کراچی کے سنگین حالات اور سابق
وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے سیاسی ”خودکش“ حملوں نے ملکی سیاست میں
ہلچل مچادی ہے جس کی وجہ سے کہیں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں تو کہیں ماتم
کا منظر دکھائی دے رہا ہے۔ کہیں پر ناامیدی کی انتہا نظر آتی ہے تو کہیں
امید کی نئی کرن پھوٹتی لگ رہی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود قوم کی اکثریت
حکومت سے مایوس ہو کر سپریم کورٹ کی طرف دیکھنے لگی ہے کیونکہ سپریم کورٹ
نے حال ہی میں کراچی میں ہدفی قتل کے حوالے سے ازخود نوٹس لیا جس کی سماعت
کراچی میں جاری ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں اور بعض قائدین کے لئے فوجی قیادت کی
جانب سے گزشتہ ایک ماہ میں دوسری بار کراچی کے حالات پر تشویش کا اظہار
یقیناً انتہائی تنبیہ دکھائی دیتی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ اب فوج بھی
کسی حتمی اقدام سے قبل سیاسی قیادت اور عوام کو انتباہ کرتی دکھائی دے رہی
ہے۔ ماضی میں انتباہ کی بجائے فوج کا عملی کردار رہا ہے جس کی واضح مثال
ماضی کے چار مارشل لاءہیں۔ اب کی مرتبہ اگر حکومت اور سیاسی قیادت نے کراچی
کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے تو ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ شاید فوج کو براہ راست کوئی قدم اٹھانا پڑے گا۔ ممکن ہے کہ سیاسی
قیادت اور کارکنوں کے نزدیک فوج کا کوئی قدم یا حالیہ انتباہ پریشان کن ہو
لیکن اب شہر کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد حالات کی خرابی، بڑھتے ہوئے مسائل
، مشکلات اور سیاسی اور مذہبی قیادت کی عدم توجہی کی وجہ سے فوجی کردار کی
حامی نظر آتی ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو....؟ 2008ءسے اگست 2011ءتک حاصل کردہ
اعداد وشمار کے مطابق روشنیوں کے اس شہر میں 4500 سے زائد افراد ہدفی قتل
کا نشانہ بن کر موت کے منہ میں چلے گئے۔ ہزاروں زخمی ہیں، کھربوں روپے کی
املاک کو نقصان پہنچا ہے۔
تاجر رہنما عتیق میر کے ایک حالیہ بیان کے مطابق کراچی میں اس بار عید کی
خریداری میں 60 فیصد کمی آئی ہے۔ چھوٹے تاجروں اور دکانداروں نے مل مالکان
اور بڑے تاجروں سے عید کے لئے جو سامان ادھار پر حاصل کیا تھا اس کا 60
فیصد فروخت نہ ہونے کی وجہ سے اب تاجر بھی مقروض ہوگئے ہیں جبکہ مختلف
فلاحی اداروں کے مطابق اس بار کراچی سے فلاحی اداروں کو ملنے والی امداد
ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امداد کرنے
والے اب خود امداد کے مستحق بنتے جارہے ہیں۔ روشنیوں کے اس شہر کو اندھیروں
میں کس نے دھکیلا؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کی نشاندہی کرنا حکومت اور
اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور ادارے بھی دیرپا
اقدام کی بجائے وقت گزارو پالیسی پر گامزن ہیں۔ یہ پالیسی آگے جا کر مزید
تباہی کا سبب بن سکتی ہے، اس لئے اب ملک اور شہر کو بچانے کےلئے دیرپا
اقدام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بعض مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ شہر کے حالات کو
خراب کرنے میں سیاسی قوتوں کا بڑا کردار ہے جس میں کچھ سچائی بھی دکھائی
دیتی ہے اور واضح ثبوت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے ایک دوسرے پر
سنگین الزامات اور حالیہ پولیس اور رینجرز کی کاروائیوں کے دوران ملزمان کی
گرفتاری ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اب تک دسیوں ہدفی قاتلوں کو گرفتار کیا
گیا ہے جن میں سے ایک بڑی تعداد کا تعلق سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے ہے۔
اصل مسئلہ ملزمان کی گرفتاری کا نہیں بلکہ انہیں سزا دینے کا ہے، ماضی میں
بھی ملزمان کی ایک بڑی تعداد گرفتار ہوتی رہی لیکن آخر پیچیدہ عدالتی طریقہ
کار، گواہوں کے عدم تحفظ اور دیگر قانونی مشکلات کی وجہ سے ملزمان کو سزا
نہیں ہوسکی اور ایک بڑی تعداد ان قانونی پیچیدگیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
جیلوں سے باہر ہوگئی۔ ہمارے معاشرے میں یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ جیلوں
میں معصوم آدمی بھی قاتل اور ظالم بننے پر مجبور ہوتا ہے اور جرائم پیشہ
عناصر کی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو جیلوں میں ہی جرائم سے منسلک
ہوتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالتوں اور جیلوں کے نظام میں
اصلاح کی جائے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے حال ہی میں
کراچی میں اہم اعلانات کئے ہیں اور انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ حکومت
سندھ نے چیف جسٹس آف پاکستان کو کراچی میں خصوصی عدالتوں کے قیام کے لئے خط
لکھا ہے۔ اسی طرح جیل کے نظام میں بھی اصلاح کرکے ان کو اصلاحی مراکز میں
تبدیل کیا جائے گا۔ ذوالفقار مرزا کے حلفیہ بیان کو مدنظر رکھیں تو
عبدالرحمن ملک کی بات کا یقین نہیں آتا لیکن ممکن ہے کہ اب کی مرتبہ وہ
ذوالفقار مرزا کو غلط ثابت کردیں اور اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے عملی
کردار ادا کریں گے۔
گزشتہ دو ہفتوں سے وفاقی وزیر داخلہ کراچی میں موجود ہیں اور وہ اس وقت
کراچی میں ہونے والے مبینہ سرجیکل آپریشن کی خود نگرانی کررہے ہیں۔ بظاہر
تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپریشن بلا امتیاز رنگ ونسل ہورہا ہے لیکن بعض
اطراف سے آنے والی آوازوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ
کراچی اس وقت بلا امتیاز سخت قانونی کاروائی کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر ہم نے
اب کی بار اس میں تاخیر کی تو پھر شاید ہماری مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
کراچی کے عوام کو احساس تحفظ دلانے کےلئے بھی ہر شعبے میں عملی اقدام کرنے
کی بھی اشد ضرورت ہے۔ کراچی میں قیام امن اور لوگوں میں اخوت وبھائی چارے
کی فضاءپیدا کرنے کےلئے سیاسی اور مذہبی قیادت بھرپور کردار ادا کرسکتی ہے
کیونکہ یہاں پر لگی ہوئی آگ کو بھڑکانے میں انہی کا کردار ہے اور اب وہی اس
کے خاتمے کے لئے آگے بڑھیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مذہبی اور سیاسی قیادت
ذاتی مفادات کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع تو ہوجاتی ہے لیکن عوامی مفاد کے
لئے متحد نہیں ہوتی!؟۔ اگر مارچ 2012ءتک موجودہ نظام کو بچانے کےلئے متحدہ
قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی اور اے این پی یکجا، یک قلب اور یک زباں ہوسکتے
ہیں تو پاکستان کی بقاءاور سلامتی کےلئے متحد کیوں نہیں ہوسکتے۔ عوام بھی
اب سمجھ گئے ہیں اس لئے اب قیادت نے کچھ نہ کیا تو آنے والا وقت اس قیادت
کے لئے بھی انتہائی مشکلات کا سبب بنے گا۔ ویسے بھی مشرق وسطیٰ میں اٹھنے
والی بیداری کی تحاریک سے عوام کسی حد تک متاثر ہوتے جارہے ہیں اور بعید
نہیں کہ کسی دن تنگ آمد بجنگ آمد کی مصداق وہ بھی سڑکوں پر نکل آئےں۔ ایسے
موقع پر مذہبی اور سیاسی قیادت کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ ایسے حکمران اور
سیاسی قیادت مصر کے حسنی مبارک ، لیبیا کے معمر قذافی اوردیگر کے انجام بد
پر غور کریں۔ آخر سیاسی قیادت عوام کو کب تک یرغمال بنا کر رکھے گی۔ اس ضمن
میں عدالت عظمیٰ پر بھی اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ اس سارے عمل میں مذہبی قیادت بظاہر نہ صرف خاموش ہے
بلکہ بعض مذہبی عناصر فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دے کر ایک نئے فساد کی
بنیاد رکھ رہے ہیں۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں سیاسی فسادات وقتی
طور پر تو رک گئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ کچھ قوتیں مذہبی فسادات کی
تیاریوں میں مصروف ہیں جو کسی صورت کراچی میں امن نہیں چاہتیں۔ ان کو روکنا
مذہبی قیادت کی ذمہ داری ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ دراصل حقیقی مذہبی
قیادت موجودہ حالات سے خوفزدہ ہے کیونکہ جو بھی آواز حق بلند کرتا ہے اسے
دبایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے علماءکی حالیہ ایک پریس کانفرنس اور اس کے بعد
سامنے آنے والا افسوسناک ردعمل پیش کیا جاتا ہے جس میں علمائے حق پر
انتہائی سنگین اور افسوسناک الزام تراشی کی گئی تاہم اس سب کے باوجود
علماءاور مذہبی قیادت کو اب آگے بڑھ کر قوم کی رہنمائی کرنی پڑے گی۔ اس کے
بغیر حالات کا سدھار نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اب دیکھنا
یہ ہے کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے سیاسی خودکش حملوں کے اثرات کس حد تک مرتب
ہوتے ہیں اور مذہبی قیادت قوم کو مزید تباہی سے بچانے کےلئے کیا کردار ادا
کرتی ہے۔؟ |