اور اب انڈہ معیشت


عمران خان نے اپنے اقتدار کے ابتدائی ایام میں لوگوں کو مرغ بانی پر لگا دیا تھا۔لوگوں کو کہا گیا کہ گھروں میں مرغیاں پالو۔ انڈے خود بھی کھاؤ اور دوستوں کو بھی کھلاؤ۔مرغی کا گوشت ایک اچھی غذا ہے اس سے خود بھی لطف اندوز ہو اور دوستوں کو بھی دعوت عام دو۔لوگوں میں عمران خان کا یہ بیانیہ بہت مقبول ہوا۔سرکاری سطح پر بھی اس کی بھر پور تشہیر کی گئی۔پولٹری ڈیپارٹمنٹ نے چھ مرغیوں کا ایک پیکیج عوام میں سستے داموں تقسیم کیا۔یہ پیکیج اس قدر مقبول تھا اور آج بھی ہے کہ میں ایک دن پولٹری انسٹیٹیوٹ راولپنڈی میں بیٹھا تھا تو بڑے معتبر لوگوں کے پیغام وصول ہو رہے تھے کہ انہیں فوری اتنی مرغیاں دی جائیں۔لگتا تھا کہ ان دنوں پوری قوم مرغی معیشت سے محظوظ ہو رہی ہے۔کچھ لوگوں نے وقت کا فاعدہ اٹھایا اوردنیا بھر کی نایاب مرغیاں امپورٹ کیں اور بڑے مہنگے داموں بیچیں۔مرغیوں کی وہ نسلیں جن کے نام تک بھی اس وقت تک لوگوں نے نہیں سنے تھے، اب عام دستیاب تھیں۔

براہما،دنیا کا سائز میں سب سے بڑا مرغ، سوسکس پنک رنگ کی ٹانگوں والی شاندار مرغی، پلائی ماؤتھ پیلی ٹانگوں والی چتکبری خوبصورت مرغی، سلکی ، ریشم جیسے پروں والی مرغی، پولش اور سلطان سر پر تاج والی مرغیاں،بھاری بھرکم کئی رنگوں میں دستیاب کوچن، انڈے دینے والی مشینیں، آسٹرولوپ، آر آئی آر، گولڈن ،مصری اور وائٹ لیگ ہارن،سیاہ گوشت والی ایان سمانی اور پتہ نہیں کون کون سی بریڈ پہلی دفعہ اس ملک میں نظر آئی۔ مرغیاں پالنے کے شوقین کئی طرح کی جو نسلیں لے کر آئے۔ ان میں کچھ انڈوں کے لئے تھیں، کچھ کوشت کے لئے، کچھ دونوں مقاصد کے لئے اور کچھ فقط نمائشی تھیں۔فینسی نسلوں کے انڈے بھی پانچ سو سے ایک ہزار میں فروخت ہوتے رہے۔لوگوں نے بہت کاروبار کیا اور بہت پیسے کمائے۔آن لائن فراڈ بھی بہت ہوئے مگر پھر بھی یہ کاروبار بہت پھلا پھولا۔میرے جیسے ریٹائرڈ آدمی نے بھی ہمت کرکے کچھ مرغیاں پال لیں۔ عمران خان کے ابتدائی دور میں مرغیوں کو ڈالنے کے لئے فیڈکا تھیلا بائیس سو روپے کا تھا۔مجھے رعاعتی قیمت پر دو ہزار میں مل جاتاتھا۔ماہانہ ڈھائی یا تین تھیلے استعمال ہوتے ۔ تقریباًچھ ہزار روپے فیڈ پر خرچ ہو جاتے۔عمران کی حکومت جب گئی اس وقت بھی فیڈ کا تھیلا ستائس اٹھائیس سو میں ا مل جاتا تھا۔فینسی مرغیاں انتہائی مہنگی تھیں۔ سوسکس تیس چالیس ہزار میں ، برہما چالیس پچاس ہزار میں، ایان سمانی چالیس پچاس ہزار میں، مرغیاں تھیں کہ سونے کے بھاؤ بک رہی تھیں۔ایان سمانی کا گوشت اور تمام اؑعضا کالے رنگ کے ہوتے ہیں، بعض ہوٹلوں اس کے گوشت کو مقوی دل بتا کر پوری طرح لوگوں کی کھال اتاری۔ میرے پاس بھی کچھ فینسی مرغیاں تھیں ۔میں نے وہ کبھی بیچنے کا سوچا بھی نہیں تھا مگر یہ سوچ کر کر کہ میں اتنی قیمتی مرغیوں کا مالک ہوں خوش ہو جاتا تھا۔

پتہ نہیں یہ کیسی حکومت آئی ہے کہ اب مرغیوں کی کوئی قیمت ہی نہیں۔ وقت کی مہنگی ترین مرغی اب تول کر چھ سو روپے فی کلو بک رہی ہے۔ فینسی اور انتہائی قیمتی مرغی اب برائلر سے بھی کم ریٹ پر دستیاب ہے۔ فیڈ کا تھیلا اب سات ہزارکے لگ بھگ ہو گیا ہے۔لوگوں میں خریدنے کی ہمت ہی نہیں۔ کون تین تھیلے بیس اکیس ہزار میں خریدے۔ میں نے تنگ آ کر اپنی ساری قیمتی مرغیاں تول کے بھاؤ بیچ دی ہیں۔ موجودہ حکومت نے جس طرح پورے ملک کی معیشت کو ڈبو دیا ہے، عمران خان کی مرغی معیشت بھی اسی طرح ان لوگوں کے ہاتھوں ڈوب چکی ہے۔برائلر مرغی جو کئی سال زندہ صرف ایک سو روپے کلوکے لگ بھگ رہی ہے اب بے قابو ہو چکی۔زندہ مرغی چھ سو روپے کلو کو چھو رہی ہے اور ذبح کی ہوئی مرغی کا گوشت آٹھ سو روپے سے زیادہ قیمت میں فروخت ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ فیڈ کی قیمتوں پر کنٹرول نہ ہونا ہے۔ حکومت اس سلسلے میں کوئی قدم بھی اٹھا نہیں رہی۔

میرے ایک بہت اچھے دوست ڈاکٹر طاہر حجازی جو ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں۔ بچپن ہی سے انتہائی قابل ماہر معیشت ہیں۔بچپن وہ گھر کا بجٹ بنانے میں گھر والوں کی مدد کرتے رہے۔ ہوسٹل میں میس کے معاملات میں ہمارے مرحوم دوست فضل حسین بھٹی جو طلبا کی طرف سے میس کے انچارج تھے ان کے مشورے کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھاتے تھے۔حجازی صاحب کی ساری ڈگریاں اکنامکس میں ہیں۔ بڑا عوامی انداز، چیزوں کو گہرائی تک جانتے اور سمجھتے ہیں۔ ان سے بات ہو رہی تھی کہ ہماری ڈوبتی معیشت کیسے بچائی جا سکتی ہے۔ ہنس کر کہنے لگے کہ سب سے پہلے تو سنجیدگی سے کچھ اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے جو ذمہ دار حلقوں میں نظر کم آتی ہے۔ ہمیں ڈالروں کی ضرورت ہے کہ معیشت کو سہارا ملے۔ بہت سے چھوٹے چھوٹے اقدامات ہمیں ہماری منزل پر لے جا سکتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر برطانیہ شدید معاشی بد حالی کا شکار تھا۔ ایسے میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ عوام کو کہا جائے کہ پانچ سال تک انڈے نہ کھائیں،اس لئے کہ ہم انڈے ایکسپورٹ کریں گے۔ ہمیں ملک کی تعمیر کے لئے فارن ایکسچینج کی بہت ضرورت ہے ۔عوام نے حکومتی فیصلہ خوشی سے قبول کیاچنانچہ یہی کیا گیا۔ برطانیہ ٍنے پانچ سال تک انڈے ایکسپورٹ کئے ، فارن ایکسچینج کمایا اور اپنے ملک کو دوبارہ سے بنایا۔
پاکستان کے پولٹری فارمز میں اس وقت سالانہ ایک بلین ڈالر کے انڈے دستیاب ہوتے ہیں۔ اگر پاکستان ان ایک بلین ڈالر کے انڈوں کو ایکسپورٹ کرنا شروع کر دے تو پانچ سال میں پاکستان پانچ بلین ڈالر کے انڈے ایکسپورٹ کرکے فارن ایکسچینج کما سکتا ہے۔جس سے ہم اپنے سرکلر ڈیبٹ کو بہت کم کر سکتے ہیں۔ گوگل کے مطابق دبئی اور دوسری ریاستوں میں انڈے کی قیمت ہماری مارکیٹ سے 240 فیصد زیادہ ہے۔جس کا مطلب ہے کہ ہمیں اس سودے میں بڑا معقول نفع بھی مل سکتا ہے۔ ہم انڈے ایکسپورٹ کرکے نہ صرف اپنی معاشی حالت بہتر کر سکتے ہیں بلکہ مستقبل میں ایک اچھی ایکسپورٹ مارکیٹ بھی حاصل کر لیں گے۔حجازی صاحب کے بقول انہوں نے جب پولٹری مالکان سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نہ صرف اس پر خوشی کا اظہار کیا بلکہ یقین دلایا کہ اگر کاروبار کے لئے انڈے ایکسپورٹ کئے گئے تو ہم ضرورت کے مطابق اگلے سال دوگنے انڈے پروڈیوس کر سکتے ہیں کیونکہ یہ سب کاروبار سپلائی اور ڈیمانڈ پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کو سٹینڈکرنا ہے بہتر حالت میں لانا ہے قرضے اتارنے ہیں، تو ہمیں قربانی دینا پڑے گی اور انڈوں کی قربانی تو کوئی بڑی قربانی نہیں ہے۔ یہ تو ایک چھوٹا سا پراجیکٹ ہے مگر لیکن اس کے اثرات بہت دورس ہوں گے اور پاکستان کی معاشی حالت پہتر بنانے میں بہت مدد گار ہوں گے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے کئی کام ہیں جو کر لئے جائیں تو ہمارا پورا معاشی ڈھانچہ بہترین شکل اختیار کر سکتا ہے۔حکومت وقت اور سیاستدانوں کو چائیے کہ وہ ایسے اقدامات کا سوچیں تاکہ پاکستان کو معاشی بدحالی سے نجات دلائی جائے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500812 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More