بخل کرنے والوں کیلئے مذمت

بخل کے معنی کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑ لینے، اس کا حریص بننے اور دوسروں سے روک رکھنے کے ہیں بخل نہایت بری عادت ہے۔ یہ کم عقلی کی علامت ہے۔ بخیل انسان اﷲ کے ہاں ناپسندیدہ شخص ہے۔ یہ ایک ایسی بد خصلت ہے جو انسان کی زندگی کے کسی ایک پہلو ہی پر اثر نہیں ڈالتی بلکہ اس کی سوچ اور عمل دونوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔ بخل انسان کو اس طرح جکڑ لیتا ہے کہ وہ تمام عمر اس کے اثر سے نہیں نکل پاتاقرآنِ بخل معنی کے لحاظ سے کرم کا عکس ہے۔ کرم کے معنی میں عطیہ، سخاوت اور خرچ کرنا شامل ہے جبکہ بخل میں نہ صرف رکنا بلکہ خرچ کرنے کی جگہ پر روک لینا مراد ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے اوراس نے مال جمع کیا پھر اسے تقسیم سے روکے رکھا (سورۃ المعارج۔ 29)بخل کر نے والے کیلئے قر آن وحدیث میں مذمت آئی ہے اور سخت وعیدیں ہیں،جس کو متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے،بخل کے معنی کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً،عادتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے، یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرناضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے،بخل درحقیقت مال کی محبت ہے اور مال کی محبت قلب کو دنیا کی طرف متوجہ کردیتی ہے جس سے اﷲ کی محبت ضعیف و کمزور ہو جاتی ہے اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں ترجمہ اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اﷲ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کیلئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اﷲ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اﷲ تمہارے کاموں سے خبردار ہے(سورۂ آل عمران180)بخیل کواﷲ کی مخلوق اور اﷲ کی راہ میں کیے جانے والے کاموں سے بالکل رغبت نہیں ہوتی۔ اُس کی محبت کا محور تو صرف اُس کی اپنی دولت ہوتی ہے وہ اسی کو زندگی کو مقصود نظر جانتا اور مانتا ہے، اﷲ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ ’’اﷲ کسی اترانے والے شیخی باز سے محبت نہیں کرتا، جو آپ بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کی ترغیب دیتے ہیں۔ سنو! جو بھی منہ پھیرے، اﷲ بے نیاز اور سزاوارِ حمد و ثناء ہے‘‘ (الحدید:24)بخل کے بارے میں ایک اور مقام پر نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ ’’اپنے آپ کو بخل سے بچاؤ کہ اس نے پہلی اُمتوں کو ہلاک کردیا ہے۔ پس مسلمانوں کے شایان شان نہیں کہ وہ بخل کریں اور جہنم میں جائیں،بخل کے معنیٰ میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب کا ادا نہ کرنا بخل ہے اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں ترمذی کی حدیث میں ہے بخل اور بدخلقی یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔ اکثر مفسرین نے فرمایا کہ یہاں بخل سے زکوٰۃ کا نہ دینا مراد ہے، بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جس کو اﷲ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اُس کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں، حضرت سیدنا عبداﷲ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے، نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔بخل کے پانچ اسبا ب ہیں اور ان کا علاج بھی اس طرح ہے،بخل کاپہلا سبب تنگ دستی کاخوف ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھے کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی بلکہ اِضافہ ہوتا ہے،بخل کا دوسرا سبب مال سے محبت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کا م نہ آئے گابلکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی سے تصرف میں لائیں گے،بخل کا تیسرا سبب نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ خواہشات نفسانی کے نقصانات اور اُس کے اُخروی انجام کا باربار مطالعہ کرے۔ اس سلسلے میں امیر اہل سنت کارسالہ’’گناہوں کا علاج‘‘پڑھنا حد درجہ مفیدہے،بخل کا چوتھا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی خواہش ہے اسکا علاج یہ ہے کہ اﷲ جل شانہُ پر بھروسہ رکھنے میں اپنے اعتقاد ویقین کو مزید پختہ کرے کہ جس رب نے میرا مستقبل بہتر بنایا ہے وہی رب میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر بنانے پر قادر ہے۔بخل کا پانچواں سبب آخرت کے معاملے میں غفلت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور کرے کہ مرنے کے بعد جو مال ودولت میں نے راہِ خدا میں خرچ کی وہ مجھے نفع دے سکتی ہے،لہٰذا اس فانی مال سے نفع اٹھانے کے لیے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقل مندی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا ’’بندوں پر کوئی صبح نہیں آتی مگر اس میں دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اﷲ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے اے اﷲ! بخل کرنے والے کو تباہی عطا کر (صحیح بخاری1356)ایک اور مقام پر حضرت جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺنے فرمایاظلم کرنے سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکی ہے اور بخل سے بچو کیونکہ بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور بخل ہی کی وجہ سے اپنوں نے لوگوں کے خون بہائے اور حرام کو حلال کیا۔ (صحیح مسلم 2079)حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ حضور ﷺ کا ارشادمبارک نقل کرتے ہیں بدترین عادتیں جو کسی انسان میں ہوں وہ دوہیں، ایک وہ بخل جو بے صبر کردینے والا ہے، دوسرے وہ بزدلی ہے جو جان نکال دینے والی ہو۔ (ابوداؤد)حضرت عبداﷲ ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشادفرمایا: وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھالے اورپاس ہی اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔ (شعب الایمان، مشکوٰۃ)حضر ت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ کا ارشادہے کہ سخاوت جنت میں ایک درخت ہے، پس وہ شخص سخی ہوگا، وہ اس کی ایک ٹہنی پکڑلے گا، جس کے ذریعے سے وہ جنت میں داخل ہوجائے گا، اوربخل جہنم کاایک درخت ہے جو شخص بخیل ہوگا وہ اس کی ایک شاخ پکڑلے گا، یہاں تک کہ وہ ٹہنی اسے جہنم میں داخل کر کے ہی رہے گا۔ایک اور روایت میں ہے کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام’’سخا‘‘ ہے سخاوت اسی سے پیدا ہوتی ہے اور دوزخ میں ایک درخت ہے جس کا نام ’’شح‘‘ہے، شح (بخل)اسی سے پیدا ہوا ہے، اس لیے شحیح (بخیل ) جنت میں نہیں جائے گا۔(شعب الایمان،مشکوٰۃ)اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنے راستے میں خرچ کر نے کی توفیق نصیب فرمائے اور بخل کر نے سے بچائے ،آمین
 

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 187719 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.