت انصاف میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے اس نے ترکی کو ایک بار پھر عالم اسلام میں ایک ممتاز حیثیت دے دی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ ترکی کے ان جراتمندانہ اقدامات کے پیچھے بڑا ہاتھ ترکی کے ہردلعزیز وزیرِ اعظم رجب طیب اردگان کا ہے تو غلط نہ ہو گا جو اس سے قبل 2009ءمیں بھی جب غزہ کی ناکہ بندی کرکے اسرائیل نے فلسطینیوں کو مرنے کیلئے چھوڑ دیا تھا پر دنیا بھر میں اس پر ہونے والے احتجاج میں سب سے موئثر اور اونچی آواز رجب طیب اردگان ہی کی تھی اور گزشتہ برس ڈیووس کانفرنس میں پوری دنیا کے میڈیا کے سامنے جس رجب طیب نے جس بے باکی سے اسرائیلی وزیراعظم کو عالمی مجرم قرار دیتے ہوئے 2001ءسے جاری اسرائیل ترکی فوجی مشقوں کے خاتمے اوراربوں ڈالر کے سودوں کی منسوخی کا اعلان کیا وہ بھی انہی کا ہی خاصا تھا اب دیکھنا یہ ہے کہ دیگر عالم اسلام بھی ترکی کی اس جراءت مندی کی تقلید کرتے ہوئے یہودونصاریٰ کی غلامی کی زنجیروں کو اتار پھینکنے کی سعی کرتا ہے یایوں ہی ذلت و رسوائی کے گڑھوں میں پڑا رہتا ہے۔
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 92428 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.