مجھے اتنا معلوم ہے عمر کے والدسکول میں ٹیچر تھے والدہ
میٹرک تک تعلیم یافتہ تھی مگر ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ ان کے گھر میں دو
الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔ عمر کی والدہ نے وہ تمام کتابیں پڑہی
ہوئی تھیں۔ عمر کالج کی لائبریری سے انھیں باقاعدگی نے کتابیں لا کر دیا
کرتا تھا۔ اس خاتون سے میں نے بھی سلیقہ، قرینہ اور ادب سیکھا تھا۔ عمر کے
والد ایک ایسی کتاب کے مصنف تھے جو ہمارے کالج کی لائبریری میں بھی موجود
تھی۔
دسمبر ۶۷۹۱ میں ہم دونوں ہی سکالرشپ پر بیرون ملک گئے ماسٹر کرنے کے بعد
عمر پاکستان فارن سروسز میں چلا گیا۔ عملی زندگی میں بھی ہم دونوں قریب رہے
جب اس کی شادی ہوئی تو میں نے محسوس کیا وہ مذہب کی شفاف جھیل میں غوطہ زن
ہو چکا ہے۔ ماتھے پر عبادت گذاری عیاں تھی تو چہرے پر سنت رسول نے اس کی
شخصیت کو با رعب بنا دیا تھا۔ عمر کا علمی وژن وسیع تھا میرا خیال ہے ملکوں
ملکوں کی سیاحت نے اس کے علم میں اضافہ کرکے ذہن کو کھول دیا تھا۔ یورپ میں
اس کی تعیناتی کے دوران مسلمان اسے مذہبی محفلوں میں بلاتے اور اس کے علم و
اقوال کو سن کر اپنے مذہبی عقائد کو مضبوط کرتے۔
عمر کی زوجہ فرح، جب شادی ہوئی ایک سکول میں اے لیول کی ٹیچر تھی۔ پہلے بچے
کی پیدائش کے بعد اس نے ملازمت ترک کر دی تھی۔ مذہبی رجحان کی اس خاتون نے
اپنے دونو ں بیٹوں کو حفظ کرایا تھا۔ اس وقت ایک بیٹا پی ایچ ڈی کرنے کے
بعد بیرون ملک ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہے تو دوسرا بیٹا پی ایچ ڈی کر کے
اپنا آ ٹی ٹی کا کاروبار کر کے خوشحالی کی زندگی گذار رہا ہے۔
میں اور عمر دونوں ہی ریٹائر زندگی گذار رہے ہیں۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہی
نہیں بلکہ ہر وقت رابطے میں رہتے ہیں۔ میرا خیال تھا میں عمر کو اندر سے
جانتا ہوں مگر فرح جو کچھ بتا رہی تھی میرے لیے حیرت تھی۔ اس کی بیوی بتا
رہی تھی۔ وہ ملحد ہو گیا ہے۔ قرآن کے کتاب الہی ہونے سے انکار کرتا ہے۔اور
آخرت کوانسانی ذہنی اختراح کہتا ہے۔
اسلام آباد سے لاہور کا سفر چار گھنٹوں کا ہے۔ ہم جان بوجھ کر سات گھنٹے
میں پہنچے۔پہلی رات کی صبح ہوئی تومیں عمر کے نظریات کی تبدیلی کے محرکات
سمجھنے لگا تھا۔ بڑا محرک ٹوءئٹر پر برپا ہونے والی سپیسسز(Spaces) تھی۔
مگر ہم نے اپنا ہفتے بھر کے سفر کا پروگرام جاری رکھا۔
جب میں گھر عمر کو اس کے گھر اتار کر اپنے گھر واپس آ یا۔ میری بیوی، جو
مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا کرتی تھی۔ اس نے فکر مندی سے پہلا سوال یہ کیا
(کیا بات ہے آپ پریشان کیوں ہیں)۔ میں واقعی پریشان تھا۔ یہ پریشانی عمر کے
بارے میں نہ تھی بلکہ اپنے تین تعلیم یافتہ بیٹوں کے بارے میں تھی۔ بیٹی
بارے پریشان نہیں تھا کہ وہ ایک مضبوط کردار کے مسلمان کی زوجہ تھی۔ پھر
ذہن کے کونے میں دھماکا سا ہوا۔ عمر بھی تو مضبوط کردار کا مسلمان تھا۔
عمر کے ساتھ کیے ایک ہفتے کے سفر کو آج ایک ماہ ہو چکا ہے۔ میں اور میری
بیوی خوفزدہ ہیں۔ ہم اپنے حلقہ احباب میں کئی لوگوں سے مشورہ کر چکے ہیں
مگر ہم دونوں، میاں بیوی، کی پریشانی کم نہیں ہو رہی بلکہ روز بروز بڑھ رہی
ہے۔ کیا ہم خود اور ہماری اولاد (خاتمۃبالایمان) کی سعادت پا سکیں گے۔ اگر
عمر جیسے شخص کے اعتقاد بدل سکتے ہیں تو ہمارا کیا بنے گا۔۔۔۔
( جاری ہے )
|