ملکی حالات جس نہج پر ہیں اسکا ذمہ دار کون ہے؟ اقتدار پر
براجمان ایک دوسرے کو موردِالزام ٹہراتے نظر آتے ہیں۔ کویٔ بھی اپنی غلطی
تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔سب اقتدار کے حصول اور بدلے کی ہوس میں مبتلا نظر
آتے ہیں۔ اس وقت ملک برے ترین معاشی دور سے گزر رہا ہے اور معیشت کی بحالی
یا اسکی درستگی کسی کی بھی ترجیح نظر نہیں آتی۔
گزشتہ سات بر سوں میں 4وزرأے اعظم اور 7وزرأے خزانہ تبدیل ہو چکے ہیں اور
کویٔ بھی وزیر خزانہ ملکی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کرنا تو در کنار ،IMF سے
جامع مذاکرات نہیں کر پایا۔ ایسی صورتحال میں IMF گلے کا طوق بن چکی ہے۔
معاشی بحران کا شکار ممالک IMF کا ترَ نوالہ سمجھے جاتے ہیں۔ مصر ، اور سری
لنکا کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ خیرIMF کا کیا رونا اپنے ملک کے معاشی
حالات کا جائزہ لیا جائے تو کہتے ہیں کہ سیاسی استحکام ، معاشی استحکام کے
بغیر ممکن نہیں، اور معاشی استحکام کے لیے معاشرے کا قدامت پسند ہونا بہت
ضروری ہے۔آجکل نوجوان طبقہ سیاست دانوں کی پیروی کرتا ہے۔ اسوقت ملک میں
سیاسی انتشار کے ساتھ ، معاشی اور معاشرتی انتشار کی نظیر نہیں ملتی۔ گالم
گلوچ اور الزام تراشیوں کا رجحان روز بروز بڑھتا چلے جا رہا ہے۔ ایسا محسوس
ہوتا ہے الزامات کا بھی ایک موسم ہو۔
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بلخصوص خان صاحب اور انکے حواری الزامات
لگانے میں تمام حدیں عبور کر چکے ہیں ا۔ اور یہ سلسلہ گزشتہ بارہ سال سے
جاری ہے،گھٹن اور نفرت کے اس ماحول میں زندہ رہنا تو درکنار سانس لینا بھی
مشکل ہو گیا ہے ۔ الزام تراشی، گالم گلوچ ذومعنی جملے کسنا انکا وطیرہ بن
چکا ہے۔ ایک جانب ملک کی معیشت دلدل مین دھنستی چلی جا رہی ہے دوسری جانب
خان صاحب کا نفرت انگیز رویہ سیاست کو آلودہ کر ہے۔ بات نیشنل ٹی وی پر
بیانات کی ہو یا سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی تحریک انصاف کی قیادت اور انکے
حواری کسی لمحے کسی بھی ادارے کے سربراہ پر الزامات کی بارش کرتے نظر آتے
ہیں۔2011سے شروع ہونے والا بدتمیزی کا یہ طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
آغاز میں خان صاحب کا نشانہ صرف سیاست دان ہوا کرتے تھے۔2014کے دھرنوں میں
یہ الزامات اور دھمکیاں سرکاری افسران تک پہنچ گئیں۔ کون انکی ہمت افزایٔ
کرتا رہا؟ کس نے فیض آباد ھرنے میں کردار ادا کیا ؟ کون پشت پناہی کر رہا
تھا؟ اسکا جواب سب کو معلوم ہے۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ معاشرے پر ان
الزامات اور دھمکیوں کا کیا اثر ہو گا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ سیاسی انتشار
اور الزامات کی سیاست کے باعث پاکستان جو کہ ایشین ٹائیگر بننے جا رہا تھا
اور پیمانے پر بیسویں بڑی معیشت بن رہا تھا، اسٹاک ایکسچینج آئے روز ایک
نیا ریکارڈ بنا رہی تھی ، آج وہی معیشت اپنے آخری دم بھر رہی ہے۔ رہی سہی
کسر اسحاق ڈار صاحب نے اپنی ہی جماعت کے وزیرِخزانہ مفتاح اسماعیل کو بھرے
میڈیا پر جوکر کہ کر مخاطب کردیا۔ مطلب کسی کو کسی کی عزت کی پاسدارر نہیں۔
سب اپنی روایات بھول کر اقتدار کے حصول کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اب اسحاق ڈار
صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کا اللّہ نے ذمہ لیا ہے۔ سیاست کو گندہ
ترین کر دیا گیا ہے۔الامان والحفیظ!
گزشتہ برس تحریک انصاف کی حکومت نے پارلیمان سے نکالے جانے کے بعد سے
الزامات کے تیر برسانا مزید تیز کر دیے ۔ بنا ثبوت الزامات لگانا خان صاحب
کا خاصہ ہے۔ پہلے امریکی مداخلت پھر سایٔفر، پھر جنرل باجوہ اور اب پنجاب
میں عبوری حکومت کے بعد وزیرِاعلی پنجاب محسن نقوی پر اپنی حکومت کو گرانے
کا الزام لگا دیا۔پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد عبوری حکومت نے قانون کو
مطابق ان سے اضافی سیکیورٹی واپس لے لی تو الزامات کا رخ سابق صدرِپاکستان
اور شریک چیرمین پاکستان پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی جانب کردیاکہ مجھے
قتل کروانے کیلیے دہشتگرد تنظیم کو پیسے دیے ہیں، جس پر چئیرمین پاکستان
پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے قانونی چارہ جویٔ کا ضرور کہا ہے،الزام
کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ایک سابق وزیرِاعظم اپنے قتل کی
سازش کا الزام ایک سابق صدر پر لگا رہا ہے۔ خان صاحب آپ دنیا کو کیا پیغام
دے رہے ہیں؟ لوگ آپ کی تقلید کرتے ہیں، کچھ تو سیاسی سوجھ بوجھ ہو۔ 2017میں
زرداری صاحب کے ساتھ مل کر آپ نے بلوچستان میں نوازشریف کی حکومت کا تختہ
الٹا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے
اپنے سخت ترین مخالف ن لیگ کے ساتھ میثاقِ جمہوریت کیا۔ اپنے گزشتہ دورِ
حکومت میں محترمہ کی شہادت کے بعدآصف علی زردای جو کہ اس وقت صدرِپاکستان
تھے نے پاکستان کھپّے کا نعرہ لگایا۔ ق لیگ سے ملکی مفادات کے لیے اتحاد
کیا۔ آپ سیاست کو خراب مت کریں اوربنا ثبوت کے سابق صدر پاکستان پر کیسے
اتنا سنگین الزام لگا سکتے ہیں؟ یہ سراسر کردار کَشی ہے، ان الزامات کی
بدولت زرداری صاحب اور انکے خاندان کی زندگیوں کا خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
آپ سے دست بستہ گزارش ہے کہ ملک کو نفرت کی آگ میں مت دھکیلیں۔ ہوش کے ناخن
لیں ، سیاست کریں اور فی الفور اپنے حواری پنڈی بوائے کہلانے والے شیخ
رشیدجن آبپارہ اسلام آباد کے تھانے میں اس الزام پر بلایا گیا توشیخ صاحب
نے بڑی چلاکی کے ساتھ اپنے وکیل کے ذریعے اس الزام سے لا تعلقی کا اظہار کر
دیا۔آپ بھی زارداری صاحب اور انکے خاندان سے معافی مانگیں۔اگر آپ امریکی
مداخلت کے بیان پر یوٹرن لے سکتے ہیں تو اس الزام پر یو ٹرن لینے میں کویٔ
حرج نہیں۔ویسے بھی آپ یو ٹرن کے بادشاہ ہیں۔ زرداری صاحب بڑے دل کے آدمی
ہیں وہ معاف کر دیں گے۔ آپ کے اس الزام سے ملکی داخلے حالات کو سخت خطرات
لاحق ہو سکتے ہیں، ملکی حالات پر رحم کیجیے اور سیاست پارلیمان میں آکر
کریں ۔ الزام تراشی ، جھوٹ بولنا، بہتان تراشی کو سیاست نہیں کچھ اور ہی
کہتے ہیں۔اس گھمبیر صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے۔ کوئی تو ہو جو ان کو
یہ بتائے کی ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔
خان صاحب بصدِاحترام گزارش ہے کہ اگر آپ کے پاس اس الزام کا کویٔ ثبوت ہے
تو قانونی تقاضا پورا کریں، ایک سر بمہر خط وزارت داخلہ کو لکھیں اور
تفصیلات سے آگاہ کریں۔ مان لیتے ہیں آپ وزیررِداخلہ رانا ثناء اﷲ جن پرآپ
کی حکومت میں ہیرؤین اسمگل کرنے کا الزام لگا اور انہوں نے کتنے دن جیل میں
گزارے، کتنی پیشیاں بھگتیں، کو خط نہ لکھنا چاہ رہے ہوں، تو خط موجودہ
صدرِپاکستان جو کہ آپ کی اپنی پارٹی کے ہیں انہیں لکھ دیں یا تفصیلات اپنی
سوشل میڈیا ٹیم یا ان نامور صحافیوں کو ارسال کردیں جو گزشتہ ایک عشرہ سے
آپ کی شان میں قصیدہ گویٔ کر رہے ہیں تاکہ عوام تک حقائق تو پہنچیں۔اگر یہ
بھی نہیں کرنا تو برائے مہربانی اپنی پہلو تہی کر لیں اور بنا سوچے سمجھے
نونہالانِ قوم کے معصوم ذہنوں کو گمراہ مت کریں- |