کیا کیا برس رہا ہے برسات کے بہانے

مسرت کے احساس سے شرابور کردینے والی برساتی بہاروں کا کوئی پہلو، کوئی انگ اردو کے کلاسیکی شعراءنے نظر انداز نہیں کیا۔ نظیر اکبر آبادی اور اُن جیسے دوسرے عوامی شعراءنے تو برسات سمیت ہر موسم کی توصیف اور تشریح میں زمین آسمان کے قلابے ملانے اور بہت دور کی کوڑیاں لانے میں بھی تساہُل یا بُخل سے کام نہیں لیا۔ آسمان سے رحمت برستی ہے تو زمین کے سینے سے خزانے اُبل پڑتے ہیں۔ قدرت کی فیاضی یہ ہے کہ بارش کے بعد ہم ہر طرف سبزے کی بہار دیکھتے ہیں۔ زمین کے سینے پر طرح طرح کے پھول جلوہ افروز ہونے لگتے ہیں۔ فصلوں کو نئی زندگی ملتی ہے اور پیداوار بڑھ جاتی ہے۔ حدِ نظر تک سبزہ ہی سبزہ دکھائی دیتا ہے اور محض ساون کے اندھوں پر کیا موقوف ہے، آنکھ والوں کو بھی ہرا ہی ہرا سُوجھتا ہے!

کلاسیکی شعراءنے اگر برسات کو سراہا ہے تو کچھ غلط نہیں کیا کہ یہ اُس کا حق تھا مگر خیر یہ سب تو کتابی باتیں ہیں، خواب و خیال کے قصے ہیں۔ شعراءاور نثر نگار اپنی کاوشوں میں زندگی کا پیغام دیتے نہ تھکتے تھے۔ کسی بھی موسمی تبدیلی یا کسی اور معاملے میں اُنہیں کوئی منفی چیز مشکل ہی سے دکھائی دیا کرتی تھی۔ کچھ بھی لکھتے وقت یہ فکر لازمی طور پر دامن گیر رہا کرتی تھی کہ پڑھنے والوں کو کوئی نہ کوئی پیغام دیا جائے! ثابت ہوا کہ دور قدیم کے اہل قلم بھولے بادشاہ تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابلاغ کے متنوع ذرائع پروان چڑھتے گئے اور دُنیا پر یہ نکتہ واضح ہوتا گیا کہ ہمارے گِرد و پیش صرف وہی کچھ نہیں جو دکھائی دیتا ہے بلکہ ہر معاملے کی بہت سی ”سائڈ اسٹوریز“ بھی ہوا کرتی ہیں! میڈیا ہی کے ذریعے دُنیا کو یہ معلوم ہوسکا کہ بارش ہوتی ہے تو صرف پانی نہیں برستا، سیلاب اور بیماریاں بھی برستی ہیں! جب پانی اپنے گھر یعنی بادلوں سے نکل کر زمین تک آتا ہے تو بہت سے لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں!

ہمارے کلاسیکی شعراءکو معلوم ہی نہ تھا کہ موسلادھار بارش صرف پکوڑے تَلنے اور سَکھیوں کو درختوں پر جُھولے ڈالنے کی تحریک ہی نہیں دیا کرتی بلکہ اِ س سے زندگی کا نظام درہم برہم بھی ہو جایا کرتا ہے!
گاؤں گوٹھ اُس زمانے میں بھی بارش کے بعد سیلابی ریلوں میں بہہ جاتے ہوں گے مگر افسوس کہ کسی شاعر نے متقدمین کی روایت سے بغاوت نہیں کی اور کوئی ”بارش آشوب“ نہیں لکھا! خیر سے یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ دورِ قدیم کے اُردو شعراءخاصے ”کوتاہ بیں“ تھے، حدِ نظر سے آگے نہیں دیکھ سکتے تھے!

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی مہربانی سے (شالا نظر نہ لگے!) ایسی ”کومپیکٹ“ ذہنی تربیت ہوئی ہے کہ ہمیں تو اب یہ طے کرنا بھی خاصا جاں گُسل معلوم ہوتا ہے کہ بارش سے غَلّہ زیادہ پیدا ہوتا ہے یا بیماریاں! آج کی بارش زمین کا سینہ ضرور چیرتی ہے مگر ہم یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ (ایک بار پھر شالا نظر نہ لگے!) کیا کیا باہر آگیا! کبھی کبھی تو خیال آتا ہے کہ کہیں زمین نے اپنے سینے میں انسانوں کے خُبثِ باطن کو تو نہیں سَمو لیا!

ایک زمانہ تھا کہ بوندا باندی کے آثار دیکھ کر خواتین خانہ فوراً باورچی خانے میں داخل ہوکر اطمینان کرلیتی تھیں کہ پکوڑوں کے لیے بیسن اور تیل مطلوبہ مقدار میں ہے نا! دہی بڑے اور چاٹ وغیرہ بنانے کی فکر بھی از خود نوٹس کے تحت فی الفور اطلاق پذیر یعنی لاحق ہو جایا کرتی تھی! اِدھر چند بوندیں گریں اور اُدھر باورچی خانہ آباد ہوگیا۔ بارش سے کونپلیں تو بعد میں پُھوٹتی تھیں، پکوڑوں اور پکوانوں کی بہار پلک جھپکتے میں وارد ہو جایا کرتی تھی! اب خیال آتا ہے کہ اُس زمانے کی خواتین خانہ کس قدر لاپروا ہوا کرتی تھیں۔ پکوڑوں، دہی بڑوں، چھولوں اور جُھولوں کی دُھن میں مگن ہوکر وہ بھول ہی جاتی تھیں کہ ٹپکتی چھت کے نیچے برتن بھی رکھنا ہوتے ہیں! ہمارے ہاں تو حالت یہ ہے کہ بعض علاقوں میں ٹپکتی چھت کے نیچے برتن رکھنے سے کچھ دِنوں کا پانی اسٹاک ہو جاتا ہے! اِسے کہتے ہیں کہ قدرت سے ڈائریکٹ واٹر لائن!

گزرے ہوئے زمانوں کے لوگ بھی کتنے بَھولے بادشاہ تھے۔ اُنہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ جب برسات ہوتی ہے تو بہت سے ایسے ویسے اِمکانات کے غُنچے بھی کھل جاتے ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ جب چھت پر برکھا برسے تو کوئی کسی سے مِلن ہی کے سپنے ہی دیکھے! تباہی کا کیوں نہ سوچا جائے اور اِمداد کے سپنے کیوں نہ دیکھے جائیں؟ سرکاری مشینری کے پُرزے تو آسمان پر گھٹاؤں کے گِھر آنے کو مزید تباہی اور پھر مزید بین الاقوامی امداد سے تعبیر کرنے میں دیر نہیں لگاتے! بارش کا موسم اب ہمارے حکمرانوں کے لیے ہاتھ پھیلانے (یعنی اپنی ذاتی جھولی بھرنے) کے مزید تابندہ و توانا اِمکانات لیکر قدم رنجہ فرماتا ہے!

سرکاری اہلکار بارش سے تباہی واقع ہونے سے قبل ہی اُس کے اندازے قائم کرنا شروع کردیتے ہیں! دیہات کے غریبوں کو اللہ جَزا دے کہ تباہی سے دوچار ہوکر حکمرانوں اور سرکاری مشینری کو کچھ کھانے، کمانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اللہ ہمارے غریبوں اور اُن کی اِس فَیّاضی کو سلامت رکھے!

میڈیا کی مہربانی سے ہمیں بارش کے وہ تمام رنگ دکھائی دیتے ہیں جو شاید دِکھائی نہیں دینے چاہئیں۔ کہیں کسی نالے میں دو چار کتے بلیاں پھنس جائیں تو ان کی لائیو کوریج کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ پوری قوم اچھی طرح دیکھ اور سیکھ لے کہ اگر کبھی نالے میں پھنسنا ہے تو کس طرح پھنسنا ہے اور کس طور کتے بلیوں سے منفرد دِکھائی دینا ہے!

جب قوم بارش کے مزے لُوٹ رہی ہوتی ہے تب الیکٹرانک میڈیا کے لوگ ناگفتہ بہ حالت والے لوگوں کو تلاش کررہے ہوتے ہیں تاکہ اُن سے گفتگو کے ذریعے برسات کے خاکے میں کچھ وکھری ٹائپ کے رنگ بھرے جاسکیں! کسی چینل پر کوئی رپورٹر بارش کے بعد لوگوں میں دوڑ جانے والی خوشی کی لہر کو بھی کچھ اِس ڈھنگ سے بیان کر رہا ہوتا ہے کہ دیکھنے اور سُننے والوں کو گمان گزرتا ہے کہ کوئی بحران رُونما ہوگیا ہے! لوگوں کا مسرت سے جھوم اُٹھنا بھی خاصے انتباہی انداز سے بیان کرنا میڈیا میں فیشن کا درجہ اختیار کرتا جارہا ہے! ٹریفک جام کی تفصیل نمک مرچ لگاکر اِس طرح بیان کی جاتی ہے کہ گھر میں سُکون سے بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس بلا وجہ پریشان ہونے کے سِوا کوئی آپشن نہیں رہتا! یہ سب دیکھ کر ہم جیسے بہت سے سیدھے سادہ ”اللہ لوگ“ طے نہیں کر پاتے کہ بارش سے لطف اندوز ہوں یا سہم جائیں! اللہ کی رحمت کو زحمت کی حیثیت سے پیش کرنے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ معاشرے کی تباہی اور زوال کے لیے بارش کو صرف موردِ الزام نہ ٹھہرایا جائے بلکہ سارا ملبہ اُسی پر ڈال دیا جائے!

لکھنے والوں نے بھی ذہن کا سانچا تبدیل کرلیا ہے۔ رحمت کی بوندوں کو زحمت کے قطرے ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے! رپورٹرز خبر لکھتے ہیں تو آسمان سے ٹپکنے والے کومل قطروں کو بھی عِفریت کے رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ اور جب کوئی مضمون لکھنے بیٹھتا ہے تو زمانے بھر کی ناکامیاں بارش کے کھاتے میں ڈالنے کی تاک میں رہتا ہے! عدم تشکر کا یہ ماحول ہماری فکری ساخت پر پوری شِدّت سے اثر انداز ہو رہا ہے! قدم قدم پر مُشکلات میں گھرے ہوئے لوگ آسمان سے چند چھینٹے پڑنے پر کِھل اُٹھتے ہیں مگر اُنہیں موسم کی خوشگوار تبدیلی سے بھی ڈرایا جاتا ہے! جو لوگ برکھا رُت سے محظوظ ہونے کے لیے گھر سے نکلنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں اُنہیں نَدّی نالوں میں طُغیانی اور سڑکیں بلاک ہوجانے کی ”نوید“ سُنائی جاتی ہے! مختلف رپورٹس اور لائیو کوریج کے ذریعے پیغام دیا جاتا ہے کہ ”جہاں ہیں، جیسے ہیں“ کی بنیاد پر قناعت کو گلے لگائیں، یعنی گھر میں دُبکے رہیں ورنہ لوگ کہیں گے بارش کے بعد کیسی کیسی چیزیں باہر آ جاتی ہیں! مسرت کے چند لمحات گزارنا بھی اب اِنسان کے بس میں نہیں رہا۔ منفی سوچ کی بارش تھمنے کا نام نہیں لیتی اور اصلی بارش منفی گھٹاﺅں کے سامنے سہمی سہمی دکھائی دیتی ہے! بادلوں میں اُتنی گھن گرج نہیں ہوتی جتنی زبردست گھن گرج اُن سے ڈرانے والوں کے لہجے میں پائی جاتی ہے! سچ تو یہ ہے کہ اِدھر بارش شروع ہوتی ہے اور اُدھر اُس پر پانی پھیرنے کے عمل کا آغاز کردیا جاتا ہے!

وہ زمانے بھی اب ہوا ہوئے کہ جب بارش کی آمد بچوں کے لیے مسرت کا سامان ہوا کرتی تھی۔ جن علاقوں میں کچی زمین کے قطعات زیادہ تھے وہاں بسنے والے کچی مِٹی کی مہکار کو درآمد شدہ خوشبویات سے افضل گردانا کرتے تھے۔ بچے بارش کے بعد بیل بہوٹیاں تلاش کرتے پھرتے تھے۔ بہت سے بچے سَریا گاڑنے کا کھیل بھی کھیلا کرتے تھے۔ اب بارش کے بعد حکومت کے مخالف ”بڑے بچے“ سِسٹم کی ناکامی تلاش کرتے پھرتے ہیں! اور سریے ضرور گاڑتے ہیں مگر تنقید کے اور وہ بھی زمین میں نہیں، متعلقہ منتخب ارکان یا افسران کے سینے میں! اگر یہی حال رہا تو بارش بھی ہمارے پاس آنے سے اُسی طرح کترایا کرے گی جس طرح اچھا وقت ہم سے بچتا، چُھپتا پھرتا ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486248 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More