سقوط ڈھاکہ کے بعد اُمید تھی کہ اس حادثہ کبریٰ سے نصیحت
حاصل کی جائے گی اور جس جس نے جو غلطیاں کیں اسے دہرانے سے گریز کیا جائے
گا، لیکن اب تک جو دیکھنے میں آیا ہے تو اس متعلق مزید گفتگو بیکار ہے کہ
مملکت کی یہ حالت کیوں ہو رہی ہے اور اس سے پہلے کون کون سانحات کا ذمہ دار
رہا اور اب بدترین حالات کا کون ذمہ دار ہے۔ کیوں کہ موجودہ بدترین معاملات
سے کوئی سبق حاصل نہیں کررہا تو اب یہ تمام امور بھی آنے والے مورخ پر ہی
چھوڑ دئیے جائیں تو بہتر ہوگا، ہمیں تو اب اپنی توجیہات اس سوال پر مرکوز
کر دینی چاہئیں کہ اس باقی ماندہ پاکستان کے تحفظ بقا، استحکام اور فروغ
کیلئے کیا کرنا چاہیے، اگر اس کا حل انتخابات ہی ہیں تو پھر دنیا کے غریب
ترین ممالک کو سال میں بارہ مرتبہ عام انتخابات کرانا چاہئیں تاکہ وہ معاشی
اور سیاسی بحرانوں سے نکل سکیں۔ ریاست میں دہشت گردی ایک مرتبہ پھر پھن
اٹھائے ہوئے ہے، لیکن اس پر سیاسی جماعتوں کی توجہ ہی نہیں، ا نہیں بس
انتخابات سے کام ہے، جو کیسے بھی اور کسی بھی حالت میں ہوں، پُر امن ہوں یا
خونی، یہاں حالات اس سے بھی زیادہ مخدوش ہیں اور با شعور حلقے کو خطرہ ہے
کہ اگر انہیں فوراً سنبھالا نہ گیا تو اس کے نتائج بھی کچھ تباہ کن ہوں گے۔
بار بار ان خدشات کی جانب توجہ دلائی جارہی ہے کہ تمام سیاسی اختلافات کو
بالائے طاق رکھ کر میثاق معیشت کیلئے یکساں موقف اپنایا جائے، اس کے بغیر
کسی بھی ادارے یا سیاسی جماعت کے پاس کوئی حل نہیں ہے، سابق حکومت نے اپنی
پوری قوت صرف کرکے، اداروں کے ساتھ ہاتھ سے ہاتھ ملا کر دیکھ لیا اور کرپشن
کے الزامات کے تحت نہ کسی پر جرم ثابت ہو سکا اور نہ بیرون ملک رکھے گئے
غیر قانونی اربوں روپے واپس لائے جا سکے، موجودہ حکومت عالمی مالیاتی
اداروں کے آگے گھٹنے ٹیک چکی اور وزیر اعظم اپنی بے بسی کا اظہار کر رہے
ہیں کہ آئی ایم ایف ایک ایک دھیلے کی سبسڈی کا کھاتہ کھول کر بیٹھ گیا ہے،
ڈیفالٹ سے بچنے کے جو گولیاں بہت پہلے کھا لینی چاہیے تھی اب سخت ترین
شرائط ماننے کے باوجود ، ان کڑوی دوائیوں سے بھی شاید عارضی افاقہ ہو سکے
گا، سخت اقدامات کے باوجود حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ اب کوئی نیا یا
پرانا تجربہ بھی کارگر نہیں۔ سب سے پہلے ضرورت ہے کہ عوام سے کچھ چھپانے کے
بجائے کھل کر بتایا جائے کہ یہ سخت فیصلے کیونکر کئے جانے ہیں، دہشت گردی
کے سد باب کیلئے سکیورٹی اداروں کو کیا کرنا ہوگا۔ ہم سری لنکا نہیں کہ
اپنی فوج میں کمی کرنے کے مطالبات مان لیں، مملکت کے تینوں اطراف دیکھے ان
دیکھے دشمن ریاست کے خلاف گھات لگائے بیٹھے ہیں، اس میں تو اس امر کا تصور
بھی نہیں کیا جا سکتا کہ مسلح افواج کے فنڈ یا افرادی قوت میں کمی کی جا
سکے، مسلح افواج کے خلاف ہرزہ سرائی بے لگام ہو چکی اور جس کا جو منہ میں
آئے، بلا خوف و خطر رائے کے اظہار میں آزادی کے نام پر بے سروپا کہے جاتا
ہے۔
ہمارے اخبارات، رسائل، ریڈیو ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا کے جتنے پلیٹ فارم
دیکھیں ان میں جو کچھ جمہوریت کے نام پر پیش کیا جاتا ہے، وہ ملک کے مختلف
حصوں میں ایک دوسرے سے علیحدہ اور منفرد ہونے کا عملی مظاہرہ نہیں تو اور
کیا ہے، آج بھی ایک مخصوص طریق کار اختیار کرکے ایک ایسی جماعت اور اس کے
سربراہ کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جس نے اداروں کے سر پر خاک
ڈالنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں کیا، اداروں کو سیاسی انداز میں استعمال
کرنے کی روایت کسی بھی سیاست دان کی مجبوری نہیں بلکہ خواہش رہی ہے کہ اس
کے ساتھ ہر قانونی یا غیر آئینی طریقے سے تعاون جاری رہے، یہ پہلے بھی
پوشیدہ نہیں تھا اور نہ اب کسی کی حرکتوں کی وجہ سے کوئی اسرار منکشف ہوئے
ہیں، لیکن جس طرح اداروں کے خلا ف تضحیک کا رویہ اختیار کیا ہوا، یہ رویہ
کبھی پاکستان کی تاریخ میں نہیں رہا۔ قیام پاکستان سے لے کر موجودہ دور تک
ریاستی اداروں اور سیاسی جماعتوں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، اب تو یہ
قوم کا مزاج بن بھی بن گیا ہے کہ وہ اداروں کو کھل کر مداخلت کی دعوت دیتے
ہیں اور اگر ادارے تھوڑا سست ہو جائیں تو سوشل میڈیا میں ایسے ٹرینڈ بنائے
جاتے ہیں اور اس میں جتنی دشنام طرازی کی جاتی ہے الحفیظ الامان۔
ہر ادارے کو اپنی حدود میں کام کرنا چاہیے اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر
سکتا، لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ عملی طور پر قریباً ہر سیاسی یا
مذہبی جماعت چاہتی ہے کہ اس کے سر پر قوت کا ہاتھ رہے۔ کیا کبھی کسی جماعت
نے اداروں کی حدود مقرر کرنے کیلئے اتفاق رائے سے قانون سازی کرنے کی کوشش
کی ہے تو اس کا جواب فوراً ہی مل جاتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ سیاسی
جماعت ہو یا اداروں سے وابستہ شخصیات اپنی امیدوں کا محور طاقت ور حلقوں کو
بنا لیتے ہیں، ان سے غیر آئینی کام کرواتے ہیں اور جب وہ ہدف حاصل کرنے
میں ناکام رہ جاتے ہیں تو سادہ لوح عوام کو مشتعل کرنے کیلئے اخلاقیات کی
ہر حدود پار کر جاتے ہیں۔ ایک ساتھ نہ بیٹھنے والے، ملک و قوم کی بقا و
سلامتی کیلئے بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں، کیا خوب کسی نے کہا کہ دہشت
گردوں سے تو ہر کوئی مذاکرات کیلئے تیار رہتے ہیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ
بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔
میثاق معیشت ضروری ہے کیونکہ آنے والے برسوں میں اربوں ڈالر کے قرضے و سود
کی ادائیگیوں کیلئے مزید قرض لینا لوہے کے چنے چپانے کے مترادف ہوگا، اگر
ان مشکل حالات سے نکلنے کیلئے متفقہ پالیسی اپنائی نہیں گئی تو اس کا
بھیانک نتیجہ بھگتنے کیلئے تیار رہنا چاہیے کیونکہ غریب عوام اپنے حصے کی
سزا کاٹ چکے ان میں جتنا دَم تھا وہ اس قدر ہی برداشت کر سکتے ہیں۔ ان کے
غیض و غضب کا شکار تمام اشرافیہ بنے گی، ان کا اگر یہ خیال ہے کہ وہ باہر
ملک سکون سے چلے جائیں تو وہ خواب غفلت میں ہیں، جس نے بھی جو بویا وہ کٹے
گا۔ لہٰذا بہی خواہان پاکستان کا اولین فریضہ ہے کہ ملک میں ہنگامے اور
فسادات برپا نہ کئے جائیں۔ نظم و نسق حکومت کے اسقام و اغلاط کی پُر امن
طریق سے اصلاح کی جائے، یہ اس مملکت کی بقا کی اولین شرط ہے۔
|