ایسا کیا ہے عمران خان کے گرفتاری میں ؟

عمران خان،عمران خان ،عمران خان آپ دس منٹ کےلئے ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھے آپ کو لازماً کوئی نا کوئی خبر عمران خان سے متعلق ملے گی۔ آپ جاکر سوشل میڈیا کھولیں دو منٹ سکرولنگ کریں آپ کوئی نا کوئی ویڈیو یا تصویر عمران خان کی ملے گی۔ آپ اس کی میں گارنٹی نہیں لے سکتا کہ وہ عمران کے حق میں ہوگی یا مخالفت میں لیکن ہاں اس کی میں گارنٹی لے سکتا ہوں کہ عمران خان آپ کو ہر جگہ ملیں گے۔ عمران خان مقبولیت کے اُس معراج پر پہنچ چکے ہیں۔ کہ جہاں اس کا کوئی بھی مخالف اُس کاکچھ نہیں کرسکتا۔ بہت ساری آڈیوز آئی ویڈیوز ریلیز کرنے کے دھمکیاں ملی۔ توشہ خانہ کا کیس اچھالا گیا۔ لیکن اسے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب اس کے مقبولیت کے پاس سے بھی نہیں گزرے۔ خلاصہ یہ کہ عمران خان پاکستانی سیاست کا دیوتا بن چکے ہیں۔شاید آپ لوگوں کو لگتا ہوگا کہ میں تھوڑی سی مبالعہ آرائی سے کام لے رہا ہوں۔ مگر جو کچھ میں نے بیان کیا۔ یہ سب سچ ہے۔ اور اس بات کا اعتراف تو ان کے مخالفیں بھی کررہے ہیں۔ کہ عمران خان عوام میں اور پاکستانی سیاست میں انتہائی مقبول ہے۔ تبھی تو ہر بات عمران خان پر شروع ہوتی ہے اور عمران خان پر ختم ہوتی ہے۔

عمران خان کچھ عرصہ اتنے مقبول نہیں تھے۔ بلکے یہ اِن بارہ پارٹیوں کا کمال ہے جو آج حکومت میں ہے۔ پچھلے سال مارچ کے مہینے سے پہلے عمران خان ایک غیر مقبول شخصیت تھے اور مولانا فضل رحمٰن ایک مقبول سیاسی رہنماء کے طور پر سامنے آئے تھے۔ ملک کے کونے کونے میں جلسے کررہے تھے۔ خیبر پختون خوا کے ضمنی انتخابات واضح برتری حاصل کرچکے تھے۔ اور آگے اپنے مستقبل کے بارے میں بڑے پُر امید نظر آرہے تھے۔ لیکن عمران خان کے مخالفین کا ایک مسئلہ ہے۔ کہ انہوں نے عمران خان کو اپنے اعصاب پر سوار کرلیا ہے۔ اور ان کو اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔ اور اسی وجہ سے یہ بارہ پارٹیاں جس میں کوئی ایک بھی بات مشترک نہیں ہے۔ عمران خان کے معاملے میں سارے ایک ہے۔ اور اسی بات کا عمران خان بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔بارہ پارٹیوں نے ایک ناکام حکومت کرنے کے بعد بھی ایک دوسرے سے نا کوئی گلہ کیا ہے۔ اور نا کبھی کسی پر الزام لگایا ہے۔ کیونکہ ان کا مقصد عمران خان کو کسی نا کسی طریقے سے آوٹ کرنا ہے۔

اور ان سب کا فوکس حکومتی امور چلانے سے زیادہ عمران خان کے اوپر ہے۔ وہ عمران خان کو ہر حال میں سبق سیکھانا چاہتے ہیں۔اور وہ یہ سبق عمران خان کو گرفتار کرکے سیکھانا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی کوئی نئی خواہش نہیں ہے۔ بلکے جب سے یہ لوگ اقتدار میں آئے ہیں۔ ایسے ہی خیالات ان کے دماغ پر حاوی رہے ہیں۔ حالانکہ ان پارٹیوں میں کچھ سمجھدار لوگ عمران خان کو گرفتار کرنے کے حق میں نہیں ہے وہ جانتے ہیں۔کہ اس سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔اور ان کو یہ ڈر بھی ہے۔ کہ کہیں عمران خان کے گرفتاری سے ان کے شہرت کو مزید چار چاند نا لگ جائے۔ مگر کچھ ایسے لوگ بھی ہے۔ جو عمران خان کو ہر حال میں گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ چاہئے اس عمل کا نتیجہ کوئی بھی نکلے اس سے اسکو کوئی پروا نہیں ہیں۔

عمران خان کی گرفتاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کے پارٹی کارکنان ہے۔ کیونکہ جب بھی عمران خان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔پارٹی کارکنان ان کے گھر کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اب یہ خدا جانے کہ عمران خان کو یہ اطلاع کون پہنچاتا ہے کہ آپکو گرفتار کرنے کو فیصلہ ہوچکا ہے۔ اور یوں عمران خان گرفتاری سے بچ جاتے ہیں۔

اب میرے سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ یہ لوگ عمران خان کو گرفتار کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر ہم نے اُن کو گرفتار کرلیا۔ تو وہ اور مقبول ہوجائیں گے۔ عمران خان بھی اپنے اقتدار کے چار سال تک گرفتار کرو اور رہا کرو والا گیم کھیلتے رہے انہیں کچھ ہاتھ نہیں تو یہ خاک کچھ حاصل کرپائینگے۔ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہیں۔ قوم کے اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ لوگ معمولی معمولی باتوں پر گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑوں پر اتر آتے ہیں۔ معاشرتی اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے۔ بیرونی دنیا میں ہماری عزت دس فیصد بھی نہیں رہی اسلامی ممالک جو بھائی ہونے کے دعویدار تھے وہ بھی اب آنکھیں چرا رہے ہیں۔ ملک دہشت گردی کے آگ کے طرف بڑھ رہا ہے جس سے بہت ساروں کے جلنے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔ ملک کہ اہم ترین مقامات تک دہشت گرد پہنچ چکے ہیں۔ کچھ دن پہلے پشاور پولیس لائن اور کل کراچی پولیس ہیڈکواٹر تک دہشت گرد پہنچ گئے تھے۔ پاکستان کے محفوظ ترین شہر اسلام آباد میں ایک لڑکی کا گینگ ریپ ہوا۔ اور آج تک اس کے قاتلوں کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ ملک میں اتنا کچھ ہورہا ہے۔ مگر اہل اقتدار دل میں عمران خان کی گرفتاری کے خواہش لے بیٹھے ہیں۔ دہشت گردی پر بلائی گی اے پی سی کا اجلاس آج تک نہیں ہوسکا۔ لیکن عمران خان کے گرفتاری کے ہر روز نئے پلان ترتیب دیے جاتے ہیں۔کیا انہوں نے عمران خان کی حکومت اس لئے ختم کی تھی۔ کہ ان کو گرفتار کرسکیں۔ یا ان کے پاس ملک کو چلانے کو بھی کوئی پلان تھا ؟ اگر تھا تو کہاں ہے وہ پلان ؟
 

Asim anwar khan
About the Author: Asim anwar khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.