ہندوستان کے الیکشن کمیشن نے جمعہ کوشیوسینا کے بانی بال
ٹھاکرے کی شیوسینا کے بجائے گزشتہ جون میں بغاوت کرنے والے اور بی جے پی کی
مدد سے وزیراعلی ایکناتھ شندے کے گروپ کو پارٹی کانام اور کمان اور تیر کا
انتخابی نشان دینے کا اعلان کیا،جسے شندے گروپ اور ان کی حامی اور گاڈفادر
بی جے پی ایک تاریخی حکم قرار دے رہی ہے۔کیونکہ کمیشن کے حکم کے بعد
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی زیر قیادت شیو سینا کے دھڑے کو اب
سے شیو سینا کے نام سے جانا جائے گا۔ لیکن شیوسینا نے کہاہے کہ الیکشن
کمیشن کافیصلہ " ایک پہلی سی لکھی گئی اسکرپٹ ہے،کیونکہ پارٹی کا غدار کہتا
رہا کہ کمیشن کا فیصلہ اس کے حق میں آئے گااور ایسا ہوا ہے کیا ،یہ ایک
معجزہ ہوگیا ہے۔" اس کا اظہار پارٹی ترجمان سنجے راوت نے کیا ہے۔کہ اس کے
آثار نظر آرہے تھے ،دراصل شندے اور اُن کے نائب دیویندر فڈنویس بھی اس بات
کا دعویٰ کرتے رہے ہیں ۔
ادھوٹھاکرے کی قیادت والی شیوسینا (یو بی ٹی) کے ساتھ مہاراشٹر وکاس اگاڑی(
ایم وی اے) کے سبھی لیڈروں اور ترجمان نے کمیشن کے فیصلے کی سخت الفاظ میں
مذمت کی ہے۔ ادھوٹھاکرے کے لیے یہ ایک بحرانی دور ہے ،لیکن شیوسینکوں کی
حوصلہ افزائی اور انہیں مایوسی سے نکالنا انتہائی ضروری ہے،اس لیے انہوں نے
واضح کردیا کہ "جس طرح رامائن میں بھگوان رام جیتے تھے، ہم بھی جیتیں گے
اور الیکشن۔کمیشن کے فیصلہ کوسپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے اور پھر عوام کی
عدالت میں بھی جائیں گے۔"
ابتداء میں اس کا بات ذکر کیا گیاہے کہ شندے اور فڈنویس مسلسل کمیشن میں
اپنی۔جیت کا دعویٰ کرتے رہے ،شک وشبہات کاپیدا ہونا اور کمیشن پر سوال اس
لیے اٹھاتے ہیں کہ بقول ادھوٹھاکرے گزشتہ چند ہفتوں میں بی جے پی کے مرکزی
وزراء جیسے نارائن رانے اور ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس سمیت
بہت سے بی جے پی رہنماء دعویٰ کرتے رہے تھے کہ شندے کوشیوسینا کا نام اور
تیر کمان کانشان ملے گا،اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ "یہ۔لیڈران پہلے سے ایسی
پیشین گوئیاں کیسے کر سکتے ہیں؟ "انہیں پتہ ہے اور محسوس ہوچکا ہے کہ
مہاراشٹر میں اب وزیر اعظم نریندر مودی کا نام بھی نہیں چلتا، اس لیے وہ
انتخابات لڑنے کے لیے بالاصاحب ٹھاکرے کی تصویروں کے چہرے کے ماسک پہنیں گے۔
ویسے شیوسینا کاس فیصلہ پر ردعمل شدید ترین ہے کہ "کمیشن حکومت کا غلام ہے…
اس نے جو کیا ہے وہ خوفناک ہے اور پوری دنیا اس کا مشاہدہ کر رہی ہے۔ اب
سپریم کورٹ ہی واحد امید ہے کہ آیا ہندوستان میں جمہوریت زندہ رہے گی یا
نہیں،‘‘ مذکورہ فیصلہ ہی بلکہ کچھ عرصے سے عدلیہ کے کئی فیصلوں پر انگلیاں
اٹھی ہیں،ہاں الیکشن کمیشن بھی اس سے بچ نہیں سکا ہے ،گجرات الیکشن کے
اعلان میں تاخیر کیے جانے پر بھی الیکشن کمیشن کی مذمت کی گئی تھی کہ پولنگ
کی تاریخوں کا اعلان دوسری ریاستوں کے ساتھ نہیں کیا گیا تھااور اس کے لیے
کئی قسم کے جواز پیش کیے گئے تھے۔
مرکز کی مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت پر پہلے ہی خفیہ ایجنسیوں کے
استعمال کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے،شیوسینا سمیت مہاراشٹر کی اپوزیشن
نے بھی حکومت پر مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کو تعینات کرنے اور عوامی دفاتر
کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے اور یہی وجہ سے جون 2022 میں سابقہ
ایم۔وی اے حکومت کا خاتمہ ہوا۔حال میں 2002 میں گجرات فسادات پر برٹش براڈ
کاسٹنگ( بی بی سی) کی ڈاکومنٹری پرمبینہ انتقامی کارروائی کرتے ہوئے گزشتہ
ہفتے تین دونوں تک محکمہ انکم ٹیکس افسران نے ممبئی اور دہلی کے دفاتر کا
سروے کیا اور مالی لین دین میں گڑبڑ کا الزام عائد کیا گیا ہے ۔
خیر شیوسینا کے حق میں رہے مہاراشٹر کے عوام نے غداروں کوکبھی معاف نہیں
کیا ہے۔ اورمستقبل میں نہ ہی ان غداروں کو بخشیں گے ،شیوسینا۔لیڈر شپ کو
یقین ہے کہ ان کا غداروں کو انتخابات میں دھول چٹائیں گے، اور "بالآخر،
ادھو ٹھاکرے ہی حقیقی فاتح ہوں گے"۔شیوسینا کے بانی کے معاون مادھو دیش
پانڈے نے70 کے عشرے میں بغاوت کی تھی ،لیکن 1991 میں پہلی بڑی بغاوت کا
سہرا این سی پی لیڈر چھگن بھجبل کے سر بندھا جاتا ہے۔جبکہ مرکزی وزیر اور
سابق وزیر اعلیٰ نارائن رانے کی بغاوت ہوئی تھی ،لیکن اس کا کوئی زیادہ اثر
نہیں ہواتھا،بال ٹھاکرے کی زندگی میں ان کے بھتیجے راج ٹھاکرے بھی پارٹی سے
الگ ہوئے اور نئی پارٹی مہاراشٹر نو نرمان سینا تشکیل دی ،ابتدائی اسمبلی
انتخابات میں کامیابی کے بعد اس کی رفتار سست پڑ گئی ،لیکن بی جے پی راج کو
اکساتے رہتی ہے تاکہ ادھو ٹھاکرے کے خلاف استعمال کیا جائے۔
فی الحال بات کرتے ہیں الیکشن۔کمیشن کے فیصلہ کی ،ایک عام خیال ہے کہ اگر
اس طرح کے فیصلے دیئے گئے تو یہ مستقبل میں ہندوستان میں انتخابی عمل کے
لیے خطرناک ثابت ہوں گے، اور آج جو شیو سینا کے ساتھ ہوا ہے وہ بی جے پی
سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ مستقبل میں ہو سکتا ہے۔حال کے کئی فیصلوں
کی وجہ سے جمہوریت پر سیاہ بادل چھانے لگے ہیں،اس فیصلہ سے کافی برہم
ادھوٹھاکرے نے بڑاچپتا ہواسوال کرلیا ہے،بلکہ کہاکہ ہندوستان میں کوئی
جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں باقی بچی نہیں رہی ہے، ٹھاکرے نے کہا کہ
وزیراعظم مودی کو یہ اعلان کردیناچاہئے کہ ملک میں آمریت شروع ہوگئی
ہے،شیوسینا ادھوٹھاکرے کے لیے ایک۔موقعہ اور ہے کیونکہ مقدمہ سپریم کورٹ
میں زیر سماعت ہے ،اس کے بعد بھی ادھو انتخابی پینل کے ذریعے ایکناتھ شندے
کے دھڑے کو حقیقی شیو سینا کے طور پر تسلیم کرنے کے فیصلے کو چیلنج کرسکتے
ہیں۔ انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ جمہوریت کے
لیے بہت خطرناک ہے۔ واضح رہے کہ بی جے پی کی حمایت سے، سابق شیو سینا کے 40
ایم ایل ایز نے مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے خلاف بغاوت کی
اور حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی۔ جہاں اس کی وجہ سے ریاست میں اقتدار
کی تبدیلی ہوئی، شیو سینا نے ایک نئے بحران کا مشاہدہ کیا جس کی قیادت شندے
کی قیادت میں تھی اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ حقیقی شیوسینا ہے۔ بحران شیوسینا
کے نام اور انتخابی نشان کو لے کر تھا۔ویسے یہ بھی الزام۔لگایا جاتا رہا ہے
کہ گورنر بھگت سنگھ کوشیاری اور مرکزی تعاون سے حکومت برقرار ہے جبکہ
الیکشن کمیشن کے فیصلہ نے باغیوں میں خوشی کی لہر پیدا کردی ہے ان کے حوصلے
بلند۔ہوچکے ہیں۔
الیکشن۔کمیشن نے اپنے 78 صفحات کے حکم سے قبل کئی پہلوؤں پر غور کیا کہ وہ
کس طرح اکثریت کی بنیاد پر فیصلے پر پہنچے۔
1. الیکشن کمیشن نے اکثریت کے سوال کا فیصلہ کرنے کے لیے 2018 کے پارٹی
آئین کو دیکھا۔لیکن کوئی تسلی بخش نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ پارٹی کا 2018 کا
آئین الیکشن کمیشن کے ریکارڈ پر نہیں ہے،یہی۔ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا کی
غلطی تھی۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن نے ایم پیز، ایم ایل ایز اور ایم ایل سیز
کی تعداد کا اندازہ لگایا جو ہر دھڑے کے پاس ہے، عرضی گزار (ایکناتھ شندے)
نے 40/55 ایم ایل ایز اور 13/19 ایم پیز کی حمایت کا دعویٰ کیاہے۔ جواب
دہندہ (ادھو ٹھاکرے) کو 15/55 ایم ایل ایز، لوک سبھا میں 7/19 ایم پی اور
راجیہ سبھا میں 3/3 ایم پی کی حمایت حاصل ہے۔جبکہ عرضی گزار (شندے) کی
حمایت کرنے والے 40 ایم ایل ایز نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں 47,82440
ووٹوں میں سے 36,57327 ووٹ حاصل کیے تھے۔ یہ ادھو کیمپ کے 15 ایم ایل ایز
کے 11,25113 ووٹوں کے برعکس ہے۔ اس نے کہاکہ "قانون ساز ونگ میں درخواست
گزار کی بھاری عددی برتری واضح طور پر قابل تصدیق ہے۔" 90,49,789 کے مقابلے
میں، 2019 میں مہاراشٹر کی قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات میں شیو سینا
کو حاصل کیے گئے کل ووٹ (بشمول ہارے ہوئے امیدواروں)، شندے دھڑے کی حمایت
کرنے والے 40 ایم ایل ایز کے پولنگ ووٹ 40 فیصد بنتے ہیں جبکہ ووٹ EC نے
کہا کہ ادھو ٹھاکرے کے دھڑے کی حمایت کرنے والے 15 ایم ایل ایز کی رائے
شماری کل ووٹوں کا 12 فیصد بنتی ہے۔شندے گروہ کی حمایت کرنے والے 13 اراکین
پارلیمنٹ نے کل 1,02,45143 ووٹوں میں سے 74,88,634 ووٹ حاصل کیے یعنی 2019
کے لوک سبھا کے عام انتخابات میں 18 اراکین کے حق میں ووٹوں کا 73 فیصدرہا۔
ادھو ٹھاکرے کے دھڑے کی حمایت کرنے والے 5 ارکان پارلیمنٹ کے حاصل کردہ
27,56,509 ووٹوں کے برعکس (حالانکہ دعویٰ کیا گیا 6 اور حلف نامہ صرف 4 نے
داخل کیا) یعنی 18 ارکان پارلیمنٹ کے حق میں 27 فیصد ووٹ پڑے۔شیو سینا میں
جمہوری اندرونی ڈھانچے کی عدم موجودگی کا مشاہدہ کرتے ہوئے، الیکشن کمیشن
نے کہا کہ جب تک کمیشن میں اس طرح کا تنازعہ آتا ہے، پارٹی غیر جمہوری
طریقے سے لوگوں کو عہدیداروں کے طور پر مقرر کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس طرح
کے پارٹی ڈھانچے الیکشن۔کمیشن کے "اعتماد کو متاثر کرنے میں ناکام" ہیں اور
اس طرح الیکشن کمیشن دھڑوں کی عددی طاقت کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہے۔
"یہ بظاہر غیر منصفانہ صورتحال اکثر خود پارٹی کی تخلیق ہوتی ہے جو ایک
مضبوط آئین بنانے میں ناکام رہی..."
اب مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ ایکناتھ شندے نے شیو
سینا کا تیر کمان کا نشان چرا لیا ہے اور لوگ اس کا بدلہ لیں گے۔غدار غدار
ہی رہتا ہے: ادھو ٹھاکرے جیسا کہ شندے کو تیر ملا
الیکشن کمیشن کے حکم کو کمان اور تیر کا نشان -- ان کے والد کی شیو سینا کی
میراث -- ایکناتھ شندے کے دھڑے کو دینے کو 'جمہوریت کا قتل' قرار دیتے
ہوئے، مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ سے
رجوع کریں گے۔ لیکن جیسا کہ۔پہلے ذکرکیا گیا کہ عدلیہ کے حال کے چند فیصلوں
سے شکوک وشبہات کو جنم۔دیا ہے،اس لیے ادھو نے مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ
ہندوستان میں جمہوریت باقی نہیں رہی اور مودی کو یہ اعلان کرنا چاہئے کہ
ملک میں آمریت شروع ہوگئی ہے۔ یہ فیصلہ جمہوریت کے لیے خطرناک ہے اوربقول
سنجے راوت مذکورہ فیصلہ پہلی سے لکھی "اسکرپٹ" کا نتیجہ ہے۔ |