مغل گارڈن کا نام بدلتے وقت اعلان کیا گیا تھا کہ غلامی
کی ساری علامتیں مٹادی جائیں گی مگر گورنر ہاوس یعنی راج بھون کی جانب کوئی
آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا جبکہ یہ انگریزی سامراج کی سب سے بڑی علامت ہے۔
مرکزی حکومت نے ایک جھٹکے میں لداخ کے لیفٹنٹ گورنر سمیت درجن بھر گورنر
بدل دیئے مگر نظام نہیں بدلا۔ یعنی غلام توبدلے گئے مگر رسومِ غلامی قائم و
دائم رہے ۔ شمال مشرقی صوبوں کو چھوڑ دیا جائے تو دیگر ان ریاستوں کے گورنر
بدلے گئے جہاں غیر بی جے پی سرکار ہے۔ اس میں استثناء مہاراشٹر کے
گورنربھگت سنگھ کوشیاری ہیں۔ یہاں بی جے پی کی حلیف حکومت ہے لیکن گزشتہ
ماہ وہ ا پنا استعفیٰ پیش کرکے اس کا اعلان بھی کرچکے تھے۔ ان کی رخصتی پر
کوئی آنسو نہیں ٹپکا۔ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ بھگت سنگھ کوشیاری پارٹی(بی
جے پی) کے رہنما کی طرح کام کرتے تھے۔ ریاست میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد
ان کا رویہ بدل گیا تھا۔ ادھو کے مطابق کوشیاری نے چھترپتی شیواجی، مہاتما
جیوتی با پھولے، ساوتری بائی پھولے سمیت کئی دوسری عظیم شخصیات کی توہین کی
تھی۔ اس لیے مرکزی حکومت کو انہیں بہت پہلے ہٹا دینا چاہیے تھا لیکن تاخیر
سے سہی وہ اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
ادھو ٹھاکرے کے دست راست سنجے راوت کا خیال ہے کہ جس وقت کوشیاری عظیم
شخصیات کی توہین کررہے تھے اسی وقت انہیں ہٹایا جاتا تو مہاراشٹر کے لوگوں
کوضرور اطمینان ہوتا۔مہاراشٹر کانگریس کے صدر نانا پٹولے نے فیصلے کی تاخیر
پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوشیاری جن عظیم شخصیات کی توہین کی ہے
اس کا خمیازہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھگتنا پڑے گا ۔ یہ ایک حقیقت ہے
انتخابی مہم کے دوران حزب اختلاف انہیں اچھالے گا۔ این سی پی صدر شرد پوار
نے بھی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ انہیں لگتا ہے مہاراشٹر کو
بچایا گیا ہے۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے ۔ حکومت کو اسے بہت پہلےکرنا چاہیے
تھا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نئے گورنر (رمیش بیس) اچھا کام کریں گے۔ ان
کی بیٹی اور رکن پارلیمان سپریا سولے نے بھی توقع ظاہر کی کہ وہ آئین کے
دائرے میں رہ کر کام کریں گے کیونکہ سمجھدار اورمہذب انسان ہیں۔
ناناپٹولے سے ہٹ کر سپریہ سولے نے ماضی کی تلخیوں کو بھلانے کا مشورہ دیا
مگر نئے گورنر کا سابقہ رویہ ان کو مایوسی کا شکار کرسکتا ہے۔مہاراشٹر آنے
سے قبل رمیش بیس جھارکھنڈ میں گورنر تھے ۔وہاں انہوں نے وزیر اعلیٰ ہیمنت
سورین کو کافی پریشان کیا تھا۔ ہجومی تشدد کی روک تھام کے لیے دو سال قبل
جو قانون وضع کیا گیا اس کو واپس کردیا ۔ قبائلی مشاورتی کونسل کی تشکیل پر
ضابطوں کی پاسداری سے متعلق سوالات کھڑے کیے۔یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کی
مدد سے ہیمنت سورین پر کارروائی کرنے کی ناکام سعی بھی کی ۔ اس لیے ان پر
دور کے ڈھول سہانے والا محاورہ صادق آتاہے۔ مہاراشٹر میں فی الحال سورین
کی مانندبی جے پی مخالف نہیں بلکہ حلیف سرکار ہے اس لیے وہ کچھ دن آرام
فرمائیں گے لیکن اگر اقتدار تبدیل ہوجائے تو ان کے اصلی چہرا سامنے آجائے
گا۔
جموں کشمیر سے دفع 370 ختم کرکے امیت شاہ بہت اچھل رہے تھے لیکن وادی تو
دور اب جموں اور لداخ سے بھی بے اطمینانی کا اظہار ہونے لگا ہے۔ وزیر مملکت
برائے داخلہ رائے کے تحت قائم ہونے والی زمین،موحولیا ت، ملازمت اور تہذیب
کے تحفظ کی کمیٹی میں شامل ہونے سے کارگل اور لیہہ ڈویژن کے نمائندوں نے
انکار کردیا ہے۔ معروف مقامی رہنما سونم وانگچوک پانچ دنوں تو بھوک ہڑتال
کرکے اپنا احتجاج درج کرا چکے ہیں ۔ لداخ میں جموں کشمیر کے ساتھ شامل ہونے
کا ماحول بن رہا ہے ۔اس نازک صورتحال کو قابو میں کرنے کی خاطر بریگیڈیر
ڈاکٹر بی ڈی مشرا(سبکدوش) کو لایا گیا ہے۔ اس طرح اب شاہ جی کی آزمائش میں
مشرا جی کو مبتلا کردیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ گلاب چندکٹاریہ اور رادھا
کرشنن کو گورنر نامزد کرکے بی جے پی میں داخلی جھگڑوں کو نمٹانے کی کوشش کی
گئی یعنی جہاں دورہنماوں کے بیچ اختلافات کے سبب لڑائی تھی تو ایک کا کانٹا
گورنر بناکر نکال دیا گیا۔ اس لیے قومی سطح پر اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں
ہے سوائے سپریم کورٹ کے سابق جج ایس اے عبدالنذیر کی آندھرا پردیش کے گورنر
کی حیثیت سے تقرری جو ذرائع ابلاغ میں بحث کا موضو ع بنی ہوئی ہے۔
عبدالنذیر، بابری مسجد کے حوالے سے نہایت نامعقول فیصلہ سنانے والی بنچ میں
شامل تھے۔ ان کو گورنرکے عہدے سے نواز کر عدلیہ کو پیغام دیا گیا کہ عیش و
عشرت چاہتے ہو مقننہ کی ہاں میں ہاں ملاو۔ اس تقرری پر اعتراض کرتے ہوئے
حزب اختلاف نے حکومت کو آنجہانی بی جے پی رہنما ارون جیٹلی کی تقریر یاد
دلائی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سبکدوشی کے بعد ججوں کی تقرری کاچلن
عدلیہ کو متاثر کر رہا ہے۔انہوں نے کہا تھا، دو طرح کے جج ہوتے ہیں – وہ جو
قانون جانتے ہیں اور دوسرے وہ جو وزیر قانون کو جانتے ہیں۔ ہم دنیا میں
واحد ملک ہیں جہاں جج ہی ججوں کی تقرری کرتے ہیں۔ یہاں ریٹائرمنٹ کی ایک
عمردی گئی ہے لیکن جج ریٹائرمنٹ کی عمر کے باوجود اس کے خواہش مند نہیں
ہوتے۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے کیے گئے فیصلے بعد میں ملنے والے عہدے کی خواہش سے
متاثر ہوتے ہیں۔ اس وقت کے بی جے پی صدر نتن گڈکری نے کہا تھا کہ ریٹائرمنٹ
اورتقرری کےدرمیان دو سال کا وقفہ ہونا چاہیے ورنہ حکومت براہ راست یا
بالواسطہ طور پر عدالتوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور ایسی صورت میں ایک
آزاد، منصفانہ اور ایماندار عدلیہ کبھی بھی حقیقت نہیں بن سکے گی۔فی الحال
گذکری مرکزی کابینہ میں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
جسٹس نذیر نےتین طلاق کیس میں اختلاف رائے کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ غیر
قانونی نہیں ہےلیکن اس کے بعد ان کا رنگ ڈھنگ بدل گیا۔ انہوں نے آئینی بنچ
پرائیویسی کا حق، نوٹ بندی کا فیصلہ اور ارکان پارلیمان کے اظہار رائے کی
آزادی جیسے معاملات میں حکومت کو خوش کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ
حکومت اپنے خدمتگاروں کو بلا تفریق مذہب و ملت انعام و اکرام سے نوازتی ہے۔
ایودھیا کیس میں فیصلہ سنانے والی پانچ ججوں کی بنچ کے نوازے جانے والےوہ
تیسرے جج ہیں۔ ان سے قبل سابق سی جے آئی گگوئی نومبر 2019 میں ریٹائر ہوئے
اور مارچ 2020 میں راجیہ سبھا کے رکن نامزدکردیئےگئے ۔ بھوشن جولائی2021
میں ریٹائر ہوئے اور اکتوبر2021 میں این سی ایل اے ٹی کی تقرری حاصل کرلی،
جبکہ جسٹس نذیر جنوری 2023 میں ریٹائر ہوئے اور اگلے ہی مہینے فروری 2023
میں گورنر بنادئیے گئے۔ان لوگوں سے قبل 1997 میں جسٹس فاطمہ بی بی کو
ریٹائر منٹ کے پانچ سال بعد ایچ ڈی دیوے گوڑا حکومت نے گورنر بنایا تھا۔
نریندر مودی سرکار نے 2014 میں سابق چیف جسٹس پی سداشوم کو کیرالہ کا گورنر
مقرر کیا کیونکہ انہوں نے تلسی رام پرجاپتی کیس میں بی جے پی کے سابق صدر
امت شاہ کے خلاف درج دوسری ایف آئی آر کو منسوخ کردیا تھا۔
ملک میں جسٹس چیلمیشور جیسے جج بھی ہیں کہ جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ
اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی طرف سے کسی بھی تقرری کو قبول نہیں کریں
گے۔ ان کے ساتھی جج جسٹس کورین جوزف بھی تقرری کے خلاف ہیں ۔ ان کا موقف ہے
کہ عدلیہ اورمقننہ کو ایک دوسرے کے تئیں تعریف وتحسین کا جذبہ رکھنے کے
بجائے ایک دوسرے کی نگرانی کرنی چاہیے اور سبکدوشی کے بعد ہونے والی
تقرریاں عدلیہ کی آزادی میں گراوٹ کی وجہ بن سکتی ہیں۔ 2018 میں کیرالہ
ہائی کورٹ کے جسٹس بی کمال پاشا نے اپنی الوداعی تقریب میں کہا تھا کہ جب
ایک جج ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت سے تقرری کی توقع کرتا ہے، تو وہ عام طور پر
اپنے آخری سال میں حکومت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ یہ ایک عام شکایت ہے کہ
ایسے جج سبکدوش ہونے کے بعد تقرریوں کی امید میں حکومت کو ناراض کرنے کی
ہمت نہیں کرتے۔ جسٹس ایس ایچ کپاڑیہ اور جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کے بھی
ریٹائرمنٹ کے بعد کم از کم تین سال کے ‘کولنگ پیریڈ’ میں کوئی عہدہ قبول
کرنے کے قائل نہیں تھے لیکن ایسے لوگوں کی تعداد اب تیزی سے گھٹنے لگی ہے۔
برطانوی دور میں انگریزی سامراج گورنر کی مدد سے صوبوں کا نظم و نسق چلاتا
تھا آج وہ مرکزی حکومت کا ایک اہم کارندہ بن گیا ہے۔ اس دوران فرق یہ ہوا
کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت بغیر کسی وزیر کے مشورے کے وہ اپنی
صوابدید پر کچھ بھی کر سکتا تھا۔ آزادی کے بعد آئین نے اسے تمام معاملات
میں اپنی وزارت کے مشورے کا پابند بنادیا لیکن یہ یکطرفہ تماشا ہے کہ آج
بھی مختلف صوبوں کے وزیر اعلیٰ اور گورنر میں کھلا تصادم نظر آتا ہے بلکہ
ریاستی حکومتوں کو برخاست کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ کیرالہ، تمل ناڈو،
مغربی بنگال، مہاراشٹر کے گورنر وں اور دہلی کے ایل جی تصادم کی کئی مثالیں
پیش کرچکے ہیں۔ فی الحال ریاستی حکومت کے خلاف سازش کرکے اسے غیر مستحکم
کرنے رویہ پر گاندھی جی کا خیال کہ آزادی کے بعد گورنر کا عہدہ تحلیل کر کے
برطانوی گورنروں کے زیر قبضہ عالی شان محلات کو ہسپتالوں میں تبدیل کر دیا
جائے بہت درست معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے دفاتر کی دیکھ بھال پر خرچ
ہونے والی خطیر رقم برسر اقتدار پارٹی یا افراد کو خوش کرنے والے تھکے ہوئے
سیاست دانوں یا سبکدوش سرکاری افسران کی خدمت پر صرف ہوتی ہے اور اس کا
کوئی فائدہ تو نہیں مگر مالی ، اخلاقی اور سیاسی نقصان بہت ہوتا ہے۔یہ لوگ
چونکہ مرکزی حکومت کے سیاسی مفادات کا تحفظ کرنے والے موثر آلۂ کار ہیں
اس لیے کسی بھی پارٹی کی سرکار آئے ان سفید ہاتھیوں کو پالا پوسا جائےگا۔
|