یہ کار خیر عوامی نمائیندگان سے شروع کیا جائے۔ اشرافیہ
کے پاس بڑی بڑی گاڑیا کروڑوں روپے کا پٹرول پھونک دیتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے
کہ ان کے اپنے پٹرول پمپ ہیں۔ عوامی ٹیکسوں پر پلنے والے یہ لوگ زرا بھی
خدا کا خوف نہیں کرتے۔ ان کے پاس ایک نہیں بلکہ کئی سرکاری گاڑیاں ہیں۔ ان
کے بچے اور ان کے دوست یار ان پر ہی ڈرائیونگ سیکھتے ہیں۔ یہ ان کو سکولوں
کی وین کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ساری شاپنگ ان پر کی جاتی ہے۔ ان کی
سروس پر ، مرمت وغیرہ کی مد میں بھی سرکاری خزانے کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ
ان کی اضافی کمائی کا زریعہ بن چکا ہے۔ سرکاری گاڑیا رینٹ اے کار کے لئے
بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ جب یہ لوگ ریٹائر ہو جائیں تو 50لاکھ کی کار ایک
لاکھ کی ’’بک ویلیو ‘‘پر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ان کے بڑے کشادہ دفاتر
ہیں۔سرکاری کوٹھیاں ہیں۔سرکاری ملازم ان کے جیسے زاتی نوکر ہوتے ہیں۔
تنخواہ سرکار سے لیتے ہیں لیکن کام افسروں کے گھروں میں کرتے ہیں۔ ان کے
پلازے بنیں یا کوئی تعمیرات ہو تو یہی ملازم وہاں بھی کام کرتے ہیں۔ ان کی
کروڑوں روپے کی مراعات ہیں۔پاکستان کی سینٹ میں بھی یہ معاملہ اجاگر ہوتا
رہتا ہے۔ مگر یہی لوگ قانون سازی کرتے ہیں یا اس میں ان کا ہاتھ ہوتا ہے یا
ان کے دوست یار ہوتے ہیں ۔ ان کو کون ہاتھ لگا سکتا ہے۔ ان کی مراعات کون
کم کرنے کی جرائت کر سکتا ہے۔ سارا بوجھ غریب اٹھاتا ہے۔
سینیٹ میں ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے گزشتہ روز
ججوں، جرنیلوں اور قانون سازوں کے لئے مراعات ختم کرنے کا مطالبہ کیا جماعت
اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے نکتہ اعتراض گفتگو کے دوران ایک دستاویز
ہوا میں لہرا ئی کہ ایک ریٹائرڈ جج کو ماہانہ پنشن کی مد میں تقریباً 10
لاکھ روپے ملتے ہیں، اس کے علاوہ مفت بجلی کے 2 ہزار یونٹ، 3 سو لیٹر مفت
پیٹرول اور 3 ہزار روپے کی مفت فون کالز ملتی ہیں۔ یہ لگژری طرز زندگی
ہے۔جو سرکار کے خزانے پر بسر کی جا رہی ہے۔کیا اس کی ملک میں کوئی گنجائش
ہے۔’پروٹوکول کلچر‘ کو ختم کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے سینیٹر نے
کہا کہ 60 بلٹ پروف لگژری گاڑیاں صرف کابینہ کے ارکان کے استعمال میں ہیں۔
’دیگر بڑے افراد‘ کے پاس ایسی گاڑیاں ہیں جو ایک ٹرک جتنا تیل استعمال کرتی
ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں مفت پیٹرول سے بھری ہوئی ہیں۔ کسی کے لیے
بجلی، گیس یا پیٹرول مفت نہیں ہونا چاہیے۔سینیٹر نے بجٹ کو غریبوں کے لیے
ڈیتھ وارنٹ قرار دیتے ہوئے زور دے کر کہا کہ آپ غریبوں پر بوجھ ڈالتے ہیں،
اب کچھ بوجھ اشرافیہ پر ڈال دیں۔موجودہ 87 رکنی وفاقی کابینہ کو دنیا کی سب
سے بڑی کابینہ ہے۔ اس کے حجم میں خاطر خواہ کمی کی جائے۔ منی بجٹ کے نام پر
سفارشات بلا شبہ عوام کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔جن کا مقصد ٹیکسوں اور
مہنگائی میں اضافے کے بعد عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنا ہے۔ایف بی آرنے
حکومت سے 155 لگژری کاروں کی درآمد کی اجازت دینے کی درخواست کی۔ وزیر اعظم
شہباز شریف تمام سرکاری اداروں میں کفایت شعاری کے بڑے اقدامات کا اعلان
کرنا چاہتے ہیں مگر یہ ابھی تک نہیں ہوئے۔ اس کا مقصد حکومتی اخراجات کو کم
سے کم کرکے مالیاتی خسارے پر قابو پانا ہے۔ وزیر اعظم نے کفایت شعاری کے
اقدامات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا ہے۔ کابینہ کے تمام
اراکین نے رضاکارانہ طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ قومی خزانے سے اپنی
تنخواہیں نہیں لیں گے۔ملک میں ہر روز مہنگائی بڑھ رہی ہے اور اشرافیہ کو اس
کی کوئی فکر نہیں۔ملک میں اشیا کے قیمتوں کا جائزہ لینے والے حساس پرائس
انڈیکس (ایس پی آئی) کے مطابق مختصر مدتی مہنگائی سال بہ سال کی بنیاد پر
16 فروری کو ختم ہونے والے ہفتے میں غذائی اجناس اور ایندھن کی قیمتوں میں
اضافے کے باعث 38.42 فیصد پر پہنچ گئی۔وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق غذائی
اشیا اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے سے ہفتہ وار مہنگائی میں اضافہ ہوا
ہے۔گزشتہ ہفتے سال بہ سال کی بنیاد پر ہفتہ وار مہنگائی 34.83 فیصد رہی
تھی۔ایس پی آئی کے تحت ہفتہ بہ ہفتہ کی بنیاد پر گزشتہ ہفتوں میں 0.17 فیصد
اضافے کے مقابلے میں 2.89 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 27 اکتوبر کے بعد یہ ہفتہ وار
ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ایس پی آئی ملک بھر کے 17 شہروں میں 50
مارکیٹوں کے سروے کی بنیاد پر 51 بنیادی اشیا کی قیمتوں کا جائزہ لیتا ہے،
زیر جائزہ ہفتے کے دوران 34 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، 5 کی قیمتوں میں
کمی اور 12 اشیا کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔پاکستان اس وقت
بدترین مہنگائی کی لپیٹ میں ہے اور جنوری میں کنزیومر پرائس انڈیکس کی
پیمائش میں سالانہ مہنگائی 27.55 فیصد تک پہنچ گئی تھی جو مئی 1975 کے بعد
سب سے زیادہ تھی۔ملک کے مختلف علاقوں میں گزشتہ برس آنے والے سیلاب کے باعث
بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جہاں زرعی اراضی تباہ ہوئی، جس کے نتیجے میں
غذائی اجناس کی کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔بینکوں کو لیٹرز آف کریڈٹ (ایل
سیز) کھولنے میں دشواری کا سامنا تھا کیونکہ غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم
ترین سطح پر پہنچ گئے تھے اور اس کی وجہ سے بھی آٹا اور دالوں سمیت اہم
اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔وفاقی حکومت غیرملکی زرمبادلہ میں کمی ختم
کرنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے کڑی
شرائط پر آمادہ ہوچکی ہے، جس کے باعث خدشہ ہے کہ مہنگائی میں مزید اضافہ
ہوسکتا ہے۔ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر کم آمدنی والے شہری ہورہے ہیں
جہاں انہیں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ غذائی
اجناس کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں جو غریب طبقے کی پہنچ سے نکل چکی ہیں۔ ایسے
میں اشرافیہ کو خود آگے آ کر سرکار سے مراعات لینے کا سلسلہ بند کرنا
چاہیئے۔
|