کرناٹک کے عوام کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ مسلسل دوسری بار
کسی موقع نہیں دیتے چاہے وہ کانگریس ہو یا بی جے پی۔ کانگریس کو ایسا لگتا
ہے کہ صوبے کے کسان اور عوام اس بار بی جے پی سے انتقام لیں گے ۔ راہل
گاندھی کی یاترا سے ترغیب لے کر ریاستی کانگریس کے صدر ڈی کے شیوکمار اور
حزب اختلاف کے رہنما سدارمیا ریاست کے جنوبی اور شمالی علاقوں میں الگ الگ
بس یاترا کررہے ہیں۔ اپنی اس رابطہ مہم سے شیوکمار اتنے پر جوش ہیں کہ
انہوں نے دعویٰ کردیا ’’50 دنوں کے بعدریاست میں بی جے پی حکومت نہیں رہے
گی اور کانگریس برسراقتدارآجائے گی۔‘‘ خوش فہمیوں کا شکار رہنا سیاستدانوں
کا شعار ہوتا ہے اور اگر وہ نہ ہوں تب بھی اپنے کارکنان کا حوصلہ بلند کرنے
کے لیے انہیں اس طرح کے بیانات دینے پڑتے ہیں۔ ویسے شیوکمار نے یہ بھی کہا
کہ ہم نے سبھی انتخابی حلقوں میں دو یا تین بار سروے کیا ہے۔ لوگوں کا رد
عمل مثبت ہے۔ ہم آرام سے 136نشستیں جیت جائیں گے۔ یہ بہت بڑا دعویٰ ہے
لیکن اگر کانگریس100 تک بھی پہنچ جائے تو جنتا دل ایس کی حمایت سے سرکار
بنا سکتی ہے۔
کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ سدارمیا نے ریاست میں خاندان کی ہر خاتون سربراہ
اور دیگر کو 2000 روپے دینے کا بڑا وعدہ کیا ہے۔ یہ ایک شیخ چلی کا خواب لگ
سکتا ہے لیکن اس کی تردید میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ کرناٹک کے لیے اب تک 13
بجٹ پیش کرچکے ہیں۔ وہ 16 سال سے حکومت کا حصہ ہیں۔ اپنے وعدے کو پورا کرنے
کے لیےان کے پاس فنڈ کے انتظام سے متعلق آئیڈیا ہے۔کرناٹک بی جے پی کے
اندر خاصی اتھل پتھل ہے اور عوام میں بڑے بڑے اعلانات سے پرے امیدواروں کا
تقرر ابھی نہیں ہوا ہے۔ اس کے برعکس کانگریس کے ریاستی صدر شیوکمار نے دعویٰ
کردیا کہ اسمبلی انتخاب کے لیے امیدواروں کی فہرست کو آخری شکل دینے کے
لیے جس نشست کا انعقاد کیا گیا تھا وہ بخیر و خوبی اختتام کو پہنچی۔ اس میں
بغیر کسی اعتراض یا عدم اطمینان کے رہنماوں نے بہتر ماحول میں فیصلے کیے۔
ماضی میں بی جے پی اس کام کو سب سے پہلے نمٹ لیتی تھی لیکن اب آپسی
اختلافات کے سبب ایسا نہیں ہوپارہا ہے۔ کرناٹک میں اسمبلی انتخاب سے قبل بی
جے پی میں وزیر اعلیٰ عہدہ پر کھلی جنگ چھڑ گئی ہے۔ اس بابت سابق وزیر اعلیٰ
بی ایس یدی یورپا نے محاذ کھولتے ہوئے کہا کہ آخری فیصلہ پارٹی اعلیٰ کمان
کرے گا۔ یدی یورپا کایہ بیان وزیر اعلیٰ بومئی کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔
یدی یورپا نے وزیر اعظم نریندر مودی کے پالے میں پارٹی کے وزیر اعلیٰ کی
گیند اچھال کر کہا انہیں اعلیٰ کمان کا فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
ساتھ ہی انھوں نے بی جے پی کے آئندہ اسمبلی انتخاب میں 140 سیٹیں جیتنے
اور حکومت بنا نے کی پیشنگوئی کردی ۔ سابق وزیر اعلیٰ اور جے ڈی ایس لیڈر
ایچ ڈی کمارسوامی کے ذریعہ بی جے پی کو برہمنوں کی پارٹی بتانے والے بیانات
پر تبصرہ کرتے ہوئے یدی یورپا نے کہا کہ پہلے بی جے پی کو لنگایتوں کی
پارٹی کہا جاتا تھا۔ اب اسے برہمنوں کی پارٹی کہا جا رہا ہے۔ 90 فیصد
لنگایت اب بھی بی جے پی کے ساتھ ہیں اور ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اس طرح گویا
ذات پات کی بنیاد پر ایک کھینچا تانی بھی شروع ہوگئی جو بی جے پی کو نقصان
پہنچاتی ہے۔
امیت شاہ نے مہم کا آغاز کرتے ہوئے کانگریس پر بدعنوانی کا الزام بھی
لگایا اور کہا کہ اس نے کرناٹک کو اپنے لیے اے ٹی ایم بنادیا تھا۔ یہ بات
کانگریس کی مہم ’پے سی ایم ‘ کےجواب میں کہی گئی ۔ کرناٹک کانگریس نے وزیر
اعلیٰ بسوراج بومئی پر بدعنوانی کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف ریاست
کی دیواروں پر ’پے ٹی ایم‘ سے ملتے جلتے ’پے سی ایم‘ کے پوسٹر چسپاں کر
دیئےتھے۔ پوسٹر پر لکھا تھا ’ہم یہاں 40 فیصد (کمیشن) قبول کرتے ہیں۔‘ اور
اس پر بومئی کی تصویر بھی تھی ۔ پوسٹر پر بنے کیو آر کوڈ کو اسکین
کرنےپر’40 پرسنٹ سرکار ڈاٹ کام‘ نامی ویب سائٹ کھل جاتی تھی اوروہاں کئی
گھوٹالوں کی تفصیل مل جاتی تھی۔ کانگریس نے الزام لگایا تھا کہ وزیر اعلیٰ
ہر کام مثلاً عوامی ٹھیکہ اور سرکاری ملازمتوں پر تقرری وغیرہ میں بڑے
پیمانے پر دلالی وصول کرتے ہیں جو کم از کم 40 فیصد ہوتا ہے۔اس مہم کو عوام
میں خوب مقبولیت ملی جسے زائل کرنے کی خاطر امیت شاہ نے اے ٹی ایم کاشوشہ
چھوڑا۔
ماضی پر بہتان لگانا آسان ہے لیکن حالیہ الزامات سے انکار مشکل ہے۔ بیلاری
کے جناردھن ریڈی کے بی جے پی کے ساتھ قریبی تعلقات کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔
ایک پولیس کانسٹیبل کے بیٹے جناردھن ریڈی کو16,000 کروڑ کے کانکنی گھوٹالے
میں سزا ہوئی اور اب بھی وہ تڑی پار ہیں ۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور
بی جے پی نے دکھاوے کے لیے تو جناردھن ریڈی سے خود کو دور تو کر لیا تھا
لیکن دونوں بھائی قانون ساز بنے رہے۔ ان دونوں کے رفیقِ کار سری رامولو، بی
جے پی کی ریاستی حکومت میں ٹرانسپورٹ کے وزیر ہیں۔ مرکزی حکومت نے جب 2016
میں نوٹ بندی نافذ کی اور سارا ملک پریشان تھا تو ریڈی نے دھوم دھام کے
ساتھ اپنی بیٹی کی شادی میں خوب دولت لٹائی ۔ اس تقریب میں بی جے پی کے کئی
رہنماوں نے بے حیائی کے ساتھ شرکت کرکے پارٹی کو شرمندہ بھی کیا ۔ اس کے
باوجود خود کو پاک صاف کہہ کر دوسروں پر بدعنوانی کا الزام لگانے والوں پر
ہنسی آتی ہے۔
امسال اپریل میں کرناٹک کے دیہی ترقی اور پنچایت راج کے وزیر ، حجاب کے
دشمنِ عظیم اور بی جے پی کے سینئر لیڈرکے ایس ایشورپا پر بدعنوانی اور فریب
دہی کا الزام لگانے والے ٹھیکیدار سنتوش پاٹل نے اڈپی میں خودکشی کرلی ۔
پولس نے ایشورپا کے خلاف سنتوش پاٹل کے بھائی پرشانت کی متوفی کو ذہنی
طورپر ہراساں کرنے کی شکایت کردرج کرلی۔ یہ بھی ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ
خودکشی کرنے والا سنتوش پاٹل کوئی مسلمان یا کانگریسی نہیں بلکہ ہندو یوا
واہنی کا قومی سیکریٹری تھا اور اس نے اپنی خودکشی کا ذمہ دار وزیر موصوف
کو ٹھہرایاتھا۔ سنتوش نے اپنی موت سے قبل ایشورپا کو براہ راست ذمہ
دارٹھہرا کر اس کی سزا کا مطابہ کیا تھا۔ سنتوش نے اپنی موت سے دوہفتہ قبل
الزام لگایا تھا کہ ایشورپا نے 4؍ کروڑ روپے کے کام میں 40؍ فیصد کمیشن کا
مطالبہ کیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کوخط لکھ کر اس بیچارے نے گہار لگائی تھی کہ ایشورپا
کی زبانی ہدایت پراس نے اپنے گاؤں میں سڑکوں کی تعمیر پر۴؍ کروڑ روپے خرچ
کردیئےلیکن جھوٹا، بدعنوان اور بے ضابطگی کا ملزم وزیر ادائیگی نہیں کررہا
اس لیے اس کا تصفیہ کیا جائے لیکن اڈانی اور امبانی کی سننے والے وزیر اعظم
نے ہندو یوا واہنی کی ایک نہیں سنی۔ بالآخر اسے خودکشی پر مجبور ہونا
پڑا۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہندو واہنی کے سیکریٹری اور بی جے پی کے کارکن کو
انصاف دلانے کے لیے یوتھ کانگریس نے ا میت شاہ کی رہائش کا گھیراؤ کرکے
ایشورپا کی برخواستگی کا مطالبہ کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابتداء میں
انکار کرنے والے وزیر موصوف کو مجبوراً مستعفی ہونا پڑا۔ یہ بھی ان کے ملوث
ہونے کا ثبوت تھا اس کے باوجود بومئی نے انہیں کلین چٹ دےدی۔
خیر یہ تو پچھلے سال کی بات ہے پچھلے ماہ کرناٹک میں ایک تاجر پردیپ نے
بنگلورو کے نزدیک اپنی کار کے اندر اپنے سر میں گولی مارلی اور آٹھ صفحات
پر مشتمل موت کا نوٹ چھوڑا جس میں بی جے پی کے رکن اسمبلی اروند لمباولی
اور پانچ دیگر افراد گوپی، سومیا، جی رمیش ریڈی، جیرام ریڈی اور راگھو بھٹ
کے نام ہیں۔ کے نام ہیں۔ پردیپ کی بیوی نمیتا نے ایف آئی آر درج کر ائی ۔
حزب اختلاف کے رہنماوں نے پسماندگان سے مل کر انصاف دلانے کی یقین دہانی
کی۔ ماضی میں بنک کے ڈر سے کسانوں کی خودکشی کے واقعات منظر عام پر آتے
تھے لیکن اب تاجروں اور ٹھیکیداروں کو خودکشی پر مجبور کرنے کا کارنامہ بی
جے پی نے انجام دیا ہے۔ اس تناظر میں امیت شاہ کا جے ڈی ایس اور کانگریس کو
بدعنوان، مجرمانہ اور مبینہ طور پر فرقہ پرست کہنا اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ
کوئی دیوانہ ہی اس پر یقین کرسکتا ہے ۔
کرناٹک کے اندر فی الحال بی جے پی کی خونخوار بدعنوانی تاجروں اور
ٹھیکداروں کی جان لے رہی ہے ۔ زعفرانیوں کی فرقہ پرستی کے کرتوت بی بی سی
کی فلم سارے عالم کے سامنے پیش کررہی ہے۔ موجودہ سرکار اور اس کے بھگتوں نے
بی بی سی اور پٹھان دونوں کو روکنے کی کوشش کرکے انہیں سپر ہٹ کردیا۔
کرناٹک کے اندر اپنے ان کالے کرتوت کو چھپانے کے لیے بی جے پی نے مسلمانوں
کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ۔ کبھی حجاب تو کبھی حلال کے پر ممانعت کا
مطالبہ ہوتا ہے۔ اس سے بات نہیں بنتی تو تبدیلی مذہب کا قانون اور لوجہاد
پر ہنگامہ کیا جاتا ہے۔اس پر بھی لوگوں نے دھیان نہیں دیتے تو مہاراشٹر کے
ساتھ سرحدی تنازع کھڑا کردیاجاتا ہے۔ یہ سارے حربے ناکام ہوگئے تو ریزرویشن
بڑھا کر مختلف طبقات کی منہ بھرائی کی کوشش کی جاتی ہے۔ کرناٹک کے اندر
مسلم دشمنی مظاہرہ اتر پردیش سے زیادہ ہے لیکن اس کی پے درپے ناکامی کے بعد
اب ہنوتوا کے بجائے ترقی کو مرکزی موضوع بنانے کی سعی کی جا رہی ہےترقی کا
عجب مسئلہ ہے کہ ہوئی ہی نہ ہو وہ دکھائیں کیسے؟ ترقی کوئی ڈر تو ہے نہیں
کہ نظر نہ آتا ہو اس لیے بی جے پی پریشان ہے۔ اس کے باوجود اگر کرناٹک کے
عوام نے اس کو کامیاب کردیا تو ان پر حسن کمال کا یہ شعر صادق آجائے گا؎
مصلحت پرستی پر ہر قدم رہا ہم کو جرم کا گماں لوگو
اپنی وجہ بربادی جانتے ہیں ہم لیکن کیا کریں بیاں لوگو
|