پاکستانی سیاست کے رنگ انوکھے ہیں۔ شاید گرگٹ بھی اتنے
رنگ نہیں بدلتا ہوگا جتنے پاکستانی سیاستدان بدلتے ہیں۔ ہم تو یاد کر کر کے
تھک بلکہ ’’ہپھ‘‘ چکے کہ ہمارا کون سا الیکٹیبل آجکل کس سیاسی جمات کا ’’اثاثہ‘‘
ہے۔ ہمیں ایسے الیکٹیبلز کو لوٹے نہیں، چوہے کہنا چاہیے کیونکہ سُنا ہے کہ
جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تووہ سب سے پہلے سمندر میں چھلانگ لگاتے ہیں۔ ہمارے
سیاستدان بھی کچھ اِسی قبیل کے ہیں کہ جب حکومتی کشتی ڈاواں ڈول ہوتی ہے تو
وہ بھی چھلانگیں لگا جاتے ہیں۔ اِنہیں لوٹے یا ضمیرفروش کہنے کی بجائے ’’چوہے‘‘
کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اِس لیے ہم آئندہ اِنہیں ’’چوہے ‘‘ ہی کہہ کر مخاطب
کریں گے۔
اُدھر ہماری سیاست بھی عجیب جس میں ہمیشہ انتقام کا پہلو نمایاں رہا ہے،
کسی کے ہاں کم اور کسی کے ہاں زیادہ لیکن تحریکِ انصاف کی ساڑھے تین سالہ
سیاست میں صرف انتقام ہی نظر آتاہے۔ یہی نہیں بلکہ عمران خاں نے تو اپنے
غصے، انتقام اور نرگسیت کے بَل پر ریاست میں غیرپارلیمانی الفاظ کا تڑکہ
بھی لگا دیا۔ اُنہیں قومی معاش کی فکر تھی نہ معاشرت کی کیونکہ اُن کا تو
مطمح نظر ہی یہ تھا کہ ’’گلیاں ہو جان سنجیاں وِچ مرزا یار پھرے‘‘۔ اُنہوں
نے اپنے دَور میں نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کا کوئی ایک ایسا قومی رَہنما
بھیء نہیں چھوڑا جسے بغیر ثبوت کے جیل یاترا نہ کروائی ہو۔ وہ اتنے منتقم
مزاج ہیں کہ جیلوں میں بند قومی رَہنماؤں کی کسمپرسی کی ویڈیوز بنوا کر
چسکے لے لے کر دیکھا کرتے تھے۔ وہ شاید بھول گئے کہ ہر عمل کا رَدِ عمل
قانونِ فطرت ہے۔ اب جب سے اُن کی بیساکھیاں کھو گئی ہیں وہ بوکھلاہٹوں کا
شکار ہوکر اتحادی حکومت کو فسطائیت کے طعنے دیتے رہتے ہیں۔ یہ بالکل بجا کہ
اتحادی حکومت نے بھی پکڑدھکڑ کا بازار گرم کر رکھا ہے مگر اِس فرق کے ساتھ
کہ اُس کے پاس مکمل ثبوت موجود ہیں۔ اب صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ چاروں طرف
سے گھرے ہوئے سُکڑے سہمے عمران خاں کی حالت دگرگوں اور وہ زمان پارک کے
اپنے گھر کے کسی کونے میں دبکے بیٹھے ہیں۔ گھر کے باہر سڑک کئی دنوں سے بند
ہے ۔ وہاں عمران خاں کے پیروکار لڑکے اور لڑکیاں شام کو جمع ہو کر ناچتے،
گاتے اور انجوئے کرتے پائے جاتے ہیں۔ سڑک بلاک ہونے کی بنا پر وہاں سے
گزرنے والے شہریوں کا ناطقہ بنداور وہ گالیاں بکتے لوٹ جاتے ہیں۔ سڑک بلاک
کرنے والے یہ ’’عمرانی ٹائیگر‘‘دراصل عمران خاں کا ’’حفاظتی دستہ‘‘ہے جو
کسی بھی ناگہانی صورتِ حال میں خاں صاحب کی حفاظت کا دعویدار۔ مجھے یقین کہ
اگر پولیس اور رینجرز کی کوئی ایک دو گاڑیاں بھی بھولے بھٹکے سے اِدھر
آنکلیں تو یہ سب ’’دُڑکی‘‘ لگانے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کریں گے۔
اِس کا کچھ کچھ ادراک عمران خاں کو بھی ہے اِسی لیے اُنہوں نے کہا ’’میرے
لیے اِس وقت زمان پارک سے نکلنا خطرے سے خالی نہیں‘‘۔ بہانہ اُنہوں نے
وزیرآباد کے حملے کا تراشا ہوا ہے جس میں تین ماہ پہلے اُن کی ٹانگ پر
گولیوں کے کچھ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لگے (اِس کی تصدیق خاں صاحب کے معالج شوکت
خانم کینسر ہسپتال کے ڈاکٹر فیصل سلطان نے پہلے دن ہی کر دی تھی)۔ تین ماہ
گزر چکے، خاں صاحب کے ساتھ زخمی ہونے والے سبھی افراد مدت ہوئی ٹھیک ہو چکے
لیکن خاں صاحب کی ٹانگ کا پلستر وہ ’’ لہسوڑا‘‘ ہے جو جم گیا سو جم گیا۔
اِسی پلستر کی آڑ میں خاں صاحب نے پشاور میں ہونے والے عظیم سانحے پر عیادت
کے لیے جانے سے بھی انکار کر دیا حالانکہ خیبرپختونخوا میں گزشتہ 10 سالوں
سے اُن کی بلاشرکتِ غیرے حکومت تھی۔ اُنہوں نے کہا ’’بم دھماکے ہوتے رہتے
ہیں، ہر واقعے پر جایا تو نہیں جا سکتا‘‘۔ خیبرپختونخوا کے غیرت مند پٹھان
خان کا یہ جملہ سنبھال کر رکھ لیں۔ یہ اُن کے اُس وقت کام آئے گا جب کل
کلاں عمران خاں ووٹوں کی بھیک مانگنے خیبرپختونخوا آئیں تو وہ کہہ سکیں
’’انتخابات تو ہوتے رہتے ہیں، اب ہر انتخاب میں خان کو ووٹ تو نہیں دیا جا
سکتا‘‘۔ اب عمران خاں کے ہر جملے میں مایوسیاں جھلکتی ہیں۔ جب ایک صحافی نے
سوال کیا ’’آپ نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیوں کیا؟‘‘تو ٹوٹے دِل کے ساتھ
خاں نے فرمایا ’’اور میرے پاس آپشن ہی کیا ہے؟‘‘۔
ویسے تو اور بھی کئی دِل ٹوٹ چکے جن کا ذکر کالم کے آخر میں لیکن مجھے ذاتی
طور پر دُکھ لال حویلی والے کا دِل ٹوٹنے کا ہے۔ وہ بیچارا ’’اِدھر کا رہا
نہ اُدھر کا‘‘۔ گیٹ نمبر چار کے دَر اُس پر بند ہو چکے اور اڈیالہ جیل کے
کھُل چکے۔ اُس نے زمان پارک میں عمران خاں سے ملاقات کے بعد باہر نکل کر
بڑھک لگائی کہ خاں صاحب پر قاتلانہ حملے میں آصف زرداری بھی شامل تھے۔ یہی
بات بعد از اں عمران خاں نے بھی کئی مرتبہ کہی بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ
اُنہیں وزیرستان کے اُن 2 کرائے کے قاتلوں کے نام بھی معلوم ہیں جنہیں اُن
کے قتل کی زرداری صاحب نے ’’سپاری‘‘ دی ہے۔ خاں صاحب کو تو کسی نے پوچھا تک
نہیں البتہ برق بیچارے شیخ رشید پر گرا دی گئی۔ اب اُن پر کئی مقدمات درج
ہیں اور ایک تھانے سے جوڈیشل ریمانڈ ہوتا ہے تو 4 تھانوں کے اہلکار اُن کی
’’کسٹڈی‘‘ کے لیے تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ سندھ کے تھانے میں کٹی ایف آئی آر پر
تو جج صاحب نے راہداری ریمانڈ دینے سے انکار کر دیالیکن مری کے تھانے کے
لیے ایک روزہ راہداری ریمانڈ دے دیا۔ روتے پیٹتے شیخ صاحب ہر تفتیش پر
رَولا ڈالتے ہیں کہ یہ بات تو اُنہیں عمران خاں نے بتائی تھی لیکن اِس بیان
پر ’’تفتیشی‘‘ کان بند کر لیتا ہے۔ شیخ رشید پر ہمیں اِس لیے بھی زیادہ ترس
آتا ہے کہ اِدھر پولیس نے اُسے دبوچا اور اُدھر محکمہ اوقاف نے
’’کارروائی‘‘ ڈال دی۔ ہوا یوں کہ شیخ صاحب کسی فارم ہاؤس پر چھُپے ہوئے تھے
تو محکمہ اوقاف نے لال حویلی کے ایک حصّے کو سیل کر دیا۔ اگلے دِن شیخ صاحب
نے ’’رَولا شولا‘‘ تو بہت ڈالا لیکن ’’ہونی تو ہو چکی تھی‘‘۔ اِس پر مستزاد
یہ کہ شیخ صاحب کو عین اُس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ لال حویلی جانے کا
غم غلط کر رہے تھے۔ اب شنید ہے کہ محکمہ اوقاف کی طرف سے لال حویلی اور
ملحقہ 7 پلاٹوں پر محکمہ اوقاف نے قبضہ کر لیا ہے اور شیخ صاحب جیل میں۔ ہم
تو اُنہیں یہی مشورہ دیں گے کہ وہ لال حویلی کے باہر پھٹہ لگا کر ’’طوطا
فال‘‘ نکالنا شروع کر دیں کیونکہ وہ اِس فن میں ماہر ہیں۔
تیسرے شخص چودھری پرویز الٰہی ہیں جن کے دِل کے ٹکڑے اِدھر اُدھر بکھرے پڑے
ہیں۔ خواہش اُن کی یہی تھی کہ اگلے چار چھ مہینوں تک وہ آخری بار پنجاب کی
وزارتِ اعلیٰ کا مزہ چکھ لیں لیکن عمران خاں نے اُن کی ایک نہ چلنے دی۔ اب
صورتِ حال یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے گھر پر پولیس بار بار چھاپے مار
رہی ہے، اُن کا دستِ راست اعظم بھٹی لاپتہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کیا
دھرا مونس الٰہی کا ہے جو اتحادی حکومت کی طرف سے ملنے والی وزارتِ اعلیٰ
کو ٹھکرا کر چودھری صاحب کو عمران خاں کے چَرنوں میں لے آیا۔ چودھری صاحب
تو اتحادی حکومت کی طرف سے وزارتِ اعلیٰ کی آفر ملنے پر بہت خوش تھے۔ اِسی
لیے اُنہوں نے ایک انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیاکہ عمران خاں کو تو ساڑھے 3
سال تک اسٹیبلشمنٹ نے گود میں بٹھائے رکھا اور اُس کی ’’نیپیاں‘‘ بدلتی
رہی۔ اگر عمران خاں کو اسٹیبلشمنٹ گود سے اُترنے دیتی تو پھر شاید اُسے
سیاست کی کچھ سوجھ بوجھ آجاتی۔ چودھری صاحب کے اِس بیان سے صاف ظاہر ہوتا
ہے کہ وہ اتحادی حکومت کی آفر دل وجان سے قبول کرنے کو تیار تھے لیکن
اُنہیں مروا دیا مونس الٰہی نے جو اب بیرونِ ملک بیٹھا ہے۔
اِن اصحاب کے علاوہ شہبازگِل، اعظم سواتی اور فواد چودھری کا دِل بھی ٹوٹ
چکا۔ یہ تینوں اصحاب جیل یاترا کے دوران روتے ہوئے پائے گئے۔ شہباز گِل اور
اعظم سواتی کے بارے میں تو عمران خاں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اُن پر جنسی
تشدد بھی ہوا ہے۔ اب شہباز گِل کو گلہ ہے کہ پیشی کے موقعے پر تحریکِ انصاف
کا کوئی بھی لیڈر موجود نہیں ہوتا۔ آجکل وہ اپنوں کے خلاف ہی آگ اُگلتا
رہتا ہے۔ زیرِحراست فوادچودھری البتہ حوصلے میں رہالیکن جب ضمانت کے بعد
اینکرپرسن کاشف عباسی نے اُس سے اُس کے بچوں کے بارے میں سوال کیا تو اُس
کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور وہ کوئی جواب نہ دے سکا۔
|