یہ ہے اس کتاب کا عنوان جو پاکستان کے سابق صدر غلام اسحا ق خان مرحوم کے
بارے میں حال ہی میں میرے دوست سابق ہوم سیکرٹری خیبر پختونخوا سید مظہر
علی شاہ نے تحریر کی ہے ،ان سے میرا تعلق اس وقت سے ہے جب وہ ڈیرہ اسماعیل
خان میں نوے کے دہائی میں ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے ،افسر شاہی کا دور تھا ،انہیں
بڑے اختیارات حاصل تھے ،اور اداروں پر ان کا مکمل کنٹرول ہوتاتھا ، سابق
صدر مشرف کاروشناس کردہ بلدیاتی نظام نافذ نہ تھا سارے ادارے ،ضلعی
انتظامیہ خاص کر ڈی سی کو جواب دہ تھے ،ہم ان کے ساتھ مل کر تمام دفاتر کے
سربراہان کا اجلاس کرتے اور ہر ماہ عوام کے اجتماعی مسائل پر کھل کر بات
ہوتی اور کرپٹ افسران وعملے کا احتساب ہوتا ،تجاویز ،خرابیوں کی نشاندہی
منٹس آف دی میٹنگ کے ذریعے کی جاتیں ،اور اگلے اجلاس میں ریویو ہوتا کہ ان
پر کتنا عمل درآمد ہوا اور کیا بہتری آئی ،یہ سلسلہ ان کے بعدازاں ڈیرہ
اسماعیل خان میں کمشنر تعینات ہونے کے بعد بھی جاری رہا ،ان کی کوششوں سے
ڈیرہ اسماعیل خان میں گومل میڈیکل کالج ،محمود آئی ہسپتال ،کینسر ہسپتال ،منی
بائی پاس روڈ کا وجود عمل میں آیا ،مظہر علی شاہ بعدازاں ایم بی آر ،ایم ڈی
ایف ای ایف کالجزبھی تعینات رہے اور بطور ہوم سیکرٹری ریٹائرڈ ہوئے ، میرا
ان سے تعلق گزشتہ ستائیس سالوں سے قائم ودائم ہے ،ان کی ڈیرہ اسماعیل خان
کی خدمات کے اعتراف میں راقم نے ان کی دو کتب جو کہ ان کی شاعری کے مجموعوں
پر مشتمل ہے ،حرف مظہر اور حدیث من شائع کیں،ویسے تو ان کی بیشتر کتب شائع
ہوچکی ہیں ،جن میں محسود قبائل کے متعلق درمحسود،جب وہ جنوبی وزیر ستان میں
بطور پولیٹیکل ایجنٹ تعینات تھے ،مائی سیکنڈ اننگزمہمند ایجنسی کے متعلق
اور کیتھوویلی اوپن اٹس آرم جو کہ شمالی وزیرستان سے متعلق ہیں ،حال ہی میں
میری ان سے ان کے گھر اسلام آباد میں ملاقات ہوئی انہوں نے وہاں تین سال
ریٹائرمنٹ کے بعد بطور صحافی ،ایڈیٹر ،نیشنل ہرالڈمیں کام کیا،گزشتہ بیس
سالوں سے وہ روزنامہ آج کے لئے اردو کالم تحریر کررہے ہیں ،انہوں نے اپنا
کیرئیر بطور صحافی ہی شروع کیا تھا لیکن 1973 میں پبلک سروس کمیشن میں ٹاپ
کرنے کے بعد سول سروس جائن کی ۔انہوں نے ایک سال وکٹوریہ یونیورسٹی مانچسٹر
(یوکے) سے ڈیویلپمنٹ ایڈمنسٹریشن کا کورس بھی کیا ، حالیہ ملاقات میں انہوں
نے اپنی نئی کتاب حوالے کی جوکہ سابق صدر پاکستان غلام اسحاق خان کے بارے
میں ہے ،اور ان کے چند پوشیدہ رازوں ،قابلیت ،اخلاص ،ایمانداری سے پردہ
اٹھاتی ہے،جوپاکستان کے عوام کی آنکھوں سے اوجھل ہیں ،کتا ب ملنے کے بعد
ریویو لکھنا ضروری تھا جوراقم عوام کے سامنے پیش کررہے ہیں ، مذکورہ کتاب
جوکہ بک لیٹ کی صورت میں 34 صفحات پر مشتمل ہے ،اس کی اعلی پرنٹنگ اور عمدہ
انگریزی مصنف کے اعلی ذوق ،تجربے اور قابلیت کی پہلے ہی نظر میں گواہی دیتی
ہے ،غلام اسحاق خان مرحوم جب صدر پاکستان تھے ،تو مصنف سید مظہر علی شاہ
مہمند ایجنسی میں پولیٹیکل ایجنٹ تعینات تھے ،ان کا واسطہ صدر کے دوروں کے
دوران اور بعدازاں دیگر عہدوں پر فائز ہونے کے بعد بھی رہا ،جنہیں انہوں نے
کتابی صورت دی ،ان کے بقول سابق صدر پاکستان کا بطور صدر ،چیئر مین سینٹ ،سول
سرونٹ کا کسی سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا،وہ انتہائی، ایماندار ،جفا کش ،محنتی
،تجربہ کار ،قابل انسان تھے ،وہ ایک نایاب شخصیت تھے ،اﷲ کی ذات نے مرحوم
صدر کو بقول مصنف بہت سی اعلی خصوصیات مرحمت فرمائی تھیں ،وہ کبھی کسی بھی
مالی بدعنوانی ،کرپشن میں ملوث نہیں رہے ،اور نہ ہی انہوں نے میرٹ کے خلاف
کوئی کام کیا ،انہوں نے ابتدائی تعلیم میڑک تک تو ڈیرہ اسماعیل خان کے
گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول کے ایک سوسال پرانے ادارے سے حاصل کی اور خصوصی
طور پر اس سکول کے سو سال پورے ہونے پر تقریب میں حصہ بھی لیا لیکن ان کا
آبائی وطن بنوں تھا ،بنوں کے اکثر لوگ ان کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ انہوں
نے علاقے کا کوئی کام نہیں کیا ،سابق صدر کا دوران ملازمت یہ وطیرہ رہا کہ
قومیت ،علاقیت ان کے پاس بھی نہیں بھٹکی جیسا کہ آج کل ہمارے سیاستدانوں ،انتظامیہ
کا وطیرہ ہے ،کہ وہ قومیت لسانیت ،علاقائیت ،تعصبیت کو اپنی سیاست اور
ملازمت میں ترجیح دیتے ہیں ،جس کے بعد حق دار کا حق مارا جاتاہے ،غلام
اسحاق خان مرحوم نے ملک کی سالمیت ،بقاء اور میرٹ کی بالادستی کے لئے جو
کام کیا وہ آج کی نوجوان نسل ،سیاستدانوں اور افسر شاہی کے لئے مشعل راہ
ثابت ہوسکتی ہے،لیکن مصنف کے بقول پاکستان کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس
سلسلے میں مجرمانہ غفلت کا شکار ہے ،انہوں نے سابق صدر کی برسی ،ولادت ،کا
کوئی پروگرام ،ڈاکومنٹری تیار کرنے ،لکھنے اور دیکھانے پر کبھی توجہ نہ دی
،جس کے باعث سابق صدر کے بارے میں منفی پراپیگنڈہ کا سدباب ان کے مثبت پہلو
،اچھائیوں ،خدمات کو اجاگر نہ کرنے کے باعث نہیں ہوسکا ،مصنف نے اپنی کتاب
میں کوشش کی ہے کہ وہ ان پہلوؤں پر روشنی ڈالیں ،تاکہ پاکستان کی عوام اپنے
ماضی کے بڑوں سے سبق حاصل کرسکیں اور ان کے تجربات سے مستفید ہوکر آج وطن
جن پریشانیوں اور مشکلات کا شکار ہے سے نکلنے کی کوشش ہوسکے ،غلام اسحاق
خان مرحوم جو کہ ایک بیورکریٹ تھے ،چیئر مین سینٹ بننے کے بعد سیاستدان بھی
بن گئے ،لیکن انہوں نے نہایت ایمانداری اور میرٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں
عہدوں کے ساتھ انصاف کیا ،اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے نواز شریف اور
بے نظیر کی جمہوری حکومتوں کو چلتا کیا ،لیکن اگر معاملے کی گہرائی تک جایا
جائے تو مرحوم صدر قانون پر عمل پیرا شخص تھے اور وہ کرپشن اور اقراباپروری
کو برداشت نہیں کرتے تھے اور قانون کی حکمرانی کے خلاف چاہے وہ وزیر اعظم
ہاؤس سے ہی کیوں نہ کی جائے ،ہمیشہ اقدام کرنے کو تیاررہتے ،وہ سننا زیادہ
اور بولنا کم پسند کرتے تھے ،وہ اپنی تحاریر میں غالب کے اشعار کو اکثر
استعمال کرتے اور کلاسیکل موسیقی کے بھی شوقین تھے ،ان کے بارے میں یہ منفی
شہرت ہے کہ وہ خشک طبیعت کے مالک تھے لیکن وہ ایک فیملی مین تھے اور کم گو
ہونے کے باعث ان پر یہ الزام لگایا جاتاہے ،ہمارے بہت سے نام نہاد سیاستدان
ملک کے نیوکلیئرپروگرام کا سہرا لیتے ہیں لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ
اگرغلام اسحاق خان مرحوم خاموشی سے ابتداء میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے
لئے قابل سائنسدانوں کی ٹیم تشکیل نہ دیتے تو ایٹمی پروگرام کا حصول کبھی
ممکن نہ ہوتا،انہوں نے صوابی میں غلام اسحاق انسٹیٹویٹ آف ٹیکنالوجی کا
ادارہ قائم کیا جوکہ نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ ہے ،غلام اسحا ق نے
ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی بقیہ زندگی کتب آرائی اور عبادت میں گزاری انہیں
ضیاء الحق مرحوم نے ایک وقت میں وزیر اعظم بننے کی بھی پیشکش کی ،لیکن
انہوں نے اسے قبول نہیں کیا ۔قبائلی علاقہ جات میں ان کے کیے ہوئے اقدامات
تاحال مثبت طریقے سے چل رہے ہیں ،غلام اسحا ق خان ایک نایاب شخصیت تھے ،اور
ان کی خدمات پاکستان کے مختلف شعبوں میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ،ضرورت اس
بات کی ہے کہ ہمارا میڈیا بقول مصنف ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر
کرنے کے لئے مخلصانہ کوشش کرے ،
|