اِنسان اور بجلی

بہت سی باتیں شاید قیامت تک طے نہیں کی جاسکیں گی۔ مثلاً یہ کہ قیامت پہلے آئے گی یا پاکستان میں حقیقی جمہوریت؟ اور یہ طے کرنا بھی انتہائی دشوار ہے کہ ہمارے ہاں حقیقی جمہوریت کے نام پر جو کچھ نافذ کیا جاتا رہا ہے وہ آمریت کا کون سا درجہ ہے! ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر پاکستانی قوم نے قیامت سے قبل اپنا سیاسی قبلہ درست کر لیا تو کہیں اِسی کو تو قیامت کے برپا ہونے سے تعبیر نہیں کر لیا جائے گا؟ ماہرین کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ان کے بارے میں بھی یہ طے کرنا بہت مشکل بلکہ تقریباً ناممکن ہے کہ وہ آخر کیا اور کیوں چاہتے ہیں! ہماری ناقص رائے یہ ہے کہ ماہرین خود رو پودوں کی طرح ہیں، یعنی ہم نہ چاہیں تب بھی یہ اُگ آتے ہیں۔ اور اِن کے ٹاپ کلاس مشوروں کو خود رو گھاس پُھوس اور کانٹوں کے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے! جس طرح کچھ کھانے کے بعد اِنسان کے پیٹ میں مروڑ اُٹھا کرتے ہیں، بالکل اُسی طرح ماہرین بھی جب کبھی (اتفاق سے) کچھ سوچ لیتے ہیں تو اُن کے پیٹ میں مروڑ اُٹھتے ہیں اور پھر جب تک وہ مشوروں کا چارا کسی بھینس کے سامنے نہ ڈال دیں، اُنہیں سُکون نہیں ملتا! ماہرین حتمی طور پر کیا چاہتے ہیں، یہ سمجھنے کے لیے بھی ہمیں ماہرین کی خدمات حاصل کرنا پڑیں گی! اگر ماہرین نہ ہوں تو اِنسان کو معلوم ہی نہ ہو پائے کہ اُسے کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا ہے، کیا پانا اور کیا کھونا ہے!

اللہ نے اِنسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا ہے اور ماہرین شبانہ روز محنت کے ذریعے اُسے حیرت المخلوقات بنانے پر کمر بستہ ہیں! اچھے خاصے اِنسان کو مشین بنانے پر عقل اور توانائی خوب صرف کی جا رہی ہے۔ تحقیق کا بازار گرم رکھنے، یعنی اپنے گھروں کے چولہے جلتے رکھنے کے لیے ماہرین نے اچھے خاصے اِنسان کو طُرفہ تماشے میں تبدیل کر دیا ہے!

سُکون کی حالت میں چلتا پھرتا اِنسان ماہرین کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا، اِس لیے اب یہ پُھلجھڑی چھوڑی گئی ہے کہ اِنسان دوڑ کر ایک کلو واٹ تک بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ یہ بجلی جوتوں میں ایک ڈیوائس لگا کر پیدا کی جا سکتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ گھر سے کام پر جاتے ہوئے انسان دوڑ کر اِتنی بجلی پیدا کر سکتا ہے کہ موبائل کی بیٹری چارج کر لے اور ایم پی تھری پلیئر پر گانے بھی سُنتا جائے! اِنسان نہ ہوا، پاور جنریٹنگ یونٹ ہو گیا! اِس نئے شوشے سے قبل ماہرین نے بتایا تھا کہ اِنسان کے بولنے میں بھی توانائی ہے جسے بَرقی رو میں تبدیل کر کے موبائل چارج کیا جا سکتا ہے۔ مگر چلنے پر دوڑنے کو ترجیح دینے والے ماہرین کی طرح اُن ماہرین نے بھی نارمل طریقے سے بولنے پر چیخنے کو ترجیح دی تھی! مطلب یہ ہے کہ اِنسان موبائل کو منہ کے پاس رکھ کر دس بارہ منٹ تک چیختا رہے تو موبائل سیٹ کی بیٹری چارج کی جا سکتی ہے! ذرا منطق ملاحظہ فرمائیے۔ یعنی جب کبھی آپ موبائل کی بیٹری چارج کر رہے ہوں گے، لوگ یہ سمجھیں گے کہ بیگم پر برس رہے ہیں!

جب کوئی زیادہ اکڑ دِکھا رہا ہوتا ہے تو ہم پوچھتے ہیں ”کیا بات ہے پہلوان؟ اِتنا کیوں پھیل رہا ہے؟“ کراچی بھی کچھ اِسی طرح پھیل رہا ہے! لوگ کام پر جانے کے لیے روزانہ چالیس، پچاس کلو میٹر تک کا سفر بھی کرتے ہیں۔ اب ذرا سوچیے کہ اگر کوئی روزانہ کام پر جاتے ہوئے پندرہ بیس کلو میٹر دوڑے گا تو سات آٹھ کلو واٹ بجلی تو پیدا کر ہی لے گا۔ ایسے میں اگر اِنسان خود کو (بقول ناہید اختر) ”بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں“ نہ سمجھے تو پھر کیا سمجھے! ماہرین کے بجلی ساز مشورے پر عمل کر کے کراچی کے مکین آج کل زیادہ بجلی پیدا کر سکتے ہیں، کیونکہ حالات کے باعث ذہنی حالت یہ ہو گئی ہے کہ کسی سے ذرا سی بھی ایسی ویسی بات کیجیے تو کرنٹ مارنے لگتا ہے! ایسے میں بجلی پیدا کرنے کے لیے بس ڈیوائس لگانے ہی کی تو دیر ہے!

بجلی کے بارے میں سوچتے سوچتے ہمیں مرزا تنقید بیگ کا خیال آیا۔ خیال تو آنا ہی تھا، کیونکہ اُن میں تو ماشااللہ اِتنی بجلی بھری ہے کہ اُن کے بارے میں سوچیے تو ذہن کو جھٹکے لگنے لگتے ہیں! ماہرین کے خیال میں اگر اِنسان بجلی پیدا کرنے کی مشین ہے تو ہم بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ مرزا پُورا پاور ہاؤس اور بھابی 130 کلو گرام کے لحمی وجود کے ساتھ پاور ہاؤس چورنگی ہیں!

کل صبح جب محلے کی بیکری پر مکھن اور انڈے خریدتے وقت مرزا سے ملاقات ہوئی تو ہم ”تصوّرات کی خیالی دُنیا“ میں کھو گئے! ہم نے ”چشم تصوّر کی آنکھ“ سے ”بہ قلم خود“ دیکھا کہ مرزا ڈبل بجلی پیدا کر رہے ہیں، یعنی برق رفتاری سے دوڑ بھی رہے ہیں اور مُنہ کے پاس موبائل رکھ کر چیخ بھی رہے ہیں! اور سڑک پر لوگ یہ تماشا بلا ٹکٹ دیکھ رہے ہیں! ویسے کسی بھی ایسی ویسی حالت میں مرزا کو لوگ جس محویت سے دیکھتے ہیں، وہ بھی دیکھنے کی چیز ہے!

مرزا اگر دوڑ کر بجلی پیدا کریں تو اُس بجلی کو ہم ہارس پاور قرار نہیں دے سکتے، کیونکہ گھوڑا خاصا قابل احترام حیوان ہے! گھوڑے سے ذرا چھوٹے جانور کا نام بھی ہم نہیں لیں گے، ورنہ محترم انصار برنی کو حیوانات کے حقوق کے تحفظ کی تحریک چلانے کی تحریک ملے گی!

ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے، مگر فٹبال غریب عوام میں زیادہ مقبول ہے کہ اِس کے لیے صرف ایک فٹبال خریدنا پڑتی ہے۔ کھیلنے والے تو مفت میں اور قدم قدم پر دستیاب ہیں! فٹبال میں ہم اب تک کوئی تیر نہیں مار سکے تو کیا ہوا، بجلی تو پیدا کر سکتے ہیں! گیارہ کھلاڑی 90 منٹ تک فٹبال چھیننے کی کوشش میں بھاگتے ہی رہیں گے تو ذرا سوچیے کہ کتنی بجلی پیدا ہوگی! یہی حال ہاکی کا ہے۔ اِن دونوں کھیلوں میں حصہ لینے والے گول کریں نہ کریں، بجلی کی پیداوار تو بڑھا ہی دیں گے! ہمیں اب ایسے ہی کھیلوں کی ضرورت ہے، جن میں فتح ملے نہ ملے، مفادات ضرور محفوظ رہیں!

ماہرین نے یہ نہیں بتایا کہ بجلی پیدا کرنے کے لیے اِنسان میں ڈیوائس لگانے کے بعد اُس کے پیچھے کتے بھی چھوڑے جا سکتے ہیں! سین یہ ہوگا کہ پیچھے کتے بھونکتے ہوئے بھاگ رہے ہیں اور آگے آگے آپ بھاگتے ہوئے موبائل سے منہ سے لگائے چیخ رہے ہیں! اب ذرا یہ سوچیے کہ بھری پُری ادبی محفل میں چار غزلیں سُناکر بھاگ نکلنے والے شاعر کو اپنا کلام سُنانے کے لیے اُس کے پیچھے بھاگنے والے شعرا کِس قدر بجلی پیدا کریں گے!

اور صاحب بھاگنے ہی سے بجلی پیدا کرنی ہے تو میدان یا سڑک کی کیا قید؟ گھر میں ٹریڈ مل لگا کر بھی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے! اب ہوگا یہ کہ میاں ذرا کمر سیدھی کرنے کو لیٹے ہی ہیں کہ اہلیہ نے آواز لگائی ”ذرا مشین پر کچھ دوڑ تو لگائیں، مجھے موبائل چارج کرنا ہے۔“ حکم کی تعمیل ہوئی۔ اب جو کمر سیدھی کرنے دوبارہ لیٹے تو باورچی خانے سے آواز آئی ”تھوڑی دیر کے لیے مشین پر پھر دوڑ لگائیں، مجھے گرنڈر چلانا ہے!“ شوہر نہ ہوا، گھریلو برقی آلات کا یو پی ایس ہوگیا!

زندگی واقعی دوڑ دھوپ کا نام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اِتنی بجلی کا ہم کریں گے کیا؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں پھر ماہرین کی طرف دیکھنا پڑے گا!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525052 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More