پاکستان اور ہماری نسلیں

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کو میرا آداب
عزیزان من ہم لوگ ہر سال 14 اگست کو اپنے پیارے ملک پاکستان کے آزادی کا دن مناتے ہیں اخبارات میں جدوجہد آزادی کے بارے میں کالمز اور تبصرے شایع ہوتے ہیں اور الیکٹرونک میڈیا پر سارا دن تحریک آزادی کے بارے میں مختلف پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں ملک کے تمام شہروں میں پاکستان کے جھنڈے کے لہرانے کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ملک کے وزیر اعظم اور صدر پاکستان اپنے اپنے خطابات میں جدوجہد آزادی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں ملک کے ممتاز لوگوں کو اعزازات سے نوازا جاتا ہے اور پورے ملک میں ملی نغموں کی بھرمار نظر آتی ہے ملک کے لگ بھگ تمام اسکولوں میں بچوں کے درمیان مختلف پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں گویا اس ایک دن میں ہم اپنی نئی نسل کو یہ بتانے اور جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ملک ہم نے کتنی قربانیوں اور کتنی کاوشوں کے بعد حاصل کیا ۔ فلحال میں اس ملک میں بسنے والوں کو پانچ نسلوں میں تقسیم کرتا ہوں اور اس تحریر میں اپنے اس ملک کی پانچ نسلوں کی بات کرتا ہوں میں اس وقت اپنی عمر کے جس حصے میں ہوں وہاں میں اپنے آپ کو اس ملک کی تیسری نسل کہتا ہوں اور اس تیسری نسل کے لوگوں نے اس ملک کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں میں اپنی پہلی نسل ان لوگوں کو کہتا ہوں جنہوں نے اپنی آنکھ ہندوستان میں کھولی اپنا بچپن اور اپنی جوانی وہیں گزاری اور تحریک آزادی کے سارے معاملات سے وہ بخوبی واقف تھے لیکن جب وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں داخل ہوئے تو اس وقت یہ ملک آزاد ہوچکا تھا اور عمر کے آخری وقت میں انہیں اپنا مال واسباب اپنی جائدادیں اپنے دوست احباب اور کئی قربانیوں کے بعد اس سرزمین میں آنا پڑا جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا گیا میرے مرحوم دادا کا تعلق اسی پہلی نسل سے تھا ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں میں اپنی دوسری نسل ان لوگوں کو کہتا ہوں جنہوں نے اپنی آنکھ اس ملک کےآزاد ہونے کے کچھ عزصہ پہلے کھولی یعنی 10 یا 15 سال کی عمر میں وہ پاکستان آئے یا آنکھ تو اسی ملک میں کھولی لیکن اس ملک میں آئے ہوئے انہیں زیادہ وقت نہیں گزرا تھا اس لئے انہیں ان کے بڑوں نے اپنے بچپن اور جوانی کے سارے قصے سنائے ہوئے ہوتے ہیں اور تحریک آزادی کے وہ معاملات جو انہوں نے خود دیکھے ہوئے تھے وہ اور جو سنے ہوئے تھے وہ بھی بتلاتے رہتے تھے چونکہ پہلی نسل کے کئی لوگ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں خود بھی شریک تھے تو وہ اپنی اگلی یعنی ہمارے لئے دوسری نسل کو بڑے واضح انداز میں سب کچھ بتاتے تھے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں اس کے بعد نمبر آتا ہے تیسری نسل کا جس میں مجھ جیسے لوگ شامل ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سائنسی تبدیلیاں ہوں ، معاشی اتار چرھائو ہو ،موسمیاتی تبدیلیاں ہوں ،قدرتی آفاتوں کا آنا ہوں یا سیاسی اتار چڑھائو ہو اس نسل نے ان سب کا سامنا کیا ہے اور اس نسل کی انکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہوا اگر میں اپنی بات کروں تو واقعی میں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور اگر ہم اس وقت اپنے ملک کے معاشی اور اقتصادی حالات کو دیکھتے ہیں تو مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ جو داستانیں اور تحریک آزادی کے قصے ہماری پہلی نسل نے اپنی دوسری نسل کو منتقل کیں پھر دوسری سے تیسری تک منتقل ہوئیں یعنی ہم تک اور اب ہم نے اپنی نسل یعنی چوتھی نسل کو منتقل کیں لیکن آج جب ہم اپنے ملک کی طرف دیکھتے ہیں اس کے معاشی اور اقتصادی حالات کی طرف جب نظر دوڑاتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے ہمارا اپنا ضمیر ہم سے پوچھتا ہے کہ ہمارے بڑوں نے جس ملک کی آزادی کے لئے تحریک چلائی تھی کیا وہ یہ ملک ہے ؟
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں میرے نزدیک چوتھی نسل ہمارے وہ بچے ہیں جنہیں ہم اپنے ملک کے ماضی کے بارے میں بڑے فخر سے بتاتے رہے اور اس کے روشن مستقبل کے خواب دکھاتے رہے لیکن جب وہ زندگی کی لاشعوری حالت سے نکل شعور والی حالت میں داخل ہوئے تعلیم کے مراحل سے گزر کر پریکٹیکل زندگی کی طرف آئے تو معلوم ہوا کہ یہ ملک جس کے لئے ان کے آبائو اجداد نے قربانیاں دیں اپنا گھربار چھوڑا یہ تو در اصل آزاد ملک کی لسٹ میں ہے ہی نہیں پھر یہ 14 اگست کو آزادی کا دن کیوں منایا جاتا ہے؟ یہ سن کر ہم شرمندہ ہوجاتے ہیں ان کی اس سوچ پر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد کسی نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ آپ آزادی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں تو انہوں نے بڑے پرجوش انداز میں بتایا کہ اب ہم بلا خوف اپنی مسجد میں نماز ادا کرسکیں گے آزادی سے عبادت کرسکیں گے ہمارے بچے بلا خوف و خطر تعلیم حاصل کرسکیں گے ۔۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں پشاور کی پولیس لائن میں واقع ایک مسجد میں گزشتہ روز خودکش حملہ ہونے کا جو واقعہ رونما ہوا اس کے بعد ہماری نسل ہم سے پوچھتی ہے اور ان کے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگتا ہے کہ کیا یہ آزادی ہے ؟ آئے دن ہماری بچیاں اور بچے اسکول سے اغواہ کرلئے جاتے ہیں پھر ان کا کوئی پتہ نہیں ہوتاتو پھر ذہن میں یہ سوال آتا ہے کیا یہ آزادی ہے؟ ایسے حالات و واقعات پر جب نظر جاتی ہے تو مجھے اپنی آنے والی پانچویں نسل کا خیال آتا ہے کہ ان کا کیا حال ہوگا لیکن مجھے یقین ہے کہ ہماری چوتھی نسل یعنی ہمارے بچے اپنی نسل کو کم از کم تحریک آزادی جیسے واقعات سنا کر شرمندہ نہیں ہوں گے - کیوں کہ جو ملک ہمیں رمضان المبارک کی ستائسویں شب میں ایک نعمت کے طور پر عطا کیا گیا وہ ملک یہ پاکستان نہیں ہے جس ملک کا خواب حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا کم از کم وہ یہ پاکستان نہیں ہے جس ملک کی خاطر حضرت قائد اعظم نے دن رات محنت کی اور کافی جدوجہد کرکے جس ملک کو حاصل کیا کم از کم وہ یہ پاکستان نہیں ہے ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں زرا غور کریں کہ اللہ تبارک وتعالی نے ہمیں اس ملک میں کیا کچھ نہیں دیا کن کن نعمتوں سے نہیں نوازا ہمارے پاس دریا ہیں سمندر ہے ہمارے پاس پہاڑی سلسلہ ہے بندرگاہ ہے زرخیز زمین ہے ہمارے پاس ایٹمی طاقت ہے بیشمار اشیاء ایسی ہیں جو ہمارے ملک میں پیدا ہوتی ہیں اور ہم ان اشیاء سے زرمبادلہ کماتے ہیں ہمارے پاس ہونہار اور باصلاحیت نوجوانوں کی کثیر تعداد موجود ہے جو اس ملک کی ترقی اور کامیابی کے لئے ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں پھر ہم کیوں صرف اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوگئے ہیں ؟ آخر ہم اپنی انا اور ضد کی خاطر اس ملک کا نقصان کرنے پر کیوں تل گئے ہیں ؟ جن لوگوں کے بال بچے ملک سے باہر ہیں جن لوگوں کے اکائونٹ باہر کی بینکوں میں ہیں ان کو اس ملک کے نفع و نقصان سے کوئی سروکار نہیں وہ طبقہ جس کے پاس ملک کے ان حالات کو دیکھ کر باہر جانا آسان ہے ان کو بھی کوئی پرواہ نہیں کہ یہ ملک رہے یا نہیں لیکن اس ملک کے 22 کڑوڑ عوام میں سب سے بڑا طبقہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہیں یہیں رہنا ہے اور یہیں مرنا ہے جسمیں ہم لوگ بھی شامل ہیں تو ہمارا کیا قصور؟ کیا ہمارا قصور یہ کہ ہم بھی اس ملک کے باشندے ہیں ؟

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں دنیا کی جس سرزمین پر لوگوں اللہ تبارک و تعالی کی نافرمانی پر اتر جاتے ہیں فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستوں سے ہٹ کر شیطان کی باتوں پر عمل درآمد کرنا شروع کردیتے ہیں تو وہاں یہ ہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ملک میں ہمارے ساتھ ہورہا ہے قران مجید میں صاف اور واضح الفاظ میں رب العالمین نے فرمایا ہے کہ "جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسے ہی حکمران تم پر مسلط کئے جائیں گے " اس لئے ہمیں اپنے اعمال پر بھی نظر ثانی کرنا ہوگی ۔
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کیا یہ ہمارے لئے شرم کا مقام نہیں کہ ہمارے ملک کے آزاد ہونے کے بعد آزاد ہونے والے ممالک نے کتنی ترقی کی ہے اور کہاں سے کہاں اپنے ملک کو پہنچادیا جس میں سر فہرست نام بنگلہ دیش کا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے کسی سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے ہمارے بڑے کہتے تھے کہ جب کسی کا ہاتھ مانگنے والا بن جائے تو وہ ہاتھ پھر کبھی دینے والا نہیں بن سکتا اور ہمارے حکمرانوں کا شاید یہ اب ایک مشغلہ بن چکا ہے جب تک وہ دوسروں پر انحصار کرتے رہیں گے تب تک وہ اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکتے جہاں قانون کی بالادستی نہ ہو لاکھوں بے گناہ لوگ کئی کئی سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی بے گناہی کے لئے انصاف کا انتظار کررہے ہوں مگر انہیں انصاف نہ ملے جبکہ طاقتور ،بااثر اور گناہ گار انسان ازاد فضائوں میں سانس لے رہے ہوں وہاں کے حالات بلکل اسی طرح ہوتے ہیں جیسے ہمارے ملک کے حالات ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہمارا موضوع نہایت ہی سنجیدہ نوعیت کا ہے مگر یہاں کے قوانین کو دیکھ کر بدقسمتی سے مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا جو میں یہاں شامل کرنا چاہوں گا اور مجھے یقین ہے کہ یہ لطیفہ سن کر نہ صرف آپ کو ہنسی آئے گی بلکہ اس لطیفے کے ذریعے جو بات کہنا چاہ رہا ہوں میری اس بات پر یقین بھی آئے گا تو جناب ایک عدد گائے بڑی تیزی سے بھاگ رہی تھی تیزی سے بھاگتے ہوئے اس کا سامنا ایک ہاتھی سے ہوجاتا ہے وہ اسے رکنے کا اشارہ کرتا ہے اور جب گائے رک جاتی ہے تو پوچھتا ہے کہ تم کیوں بھاگ رہی ہو ؟ تو اس نے کہا کہ بھئی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ساری بھینسوں کو پکڑ کر بند کردو تو ہاتھی نے کہا کہ لیکن تم تو گائے ہو تم کیوں پریشان ہورہی ہو تو اس نے کہا کہ اگر میں ان کے ہتھے چڑھ گئی تو مجھے یہ ثابت کرنے کے لئے بیس سال لگ جائیں گے کہ میں بھینس نہیں گائے ہوں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں کیسا لگا آپ کو یہ لطیفہ تھا تو یہ لطیفہ لیکن اگر دیکھا جائے تو ہمارے یہاں یہ ہی کچھ ہوتا ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت معیشت ہماری تباہی کے دھانے پر ہے اس کا ذمہ دار کون ؟ مہنگائی نے غریب انسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اس کا ذمہ دار کون ؟ وہ طبقہ جو روز کماتا ہے روز کھاتا ہے اس کا کیا ہوگا ؟ 170 ارب کا منی بجٹ لیکن میں اسے مکمل بجٹ کہتا ہوں منی کا لفظ تو صرف عوام کو دھوکا دینے والی بات ہے اس کے عوام پر کیا اثرات ہوں گے ؟ سوالات تو بہت ہیں لیکن جواب کسی کے پاس نہیں ہیں ملک کو ان حالات تک پہنچانے میں صرف حکمرانوں کا قصور نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں ہم سب کا ہاتھ ہے عوام بھی اتنی ہی قصوروار ہے جتنیے حکمران دنیا کے کئی ممالک میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں تو عوام سڑکوں پر نکل آتی ہے اور اپنی طاقت سے حکومت پر دبائو ڈالتی ہے کہ یا معاملات صحیح کرو یا اقتدار سے نکل جائو لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہمارے یہاں بسنے والے لوگوں میں مختلف طبقات کے لوگ ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں ہمارے ملک میں بسنے والے ایک طبقے کا تعلق ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کے پاس بیشمار مال و دولت اور وسائل موجود ہیں مہنگائی کے کم ہونے یا بڑھ جانے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا 22 روپے پیٹرول کی قیمت میں بڑھ جانے کے باوجود وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر پیٹرول پمپ پر لگی لائن میں بڑے ریلیکس ہوکر کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس ملک میں بسنے والے لوگوں میں اس طبقے کی تعداد زیادہ ہے اب یہاں پر بسنے والے لوگوں میں وہ طبقہ جسے ہم غریب کہتے ہیں جو روز کماتے ہیں روز کھاتے ہیں ان تمام مسائل کا بوجھ ان پر بہت زیادہ پڑتا ہے اور وہ اپنی اس غریبی کے خوف اور ڈر کی وجہ سے سڑکوں پر آنے سے گھبراتے ہیں جبکہ اس ملک میں بسنے والا تیسرا طبقہ وہ ہے جسے ہم متوسط طبقہ کہتے ہیں جو اپنی ایک مخصوص آمدنی میں اپنا ماہانہ بجٹ بنا کر گزارا کرتے ہیں اور ان حالات کا اثر اس طبقے پر بھی بہت پڑتا ہے لیکن وہ بھی کسی نہ کسی خوف اور ڈر کی وجہ سے سب کچھ برداشت کرتے ہوئے خاموش رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں میں نے اس ملک میں بسنے والے لوگوں کے جن طبقات کا ذکر کیا ہے وہ میری اپنی ایک رائے ہے کیوں کہ میں جب دنیا کے ان ممالک کی طرف دیکھتا ہوں یا ان کے بارے میں پڑھتا ہوں جہاں ایسے حالات پیدا ہوجائیں تو لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں پھر حکومت وقت یا تو استعفی دے دیتی ہے یا وہاں سے میدان چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے تو مجھے یہ محسوس ہوا کہ یہاں ایسا کیوں نہیں ہے لیکن جب میں اپنے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عوام کو اتنا بے بس کردیا ہے اتنا مجبور کردیاگیا ہے کہ وہ سڑکوں پر آنے سے کتراتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران جیسے لوگوں کو شہ مل جاتی ہے کیوں کہ انہیں عوام کی بے بسی اور مجبوری کا بھرپور اندازہ ہے لیکن وہ شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور اس کی ڈھیل بڑی لمبی ہوتی ہے جب وہ اپنی رسی کھینچنے پر آتا ہے تو پھر سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا اور اللہ رب العزت کی طرف سے مہلت نہیں ہوتی اس موقع پرجناب نطیر اکبر ابادی کی لکھی ہوئی نظم " بنجارہ نامہ" یاد آگئی کیا خوبصورت نظم ہے اور یہاں اس کا ایک بند کافی ہے آپ لکھتے ہیں
ٹک حرس و ہوا کو چھوڑ میاں
کیوں دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے
دن رات بجا کر نقارا
کیا بدھیا بھینسا بیل شتر
کیا گویں پلاسر بھارا
کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر
کیا آگ دھواں اور انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا
جب لاد چلے گا بنجارا
میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں نظیر اکبر آبادی کی اس نظم کے اس بند کا مطلب یہ ہے کہ ۔
" اے انسان دولت کے حصول کی خاطر لالچ کو چھوڑ دے اور اس کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر مارا مارا نہ پہر موت کا فرشتہ دن رات نقارا بجاکر تیری زندگی کی دولت یعنی تمہاری جان لینے کے درپے ہے تمہارے پاس پالتو جانور ہوں یعنی بیل شتر مرغ یا بھینس یا چاہے کھانے پینے کا سامان گندم چاول یا مٹر چاہے آگ جل رہی ہو یا دھواں نکل رہا ہو کھانا پک رہا ہو یا تیار ہو سارا مال ودولت اور تیری شان وشوکت یہیں دھری کی دھری رہ جائے گی جب بنجارا اپنا آپ سمیٹے ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف رواں دواں ہوجائے گا"

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں نظیر اکبر آبادی کی یہ نظم کسی خاص دور کے لوگوں کے لئے نہیں تھی لیکن ہاں خاص لوگوں کے لئے ضرور تھی جو ہر دور میں موجود رہتے ہیں اور ہمیں نظر آتے رہتے ہیں میرے دوستوں بھائیوں بچوں اور بزرگوں میری اس پوری تحریر کا لب و لباب یہ تھا کہ ہمیں اپنے اس ملک سے محبت کرنی چاہئے اس کا خیال رکھنا چاہئے اس کی خاطر اس کے دشمنوں کے مقابلے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے اس ملک کا دشمن چاہے ملک کے اندر ہو یا ملک سے باہر اس پر نظر رکھنی چاہئے اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے ملک پاکستان کو ہمیشہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھے اس کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور اس کے طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو نیست و نابود کردے

میرے محترم اور معزز پڑھنے والوں مجھے ایک شخص کی کہی ہوئے بات بہت اچھی لگی کہ اگر پوری دنیا تباہ و برباد ہوجائے تو تین جگہوں پر اللہ تبارک وتعالی کی رحمت ہمیشہ برستی رہے گی انہیں آنچ بھی نہیں آئے گی پہلی جگہ " مکہ مکرمہ" دوسری جگہ " مدینہ شریف" اور تیسری جگہ ہمارا " پاکستان"
انشاء اللہ اور اسی دعا کے ساتھ میں آپ سے اس تحریر میں اجازت چاہوں گا کہ اللہ رب العالمین ہمارے ملک کا ہمیشہ حامی و ناصر ہو آمین آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف راہی
About the Author: محمد یوسف راہی Read More Articles by محمد یوسف راہی: 166 Articles with 133872 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.