عالم اور میر عالم، عدالتیں اور دما دم مست قلندر
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشتو زبان کا ایک محاورہ ہے "چی عالم پہ سہ دے اور میر عالم پہ سہ دے".. پشتو زبان کے اس محاورے میں بہت بڑا فلسفہ ہے یعنی دنیا کس طرف ہے اور ایک مخصوص بندے کا نام لیکر کہا جارہا ہے کہ وہ کس طرف ہے.پتہ نہیں جس وقت یہ محاورہ بنایا گیا یا کہا گیا اس وقت صورتحال کیسی تھی، ویسے محاورے بنانے والے یا کہنے والے بھی بڑے ہوشیار اوردانا لوگ تھے ایسی باتیں کر جاتے تھے کہ جب تک زبان یعنی رابطے کیلئے زبان موجود ہوگی تبھی تک یہ لوگوں کو یاد رہیں گے.اس پشتو محاورے کی اگر موجودہ صورتحال میں جائزہ لیا جائے اور پرکھا جائے تو...سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسمبلیوں سے استعفے دینے والے اب کس منہ سے انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں، یہی وہ اسمبلیاں تھی جس میں بقول انہیں "باجوہ" اور اس کے گٹھ جوڑ نے پہنچایا اور انکی بھرپور مدد کرتے رہے لیکن جب انہیں اپنی اوقات کا پتہ چلا اور اکثریت ختم ہوگئی تو اب وہی "باجوہ"ہے اور یوتھیوں کی یلغار ہے، اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک قول یاد آتا ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو، خیرباتیں کہیں اور نکل رہی ہیں.
مدینہ کی ریاست کے نا م پر سیاست کرنے والوں کی ذاتی زندگی سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں لیکن اگر کسی رہنما کی ذاتی زندگی اسلامی اصولوں کے خلاف ہو اور وہ اسلام کا دعویدار بھی ہو تو پھر ذاتی کچھ نہیں رہتا اور یہ قانون اپنے آپ کو رہنماء کہلوانے والے سب رہنماؤں کیلئے ہیں کیا سیاسی اور کیا مذہبی جماعتیں،..
قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے برملا استعفی دینے والے اب عدالتوں میں رٹ جمع کررہے ہیں کہ جلدی سے انتخابات کرائے جائیں تاکہ یہ لوگ پھر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں، سوال یہ ہے کہ اگر اسمبلیوں میں آنا ہی تھی تو پھر استعفی دیا ہی کیوں تھا، دوسری طرف عدالتوں سے یہ بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ان کے استعفے منظور نہ کئے جائیں.اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے بھی ہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود سوال یہ ہے کہ کیا کسی نے ایک نجی ٹی وی چینل کی جانب سے اثاثوں کے حوالے سے کئے جانیوالے ایک رپورٹ پڑھی یا دیکھی ہے. انگریزی زبان میں چھپنے والی اس رپورٹ کو نجی ٹی وی چینل نے اردوں میں شائع نہیں کیا تاکہ "کمی کمینوں "کو ان کے رہنماؤں کے اثاثوں کے بارے میں پتہ نہیں چل سکے. اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ انتخابات میں اسمبلیوں میں پہنچنے والے بہت سارے خود ساختہ رہنماؤں جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا البتہ انہیں "چرب زبانی"زیادہ آتی تھی ان کے اثاثے دگنے ہوگئے ہیں ان میں صوابی، سوات سے لیکر میانوالی کے لیڈر بھی شامل ہیں.جن کے اثاثوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا، سوال یہ ہے کہ ان کے پاس کون سا ایسا کاروبار تھا کہ ان کے اثاثے مسلسل بڑھتے رہے خواہ وہ قومی اسمبلی کے ارکان تھے یا صوبائی اسمبلی کے اراکین تھے.انہوں نے کونسا ایسا کاروبار کیا جس میں انہیں کروڑوں روپے کی آمدنی صرف چند سالوں میں ملی.جبکہ حقیقت میں اسی مدینہ کی ریاست کی ڈھول بجانے والوں نے "کنفلیکٹ آف انٹرسٹ" کے تحت کاروبار پرممبران اسمبلی کے کاروبار پر پابندی عائد کی تھی تو پھر ان کے پاس اتنا مال کہاں سے آگیا. حقیقت میں یہی وہ کرپشن ہے جو ان جیسوں کے آنے سے قبل حکمران کرتے رہے ہیں اور تبدیلی کے نام پر ڈھول بجا کر لڑکیوں کو نچانے والوں نے بھی یہی کام کیا اور مال بناتے گئے.
زیادہ دور کی بات نہیں کشمیر مسئلے پر کئی منٹ روڈ پر کھڑے ہو کر احتجاج کرنے والوں نے منافقت کی وہ انتہا کردی ہے کہ اب ان پر اپنے علاقوں کے لوگ بھی اعتبار کرنے کے قابل نہیں، سچ لکھنے اور حق بات کرنے والوں کو لفافہ کہنے کا سلسلہ بھی انہی تبدیلی والے سرکار نے شروع کیا، انہوں نے اپنے لئے صحافی خریدے، جو ان کے بیانیے کو سوشل میڈیا سے لیکر براڈکاسٹ میڈیا پر چلاتے رہے ہیں اور ابھی بھی چلا رہے ہیں. حالانکہ ان نام نہاد صحافیوں کی تعلیمی قابلیت کیا ہے، اور صرف چرب زبانی کے علاوہ لکھنے بھی نہیں آتا.ویسے بھی تبدیلی والی سرکار کے دور میں صحافی بن کر تجزیہ کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ایک وقت میں ہوٹلوں میں میزوں کی صفائی کیا کرتے تھے لیکن انہیں چرب زبانی کے بدولت صحافی بننے کا اعزاز حاصل ہوا.
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے اگر اسمبلیوں پھر آنا ہے تو پھر استعفی ہی کیوں دئیے.یہی وہ سوال ہے کہ اب ہر جگہ پر یہ سوال کرنانہ صرف ہر ایک صحافی کا بلکہ ہر ایک شخص کا حق بنتا ہے ان کے اثاثوں سے لیکر ہر چیز کے بارے میں سوال بھی اب پاکستانی عوام کا حق بنتا ہے.
ایک طرف موجودہ حکومت جو اپنے آپ کو عوامی حقوق کا ترجمان کہلواتی ہیں نے اتنے وزراء بھرتی کرلئے ہیں کہ انہیں دی جانیوالی سہولیات کا سن کر دل کو ٹھیس پہنچتی ہیں. ریٹائرڈ جرنیلوں سے لیکر ریٹائرڈ ججز تک مراعات کی بھر مار ہے جس پر پورے ملک کی اشرافیہ قابض ہے اور ان کا ساتھ د ے رہی ہیں اور اپنی اور ان کی عیاشی کیلئے ٹیکسوں کی بھر مار کررہی ہیں، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے لیکر شادی ہالوں پر ٹیکس جیسے اقدامات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس ملک کے اشرافیہ کو غریب عوام سے کتنی دلچسپی ہے.وہ چاہتے یہی ہے کہ یا تو یہ عوام خودکشی کریں یا اگر زندہ رہیں تو ٹیکسوں کی بھر مار سے ان زندگی اجیرن ہو اور نکاح کے بجائے ان میں زنا اورفحاشی عام ہو.اپنی عیاشیاں اشرافیہ اور ان کے ساتھی کم نہیں کررہے لیکن کم وبیش پچیس کروڑ کے پاکستانی عوام کو گدھے سمجھ کر سنبھالنے والے حکمران یہ بھول رہے ہیں کہ اگر اس ملک کے عوام سری لنکا کے عوام کی طرح نکل آئے تو پھر داستانیں تک بن جائیں گی اور اس میں کسی کو نہیں بخشا جائے گا کیا جرنیل، کیا جج، کیا سیاستدان اور کیا سرکاری ملازم.کیونکہ عدالتوں میں انصاف کیلئے آنیوالوں کے کیسز پڑے ہیں انہیں کوئی پوچھ نہیں رہا کہ کب سماعت ہوگی لیکن سیاسی پارٹیوں کے کیسز کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہورہی ہیں.اور اس میں فیصلے بھی کئے جارہے ہیں.
ملک کی ایک اہم شخصیت نے گذشتہ روزپاکستان کے دیوالیہ ہونے کا اعتراف کیا اور دوسری طرف تبدیلی اور مدینہ کی ریاست کرنے والوں کو اب الیکشن کی پڑی ہے، جیسے الیکشن پر اخراجات نہیں ہونگے ان کے پاس اسمبلیوں میں جانے کا وقت ہے لیکن عوامی مسائل کا حل نہیں.ایسے حالات میں عوام انتخابات کے حق میں نہیں، نہ وہ مزید ٹیکسوں کی بھر مار برداشت کرسکتے ہیں،او ر بقول ایک پشتو محاورے کے چی سڑے تنگ شی نو پہ جنگ شی.یعنی کسی شخص کو اگر بہت زیادہ تنگ کیا جائے تو پھر وہ لازما جھگڑے کی طرف آئیگا. وہ نہ موجودہ حکمرانوں کو اچھا سمجھتی ہیں اور نہ ہی اس سے قبل کے حکمرانوں کو، انہیں عام زندگی میں ریلیف چاہئیے خواہ وہ انہیں کوئی بھی دے.فوجی حکومت دے یا پھر صدارتی نظام، اگر یہی نہیں ہوگا تو پھر یقینا "دما دم مست ہوگا"جس میں کوئی بھی نہیں بچے گا. #election #kpk #political #session #pakistan #games #politics #noelection #alamaomeralam #eliateclass #taxes
٤ |