کرناٹک : اے دل تری بربادی کے آثار بہت ہیں

کرناٹک میں اسمبلی انتخابات مئی کے تیسرے ہفتہ میں ہونے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے، لیکن ابھی سے انتخابات کی گہماگہمی شروع ہوچکی ہے۔بی جے پی چونکہ پورے سال غریقِ انتخاب رہتی ہے اس لیے ہر ریاست میں بگل بجانے کی سعادت اسی کو حاصل ہوتی ہے۔ کرناٹک میں بھی یہی ہوا ۔ امیت شاہ نے نئے سال کا انتظار تک نہیں کیا بلکہ 30 دسمبر 2022کو ہی کرناٹک کے منڈیا میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اگلے سال منعقد ہونے والے اسمبلی انتخاب کی مہم کا آغاز کردیا۔ اس موقع پر امیت شاہ نے یاد دلایا کہ انہوں نے 2018 کے انتخابات کا آغاز اسی ضلع سے کیا تھا۔ یہاں سے مٹھی بھر اناج مانگ کر بی جے پی نے ان کسانوں کو انصاف دلانے کا حلف لیا تھا ،جن کے ساتھ مبینہ طو رپر کانگریس کے دور میں ظلم ہوا تھا۔ یہ بات درست ہے لیکن پھر آگے کیا ہوا؟ یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

عوام نے امیت شاہ پر اعتماد کیا اور بی جے پی کو ریاست کی سب سے بڑی پارٹی بنادیا یہ اور بات ہے کہ واضح اکثریت نہیں ملی ۔ اس کے باوجود نے اپنی حلف برداری کرائی اور تین بعد ناکام و نامراد ہوکر لوٹ گئے۔ کانگریس نے جے ڈی ایس کے ساتھ مل کر حکومت بنالی اس پر رائے دہندگان کو بہت غصہ آیا۔ انہوں نے پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی اور اس کے حلیف کو 28میں سے 26 نشستوں پر کامیاب کرکے اپنے غٰض و غضب کا اظہار کیا اورں 51 فیصد سے زیادہ ووٹ سے نواز دیا لیکن سوال یہ ہے کہ کرناٹک میں کسانوں کے ا س غیر معمولی اعتماد کا بدلہ انہیں کیا ملا؟ مرکزی حکومت نے اڈانی اور اس کے بھائی بندوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے زراعت پر کالا قانون منظور کردیا ؟ اس کے لیے کسانوں کو سڑکوں پر اترنا پڑا اور مودی سرکار بالآخر ذلیل ہوکر اسے واپس لینے پر مجبور ہوگئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا کرناٹک کے کسان اس اعتماد شکنی کو بھول جائیں گے اور پھر سے کمل کے فریب میں گرفتار ہوجائیں گے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو اپنی تباہی و بربادی کے لیے کوئی اور نہیں وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ بقول شاعر؎
اے دل تری بربادی کے آثار بہت ہیں
شہکار کے بہروپ میں فن کار بہت ہیں

امیت شاہ نے اپنے خطاب میں کانگریس پر اقرباء پروری کا الزام لگایا تھا اور وہ صد فیصد درست ہے لیکن خود بی جے پی بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے۔ اس کو یدویورپاّ کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے جو بچپن ہی سے آر ایس ایس میں ہیں اس لیے ان کی تربیت میں کانگریس یا دیگر نظریات کے حاملین کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ انہوں نے حال میں عمر کا بہانہ بناکر انتخاب سے سنیاس لے لیا لیکن اپنے حلقہ انتخاب شکار پور سے بیٹے وجیندر کو میدان میں اتاردیا ۔ پچھلے الیکشن کے قبل وہ سدا رمیاّ کے بیٹے یتندر کے خلاف میسور کے ورونا حلقۂ انتخاب سے وجیندر کو لڑانا چاہتے تھے لیکن آخری وقت میں فیصلہ بدل دیا گیا اور اس سے ناراض بی جے پی کارکنان نے پنڈال میں توڑ پھوڑ کرکے اپنے غم و غصے کا ااظہار بھی کیا تھا۔ وجیندر کی گاڑی روکی گئی تو پولس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ اُس وقت شکار پور سے یدورپاّ کےبڑے بیٹے رگھویندر رکن اسمبلی تھے۔ یدورپاّ نے ان کا ٹکٹ کاٹ کر خود وہاں سے انتخاب لڑا۔بی جے پی نے اس طرح یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس کے اندر اقربا پروری نہیں ہے لیکن پھر آگے کیا ہوا؟

یدورپاّ ارکان اسمبلی کو خرید کر 78سال کی عمر میں پھر سے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ ان کا بڑا بیٹا رگھویندر رکن پارلیمان بن گیا۔ چھوٹے بیٹے وجیندر کو پہلے پارٹی کا سکریٹری اور پھر نائب صدر بنا دیا گیا۔ یدو رپاّ اس کو اپنا ولیعہد بناکر شکار پور سے الیکشن لڑا رہے ہیں۔ بعیدنہیں کہ کرناٹک کے تاج کی اگلی لڑائی سابق وزیر اعلیٰ ایس آر بومئی کے بیٹے بسوراج بومئی اور یدورپاّ کے فرزند وجیندر کے درمیان ہو۔ کیا یہ زعفرانی اقرباء پروری نہیں ہے ؟ یدورپاّ کے علاوہ ریڈی خاندان سے بھی بی جے پی کے قدیم مراسم ہیں ۔ ریڈی برادران سے بی جے پی کی قربت کا آغاز 1990 کی دہائی میں ہوا۔ اس وقت بیلاری کانگریس کا مضبوط قلعہ ہوا کرتا تھا۔ اس لیے 1999 میں سونیا گاندھی نے وہاں سے انتخاب لڑا۔ ان کے خلاف بی جے پی نےآنجہانی سشما سوراج کو میدان میں اتارا۔اس وقت ریڈی برادران نے لوک سبھا انتخاب لڑنے میں بی جے پی کی مدد کرکے اسے بیلاری میں مضبوطی فراہم کردی ۔
2008 میں جب بی جے پی ریاست کے اندر اقتدار میں آئی، تو ریڈی کو ان کے بھائی کروناکر ریڈی اور ساتھی شری رامولو کے ساتھ کابینہ میں شامل کیا گیا۔ 2009 میں انھوں نے بغاوت کر دی اور بی جے پی کے 60؍ اراکین اسمبلی کو ایک ریسورٹ میں لے گئے ۔ اس کے نتیجے میں وزیر اعلیٰ یدی یورپا کو اپنے ایک قابل اعتماد اور اب ایک مرکزی وزیر شوبھا کرندلاجے کو کابینہ سے ہٹانے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ ان رشتوں میں مزید تلخی کا سبب کرناٹک لوک آیوکت کے ذریعہ جناردھن ریڈی پر کانکنی گھوٹالے کا الزام بنا اور 2011 کے اندرانہیں گرفتار کیا گیا ۔ چار سال جیل کی چکی پیسنے کے بعد 2015 میں وہ ضمانت پر رِہا ہوسکے ۔ ایسی صورتحال میں بدعنوانی کی مخالفت کا ڈھونگ کرنے والی بی جے پی کے لیےریڈی کو پارٹی میں شامل کرنا مشکل ہوگیا لیکن ریڈی خاندان سے اس کے تعلقات استوار رہے ۔ یہ اقرباء پر وری کی دوسری بڑی مثال ہے۔

اس سال منتخب ہونے والے ریاستی انتخاب کے حوالے سے جناردھن ریڈی کے تیور بدلے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے الیکشن سے قبل 'کلیانہ راجیہ پرگتھی پکشا' کے نام سے ایک نئی پارٹی قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے اور اب الیکشن کمیشن میں اپنی پارٹی کو رجسٹر کروانے کی تگ و دو میں نئی دہلی کے چکر کاٹ رہے ہیں ۔ جناردھن ریڈی کے اس فیصلے کا پہلا محرک تو ان کے قریبی بی سری رامولو کو وزیر صحت کے عہدے سے ہٹا کر وزیر ٹرانسپورٹ بناناہے۔ اس کے علاوہ جناردھن ریڈی ریاستی سیاست میں اپنے لیے کسی اہم عہدے کی یقین دہانی نہیں کیے جانے سے بھی ناراض ہیں ۔۔ ریڈی برادران پارٹی کے صوبائی سیکریٹری بی ایل سنتوش کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور انہیں ہٹانا چاہتے ہیں۔ نئی پارٹی بنانے کے فیصلے سے بی جے پی کی کرناٹک اکائی پریشان ہے۔ مقامی قائدین نے اعلیٰ کمان سے درخواست کی ہے کہ وہ کسی طرح ان سے بات کرکے انہیں اعتماد میں لیں ۔

جناردھن ریڈی نے اپنی نئی سیاسی پارٹی کے لیے کافی کام کیا ہے۔ ان کی حکمت عملی گزشتہ الیکشن میں ہارنے والی تمام جماعتوں کے امیدواروں سے رابطہ کرکے انہیں اپنے ساتھ جوڑنا ہے ۔ اس کا ایک دلچسپ پہلو ان کا نجومیوں پر غیر معمولی اعتماد ہے ۔ وہ ان سے مشورہ کیے بنا کوئی فیصلہ نہیں کرتے اس لیے انہوں نے ممکنہ امیدواروں کواپنی درخواست کے ساتھ جنم کنڈلی جمع کرانے کا فرمان بھی جاری کررکھا ہے۔اکیسویں صدی میں ایسے تماشے ہندوتو نوازوں کے سوا کون کرسکتا ہے؟ بی جے پی کےداخلی ذرائع سمجھتے ہیں کہ اگر جناردھن ریڈی اپنی پارٹی کےذریعہ کم از کم 20؍ اسمبلی سیٹوں پر کمل کی کامیابی کو متاثر کرسکتے ہیں ۔ ایک ایسے صوبے میں جہاں پچھلی مرتبہ بی جے پی انتخاب کے بعد اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اس کو حکومت سازی کے لیے حزب اختلاف کو توڑنا پڑا ہویہ بیس سیٹوں کا فرق بہت اہمیت کا حامل ہے۔ حالیہ جائزوں کے مطابق کانگریس کی بہ نسبت بی جے پی بیس سیٹیں پیچھے چل رہی ہے اس لیے اسے ہلکے میں لینا مہنگا پڑ سکتا ہے۔

بی جے پی کے ہندوتوا پریوار کا ایک اہم فریق شری رام سینا بھی ہے ۔ وہ اپنے متنازع بیانات کے سبب بی جے پی سے زیادہ خبروں میں رہتی ہے۔ اس بار وہ بھی جناردھن ریڈی کی طرح ناراض چل رہی ہے۔ ضلع اُڈپی کے کارکلا سے شری رام سینا کےسربراہ پرمود متالک نے آئندہ اسمبلی الیکشن میں میدان میں اترنے کا اعلان کرکے بی جے پی رکن اسمبلی سنیل کمار کی مشکلیں بڑھا دی ہیں ۔ اس کے ضلع صدر اجیت شیٹی نے دھمکی دی ہے کہ اگر بی جے پی نے پرمود متالک کے خلاف کارکلا میں اپنا امیدوار اتارا تو پھر چکمگلورو میں رام سینا بھی سی ٹی روی کے خلاف مقابلہ پر اترے گی ۔ یعنی بی جے پی کو کارکلا کے علاوہ چکمگلور میں بھی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ کارکلا کا بی جے پی رکن اسمبلی سنیل کمار کسی زمانے میں پرمود متالک کا شاگرد ہوا کرتا تھا مگر انتخابی سیاست نے گرو اور چیلے کوایک دوسرے کا حریف بنادیا ہے۔ سنیل کمار نے اپنے گرو سے بغاوت کرتے ہوئے جواب دیا کہ ہماری پارٹی کی پالیسی کے متعلق دوسرے ہدایت نہ دیں ۔ان کے مطابق اس طرح مقابلے ہونے چاہئیں اور آخری فیصلہ رائے دہندگان کو ہی لینا ہوتا ہے ۔ سنیل کمار نے جس نمک حرامی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہندوتوا پریوار کی پہچان اور بی جے پی کی بربادی کا نشان ہے۔
(۰۰۰۰۰۰جاری)


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449072 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.