سائنس کی کبھی نہ ختم ہونے والی
تحقیق جاری ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا کہ ہے اس صدی کے درمیان تک وہ اس حد تک
آگے جا چکے ہونگے کہ انسان پر بڑھاپا ہی نہیں آئیگا۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے
کہ کیا واقعی سائنس نے اتنی بہت سی ترقی کر لی ہے کہ دنیا سے مختلف
بیماریوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے؟۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ جہاں حضرتِ
انسان نے بہت سی بیماریوں سے چھٹکارہ حاصل کیا ہے وہیں آئے روز یہ چھ فٹ کا
انسان نت نئی بیماریوں کا بھی شکار بھی ہوا چلا جارہا ہے۔ کہیں چھ طرح کا
یرقان ہے تو کہیں ایڈز، کہیں نئی طرح کا فالج تو کہیں دوائیں پلانے کے
باوجود پولیو کی دوبارہ ایجاد یا۔ ایک حفاظتی ٹیکہ لگوا لیا جائے تو کئی
روز بخار نہیں جاتا، جسم اکڑ جاتا ہے اور انسان اپنے سے انسان کو کھانے کو
دوڑتا ہے ۔ خصو صا چھوٹے بچوں کو حفاظتی ٹیکہ لگوا دو تو تین روز بخار نہیں
اترتا ، بچہ گود سے نہیں اترتا اور رو رو کر ہلکان ہو کر پورے گھر کو الگ
پریشان کر تا ہے ۔ یرقان کے علاج کے لیے سال بھر ٹیکے لگوا لگوا کر اچھا
بھلا انسان ادھ موا ہوجاتا ہے اور کاٹنے کو دوڑتا ہے ۔ مگر ڈاکٹروں کے بقول
اسکا وائرس پھر بھی نہیں مرتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بیماری دسیوں
ٹیسٹ کرانے کے با وجود بھی ڈاکٹر وں کی سمجھ میں ہی نہیں آتی یا پھر ڈاکٹر
خود ہی جواب دے دیتے ہیں کہ مریض لا علاج ہے۔کینسر کا مریض درد سے تڑپتا ہے
اور علاج کے دوران پورا جسم فارغ البال ہوجاتا ہے، چند سال بعد اللہ کو
پیارا ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ انگریزی دوائیں ایسا ری ایکشن کر جاتی ہیں کہ
انسان الٹا مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔ ہارٹ، بلڈ پریشر، شوگر اور دیگر مستقل
امراض کی دوائیں کچھ عرصہ بعد اپنے اثر ہی چھوڑ دیتی ہیں۔ ڈاکٹر حضرات نزلہ
کھانسی میں بھی آدھا درجن دوائیں لکھ دیتے ہیں کہ کوئی تو لگے گی۔ دل، شوگر
، بلڈ پریشر، جوڑوں کے درد، فالج وغیرہ کی دوائیں روزانہ تینوں ٹائم روٹی
کی طرح پھکے مار کر تا عمر کھانی پڑتی ہیں۔ڈیپریشن ، ٹینشن، انگزائیٹی کی
دوا سالوں کھانی پڑتی ہے، بیماری پھر بھی نہیں جاتی، الٹا انسان پھول کر
کپا ہو جاتا ہے ۔ آخر کیا و جہ َ؟آخر یہ کونسی سائنس ہے جو کہ چاند پر تو
پہنچ گئی، مزید ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی خواہاں ہے، بڑھاپا نہ آنے کی
نوید ہے پر ایک چھ فٹ کا ایک حضرتِ انسان اسکے قابو میں نہیں کہ آئے روز نت
نئی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔ یہ سائنس انسان کے لیے آجتک کوئی ایسی
دوا کیوں ایجاد نہیں کر سکی جو انسانوں کو تمام بیماریوں سے پاک کر سکے؟۔
کیا وجہ ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ روز نت نئے وائرس ایجاد کر کے خود ہی ا
پنے سے انسان کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہے؟؟ یا پھر کہیں قدرت کے کاموں میں
بے بس ہے؟ میرے خیال سے ان تمام چیزوں کی بنیادی وجہ انسان کی فطرت سے
لڑائی اور اسکے کاموں میں عمل دخل، سہل پسندی اور اسلامی طور طریقوں سے
دوری ہے۔ حدیثِ قدسی کے مطابق انسان کو اپنی چاہت کو اللہ کی چاہت پر قربان
کرنا ہے مگر انسان اپنی خواہش اللہ پر مسلط کر کے اسکے حکم کی مسلسل خلاف
ورزی کر رہاہے۔ اسلام کے بنیادی اصولوں کی نفی کر رہا ہے پر پھر بھی اسکی
رحمت کا طبلگار رہتا ہے ؟کیوں؟ اپنے اندر جھانکیے کہ کیا ہم ان تما م چیزوں
کے واقعی مستحق ہیں جو خداوند قدوس ہیں دے رہا ہے۔ قصہ مختصر آجکل کا انسان
اگر دکھ پریشانیوں اور بیماریوں اور مصائب کا شکار ہے اور اتنی سائنسی ترقی
کے بغیر بھی پنپ نہیں پارہا تو یہ سب اسکے اپنے اعمال کی وجہ سے ہے۔ اگر
قدرت کے طور طریقوں پر زندگی گزاری جائے تو انسان ضرور بہت سی برائیوں اور
بیماریوں سے از خو د محفوظ رہ سکتا ہے۔ |