چین کا دفاعی بجٹ ، امن پسندی کا عملی اظہار

ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے پیش کی جانے والی حکومتی ورک رپورٹ میں سال 2023 کے حوالے سے اہم اہداف کا اعلان کیا گیا ہے جس پر دنیا نے نمایاں توجہ دی ہے۔اس رپورٹ میں جہاں اقتصادی سماجی اہداف نمایاں طور پر سامنے آئے وہاں دفاعی بجٹ کے حوالے سے چین کی پالیسی نے بھی اُس کی امن پسندی کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا ہے ،جسے عالمی حلقوں میں نمایاں طور پر سراہا گیا ہے۔یہ امر قابل زکر ہے کہ چین کا سالانہ دفاعی بجٹ مسلسل 08ویں سال سنگل ڈیجٹ گروتھ میں رہے گا جس میں 2023 میں 7.2 فیصد کا اضافہ ہوگا۔چین کی قومی عوامی کانگریس کے جاری اجلاس میں پیش کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے مجوزہ دفاعی اخراجات رواں سال 1.5537 ٹریلین یوآن (تقریباً 224.79 بلین امریکی ڈالر) ہوں گے جبکہ پچھلے سال یہ شرح اضافہ 7.1 فیصد تھی۔

یہ بات غور طلب ہے کہ چین کے دفاعی اخراجات ایک طویل عرصے سے مغربی "جانچ پڑتال" کا مرکز رہے ہیں، اور نام نہاد "چائنا تھریٹ" کو تقریباً ہر سال بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے ، تاہم حقائق اس کے برعکس ہیں۔چینی حکام کے نزدیک دفاعی بجٹ میں حالیہ اضافہ "مناسب اور معقول" ہے کیونکہ پیچیدہ سیکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے اور چین کو ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے ایسے لازمی اقدامات کی ضرورت ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین ایک ایسی قومی دفاعی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو "دفاعی نوعیت" کی ہے۔چین نے متعدد مواقع پر اس بات پر زور دیا ہے کہ دفاعی اخراجات میں کتنی بھی سرمایہ کاری کیوں نہ کی جائے یا اس کی مسلح افواج کتنی ہی جدید ہوں، چین کبھی بھی بالادستی، توسیع یا اثر و رسوخ کے دائرے کی کوشش نہیں کرے گا۔دوسری جانب یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ دفاعی اخراجات کا تعین دفاعی تعمیر کی ضرورت اور کسی ملک کی اقتصادی ترقی کی سطح پر مجموعی غور و خوض کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس پیمانے پر جی ڈی پی کے حصے کے طور پر چین کے دفاعی اخراجات ، جو عالمی اوسط سے کم ہیں ، کو بنیادی طور پر کئی سالوں سے مستحکم رکھا گیا ہے۔

یہاں چین کو اس بات کا کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ اُس کے دفاعی اخراجات کھلے اور شفاف ہیں اور چین 2008 سے ہر سال اپنے فوجی اخراجات پر رپورٹ اقوام متحدہ کو پیش کر رہا ہے۔اس تناظر میں ایک جانب ، اگر چین اپنے دفاعی اخراجات کو چینی افواج کی بہتر تربیت اور مزید جدید آلات فراہم کرنے میں استعمال کر رہا ہے تو دوسری جانب یہی اخراجات بڑے وبائی امراض اور قدرتی آفات جیسے غیر روایتی سلامتی کے خطرات سے نمٹنے میں بھی چینی افواج کے کام آتے ہیں اور صلاحیتوں میں اضافے سے چینی فوج اندرون ملک اور باہر ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتی ہے۔چین کے قومی دفاعی قانون کے مطابق فوجی اہلکاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہنگامی بچاؤ اور آفات سے نمٹنے میں حصہ لیں۔سنہ 2020 میں جب ووہان کووڈ۔19 کی وبا سے بری طرح متاثر ہوا، تو چینی فوج نے وبا کے خلاف جنگ میں مدد کے لیے 4 ہزار سے زائد طبی عملے کو بھیجا تھا۔علاوہ ازیں ،چین کی مسلح افواج بین الاقوامی برادری کو بھی اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق عوامی سلامتی سے وابستہ مصنوعات فراہم کرنے کے لئے پرعزم رہی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج چین اقوام متحدہ کے امن بجٹ میں ایک اہم شراکت دار ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں امن دستے بھیجنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جس نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران امن مشنوں پر 50 ہزار سے زیادہ اہلکار بھیجے ہیں۔سنہ 2008 سے اب تک چینی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کی بحریہ نے خلیج عدن اور صومالیہ کے پانیوں میں 43 بیڑے بھیجے ہیں تاکہ بین الاقوامی لین کی حفاظت کی جا سکے اور 7 ہزار سے زائد چینی اور غیر ملکی بحری جہازوں کی حفاظت کی جا سکے۔پی ایل اے کے بحری ہاسپٹل جہاز پیس آرک نے 40 سے زائد ممالک اور خطوں کا دورہ کیا ہے اور 2008 میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد سے 240،000 سے زائد افراد کو طبی خدمات فراہم کی ہیں۔چین کا اس حوالے سے بڑا واضح موقف ہے کہ اُس کا مستقبل پوری دنیا کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ چین کی فوجی جدت کاری کسی بھی ملک کے لیے خطرہ نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس، یہ علاقائی استحکام اور عالمی امن کے تحفظ کے لئے صرف ایک مثبت طاقت ثابت ہوگی۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 615732 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More