1775کے عشرے میں جب ایشیاء ،افریقہ
اور شمالی امریکہ میں ایک ایسی بیماری پھیلی کہ جس میں مریض کو یکدم تیز
بخار ہو جاتا اور ساتھ ہی س میں درد اور جوڑوں میں درد شروع ہو جاتاجبکہ
بعض مریضوں کے پیٹ میں درد ،خونی الٹیاں اورخونی پیچس کی بھی شکایت ہو
گئی۔یہ مریض سات سے دس دن تک اسی بیماری میں مبتلا رہے اور آخر کار مر
گئے۔لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ان علاقوں سے لوگوں نے ہجرت کرنا
شروع کر دی۔جب اس وقت کے طبیبوں اور ڈاکٹروں نے اس بارے میں تحقیق کی تو
معلوم ہوا کہ یہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے جس سے کے کاٹنے سے یہ مرض لاحق ہو
جاتا ہے۔1979میں اس بیماری کی شناخت ہوئی اور اسے ڈینگو بخار(Dengue fever)
کا نام دیا گیا۔ڈینگو “dengue”سپینی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی cramp یا
seizure کے ہیں جبکہ اسے گندی روح کی بیماری بھی کہا جاتا تھا۔1950میں یہ
بیماری جنوب مشرقی ایشیاءکے ممالک میں ایک وبا کی صورت میں نمودار ہوئی جس
سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ خصوصاً بچے ہلاک ہو گئے۔1990کے آخر تک اس
بیماری سے ایک اندازے کے مطابق 40 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔1975سے1980تک
یہ بیماری عام ہو گئی۔2002میں برازیل کے جنوب مشرق میںواقع ریاست Rio de
Janeiro میں یہ بیماری وبا کی صورت اختیار کر گئی اور اس سے دس لاکھ سے
زائد افراد جن میں 16سال سے کم عمر کے بچے زیادہ تھے ہلاک ہو گئے۔ یہ بات
دیکھنے میں آئی ہے کہ یہ بیماری تقریباً ہر پانچ سے چھ سال میں پھیلتی رہتی
ہے۔سنگا پور میں ہر سال چار ہزار سے پانچ ہزار افراد اس وائرس کا شکار ہو
تے ہیںجبکہ 2003میں سنگاپور میں اس بیماری سے چھ افراد کی ہلاکت بھی ہوئی۔
اور جو افراد ایک مرتبہ اس بیماری میں مبتلا ہو جائیں وہ اگلی مرتبہ بھی اس
بیماری کا جلد شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی ملیریا
نامی بیماری کی اگلی صورت کہی جا سکتی ہے اس بیماری کے مچھر کی ٹانگیں عام
مچھروں سے لمبی ہوتی ہیں اور یہ مچھر قدرے رنگین سا ہوتا ہے۔یہ بھی دیگر
مچھروں کی طرح گندی جگہوں اور کھڑے پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ابھی تک اس
بیماری کی کوئی پیٹنٹ دوا یا ویکسین ایجاد نہیں ہوئی تاہم2003سے( Pediatric
Dengue Vaccine Initiative (PDVI) پروگرام کے تحت اس کی ویکسین تیار کی
جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔تھائی لینڈ کے سائنسدانوں نے ڈینگو وائرس کی ایک
ویکسین تیار کی ہے جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اگرچہ اس ویکسین کے تین
ہزار سے پانچ ہزار افراد اور مختلف جانوروں پر تجربے کیے جا چکے ہے جس کے
ابھی تک قدرے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔2002 میں سوئس فارما کمپنی
اورSingapore Economic Development board نے مشترکہ طور پر اس وائرس کے
خاتمے کی دوا تیار کرنے پر کام شروع کیا ہوا ہے۔ اس وبا سے نجات کا واحد حل
یہی ہے کہ صفائی کا خیال رکھا جائے اور گندے پانی کے جوہڑوں ، گلی کوچوں
میں جراثیم کش ادویات کا مسلسل سپرے کیا جائے تاکہ ڈینگو مچھر کی افزائش
گاہیں ختم ہو جائے۔جبکہ انفرادی طور پر رات کو مچھر دانی کا استعمال کیا
جائے اور گھروں میںمچھر کش ادویات سپرے کی جائے۔اس کے بعد ایک مرتبہ پھر
وبا کی صورت میں دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل گئی میڈیا کی رپورٹوں کے
مطابق اگست سے اکتوبر 2006میں Dominican Republic میں ڈینگو بخار پھیلا جس
سے44سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ستمبر سے اکتوبر 2006میں کیوبا میں اس
بیماری سے اموات ہوئیں۔جبکہ ساوتھ ایسٹ ایشیاءمیں بھی یہ وائرس پھیل رہا
ہے۔فلپائن میں جنوری سے اگست2006کے دوران اس مرض کے13468مریض پائے گئے جن
میں 167افراد ہلاک ہو گئے۔مئی2005میں تھائی لینڈ میں اس وائرس سے 7200افراد
بیمار ہو گئے جن میں 21سے زائد ہلاک ہو گئے۔2004میں انڈونیشیا میں
80000افراد ڈینگو کا شکار ہو ئے جن میں800سے زائد ہلاک ہو گئے۔جنوری2005میں
ملائیشیا میں33203افراد اس بیماری کا شکار ہوئے۔سنگا پور میں
2003میں4788افراد اس مرض کا شکار ہوئے جبکہ2004میں9400افراد اور2005اس مرض
سے 13افراد کی ہلاکت ریکارڈ کی گئیں۔15مارچ2006کو آسٹریلیا میں اس مرض کے
پھیلنے کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی۔ستمبر2006میں چین میں اس مرض
میں70افراد مبتلا ہوئے۔ستمبر2005میں کمبوڈیا میںڈینگو سے38افراد ہلاک ہوئے۔
2005میں کوسٹا ریکا میں19000افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے جن میں سے ایک فرد
کی موت ریکارڈ ہوئی۔2005میں بھارت کے صوبے بنگال میں900افراد بیمار ہوئے
جبکہ15افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔2005میں انڈونیشیا میں80837افراد اس
بخار میں مبتلا ہوئے جبکہ1099افراد کے مرنے کی تصدیق ہوئی۔2005میں ملائشیا
میں32950افراد اس بیماری کا شکار ہوئے اور83افرادہلاک ہو گئے۔2005میں
Martinique میں6000افراد ڈینگو کا شکار ہوئے جبکہ2ستمبر کو اس مرض سے دو
افراد ہلاک ہو گئے۔2005میں ہی فلپائن میں 21537افراد اس بیماری کا شکار
ہوئے جن میں سے280افراد ہلاک ہو گئے۔2005میں سنگاپور میں12700افراد اس
بیماری کا شکار ہوئے جبکہ19افراد کی اس مرض کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔2005میں
سری لنکا میں 3000سے زائد افراد اس موذی مرض کا شکار ہوئے۔2005میں تھائی
لینڈ میں 31000افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے جبکہ58کی ہلاکت کی تصدیق
ہوئی جبکہ2005میں ویتنام میں اس مرض کا شکار 20000سے زائد افراد پائے گئے
جن میں28افراد ہلاک ہو گئے۔
اس وبا سے نجات کا واحد حل یہی ہے کہ صفائی کا خیال عام طور پر لوگ مقامی
ڈاکٹروں کے کلینک سے دوائی لینے کو ترجیح دیتے ہیں جو مرض کی تشخیص نہیں کر
پاتے ہیں اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس سے مرض بگڑ جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کے
مطابق ڈینگو وائرس کا شکار مریض کے خون سے سرخ خلیے ختم ہوجاتے ہیں، اس
لیئے انہیں سرخ خلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ملیریا سے متعلق ادارے میں تحقیقات کرنے والے ایک افسر ڈاکٹر محمد مختار کے
مطابق کہ ڈینگو وائرس پھیلانے والا مچھر گندگی میں نہیں بلکہ گھروں میں
رہتا ہے۔ ان کے بقول گھر کے اندر پانی کے ٹینک، غسلخانوں اور جہاں بھی پانی
کسی بالٹی ، ڈرم یا گھڑوں میں رکھا جاتا ہے وہاں یہ مچھر پایا جاتا ہے۔
ڈینگو وائرس پھیلانے والا مچھر سورج طلوع ہونے سے چند گھنٹے قبل اور غروب
ہونے کے چند گھنٹے بعد اپنی خوراک کی تلاش میں نکلتا ہے۔ ان کے مطابق
ڈینگووائرس کے جسم میں داخل ہونے کی علامات میں نزلہ زکام، بخار، سر درد،
منہ اور ناک سے خون آنا، پیٹ کے پیچھے کمر میں درد ہونا اور جسم پر سرخ
دانے وغیرہ نکلنا شامل ہیں اور اسے اگر فوری طور پر کنٹرول نہ کیا جائے تو
پھر ’ڈینگو ہیمرج فیور‘ شروع ہوتا ہے جو جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں آج کل ڈینگی بخار کا شکار ہونے والے مریضوں کی تعداد میں مسلسل
اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور حکومت کی طرف سے درست اعداد و شمار جاری کرنے سے
مبینہ طور پر گریز کیا جا رہا ہے۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اب تک
ملک میں پانچ ہزار سے زائد افراد ڈینگی وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان میں
سے 35 مریض اب تک جاں بحق بھی ہو چکے ہیں۔لاہور میں علامہ اقبال میڈیکل
کالج کے پرنسپل اور معروف طبی محقق پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ
سرکاری اعداد و شمار ڈینگی بخار کے مریضوں کی ”صرف ایک فیصد تعداد“ کو ظاہر
کرتے ہیں۔ ان میں دیہات اور نجی ہسپتالوں میں موجود مریضوں کو شامل نہیں
کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق اس وقت صرف لاہور کی پندرہ فیصد آبادی ڈینگی وائرس
کے خطرے کی زد میں ہے۔پروفیسر ڈاکٹر اکرم کے مطابق اس وقت دنیا کے سو کے
قریب ملکوں میں عام شہریوں کو ڈینگی بخار کے خطرے کا سامنا ہے۔ ان ملکوں
میں ویت نام سمیت سترہ ممالک ایسے بھی ہیں، جہاں ڈینگی بخار کی روک تھام کی
مؤثر کوششیں کی جا چکی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس وقت بھی اس وائرس کے پھیلاؤ کی صورت حال پریشان کن ہے
تاہم مستقبل میں اس خطرے سے نمٹنے کے لئے اور گزشتہ زلزلے اور سیلاب کے بعد
کئے جانے والے اقدامات جیسی قبل از وقت لیکن موثر کوششوں کی ضرورت ہو گی
جبکہ سندھ میں ہونے والی بارش کے نتیجے میں جہاں دیگر نقصانات ہوئے وہیں
ماہرینِ طب ڈینگی کے پھیلنے کا خدشہ کا اظہار کر رہے ہیں جس کے لئے حکومت
کو اس روک تھام کے لئے موثر اقدام کرنے کی ضرورت ہے اور اس سنگین مسئلے کے
حل کے لئے سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ |