انصاف کے ایوانوں سے

ورلڈ جسٹس پروجیکٹ (WJP) کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میں دنیا کے 61 فیصد ملکوں بشمول پاکستان قانون کی حکمرانی تنزلی کا شکار ہے۔ شفافیت، احتساب ، یکساں انسانی حقوق اور انصاف سب کے لئے، یہ چیزیں کسی بھی معاشرے میں انصاف کا پیمانہ سمجھی جاتی ہیں۔ مگر ان 61فیصد ملکوں میں اسی پیمانے کے مطابق انصاف پوری طرح تنزلی کا شکار ہے۔ہر معاملے میں حکومتی جبر اور میڈیا پر حملوں نے لا قانونیت کو مزید فروغ دیا ہے ۔کووڈ کے دوران حکومتوں نے اپنے خصوصی ایمر جنسی اختیارات کی آڑ میں لوگوں کی آزادی کو کچلااور ہر معاملے میں شفاف طریقہ کار سے اجتناب کیا۔پچھلے سال کے آخر میں ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان رول آف لا کے حوالے سے دنیا کے 140 ممالک میں 130 نمبر پر ہے۔پاکستان کے بعد جو چند ممالک ہیں ان میں زیادہ تر کی شہرت جرائم پیشہ یا ابتری کا شکار ملکوں میں ہوتا ہے۔ جیسے ہمارے خطے میں افغانستان 138 نمبر پر ہے۔ ہم ہر چیز میں اپنا مقابلہ بھارت سے کرتے ہیں۔ بھارت میں بھی رول آف لا کی صورت حال بہت بہتر نہیں لیکن ہم سے بدرجہا بہتر ہے اور بھارت دنیا میں77 نمبر پر ہے۔

میں اپنی عدلیہ کا بے حد احترام کرتا ہوں اور عموماً عدلیہ کے دفاع میں دوستوں سے بحث مباحثہ کرتا رہتا ہوں۔مگر حال میں سپریم کورٹ میں جس انداز میں ایک آدھ کیس کی شنوائی ہوئی اورجو فیصلے ہوئے،ان فیصلوں نے بحث ومباحثے اور تبصروں کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیا ہے۔جو قومی طور پر باعث شرمندگی بھی ہے۔اس کیس کی سماعت کے دوران بہت سے ججوں کا رویہ بھی عجیب تھا۔ کہتے ہیں جج کبھی نہیں بولتے بلکہ ہمیشہ ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ اس کیس میں شروع سے آخر تک جج بولتے رہے۔ وہ جج جن کی فیصلے سے کوئی تعلق نہ تھا یا جو تعلق نہ رکھنا چاہتے تھے۔ ان کا بولنا یا کوئی تبصرہ لکھ دینا میری سمجھ سے بالا ہے۔آپ بنچ میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا شمولیت نہیں کرنا چاہتے یہ کام خاموشی سے بھی ہو سکتا تھا۔اس انداز سے علیحدگی سے ان کی اپنی ذات بھی حرف آتا ہے۔آخر میں بنچ میں شامل ججوں کی تعداد پانچ تھی۔ جو فیصلہ آیا اس میں حتمی رائے فقط انہی پانچ ججوں کی تھی۔ مگر دو ججوں کے کچھ نوٹ لکھنے اور باتیں کرنے سے لوگ فیصلے کو غلط رنگ دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔وزیر قانون ایک پڑھے لکھے اور حقیقی ڈگری یافتہ وکیل ہیں جو ہر بات کو سمجھتے ہیں۔ ان کی طرف سے یہ کہنا کہ فیصلہ 3 : 2 سے نہیں بلکہ 3 : 4 سے ہمارے حق میں ہوا ہے ۔ اپنے لیڈروں کو خوش کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ سیاست شاید اسی کا نام ہے کہ اگر آپ کے لیڈر جھوٹ سے خوش ہوتے ہیں تو ڈٹ کر جھوٹ بولو۔یا شاید پس منظر میں کوئی سازش ہے کہ جس کی پلاننگ ہو رہی ہے ۔ جس کی خاطر اس بیانئے کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔

جناب چیف جسٹس! یہ سب سے زیادہ آپ کے لئے تشویش کی بات ہے۔ کیا جج اس حد تک آزاد ہیں کہ جو چائیں کریں، انہیں کوئی پوچھ نہیں سکتا۔جسٹس مندوخیل کا نوٹ حکمنامہ آنے سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آ گیا جو غلط اور باعث افسوس ہے۔ سوشل میڈیا کا ججوں سے تو دور کا بھی واسطہ نہیں ہونا چائیے۔ ہمارے ایک معزز جج آنے والے وقت میں سپریم کورٹ کی سیاہ و سفیکد کے مالک ہوں گے۔ مگر وہ قبل از وقت ہی پوری طرح فارم میں ہیں، لگتا ہے کہ انہیں کچھ جلدی ہے ۔وہ کچھ ایسے فیصلے کر رہے ہیں جو مزید اختلاف کی خبر دیتے ہیں۔دو سینئر ججوں کو ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی۔ مْقصد یہ تھا کہ وہ جج بنچ کا حصہ نہ بنیں۔ججوں کے انکار سے اس پارٹی کا مقصد تو پورا ہو گیا۔ججوں پر حرف بھی آیا ۔ بہتر تھا کہ جج ایسی بلیک میلنگ کو نظر انداز کر جاتے۔دوسرے دو جج بنچ میں بیٹھنے سے انکار کر کے اب مزید دباؤ میں آئیں گے کیونکہ بلیک میل کرنے والوں کی ان کے پیچھے ہٹنے سے حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔جسٹس اطہرمن اﷲ اور جسٹس یحییٰ آفریدی لکھ کر سات رکنی بنچ سے علیحدہ ہوئے اور وہ بنچ ٹوٹ گیا ۔ مگر وہ لوگ ایک نوٹ لکھ کر فیصلے اور خود کو عجیب انداز میں متنازعہ بنا گئے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے الگ نوٹ میں کہا کہ ہر جج کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالتی بنچ میں بیٹھ کر مقدمات سنے ۔ کوئی جج کسی بنچ سے خود کو اسی وقت علیحدہ کر سکتا ہے جب اس کے پاس علیحدگی کا کوئی معقول قانونی جواز ہو۔انہوں نے سینئر ججوں کو بنچ میں شامل نہ کرنے پر تنقید کی۔ایسے کئی معاملات ہیں جو سپریم کوٹ کے ججوں کے آپس میں اختلافات کو کھل کر ظاہر کر رہے ہیں۔دنیا بھر میں ہر جگہ ججوں میں اختلاف ہوتا ہے مگر یہ اس قدر خاموش ہوتا ہے کہ کوئی ان کے آئندہ آنے والے فیصلوں بارے جان نہیں سکتا مگر ہمارے ججوں کا رویہ اور مختلف معاملات میں رائے زنی کرناصاف ظاہر کرتا ہے کہ ان کا رحجان کس سیاسی گروہ کی طرف ہے۔ ایک سیاسی گروہ جو پہلے بھی ججوں کے اختلاف سے فائدہ اٹھاتا رہا ہے آج بھی متحرک ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگلے چند دن میں کوئی بڑا چکر چلنے والا ہے اور پھر واضع ہو جائے گا کہ اس دفعہ کا رفیق تارڑ کون ہے اور نیا چیف جسٹس کون ہو گا۔ اگر واقعی یہ کھیل دوبارہ کھیلا گیا تو پاکستان کی عدالتوں کی رینکنگ میں جو دس نمبروں کی کسر رہ گئی ہے وہ بھی ہم پوری کر لیں گے اور رول آف لا کے حوالے سے (WJP) کی لسٹ میں 140 نمبر پر ہوں گے۔

پاکستانی سیاست کی ایک مقدس گائے جناب بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی مقدس گائے نہیں۔اس لئے ججوں سمیت سب کا احتساب ہونا چائیے۔اچھا مشورہ ہے مگر صرف مشورہ ہے۔ عملی طور پر یہ لوگ اپنے احتساب سے تو کنی کتراتے ہیں دوسروں کو پھنسانے کی بات یا بیانات صرف لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ہوتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری سے عرض ہے کہ جناب حکومت آپ کی، وسائل آپ کے ، پارلیمنٹ آپ کی۔ وہاں اس کے بارے کوئی قرار داد پیش کرنا ، کوئی قانون ساز ی کرناآپ کی ذمہ داری تھی اور ہے۔ کبھی ایسی باتیں عوام میں کرنے کی بجائے عملی طور پر پارلیمنٹ میں بھی کرکے دکھائیں۔جناب چیف جسٹس سے میری ایک بار پھر استدعا ہے کہ معاملات کو سنجیدگی سے لیں، انصاف کے ایوانوں سے ہمیشہ جو آوازیں سنائی دیتی ہیں وہ یا تو ایسے لوگوں کی دعائیں ہوتی ہیں جنہیں انصاف مل جاتا ہے یا پھر مجرموں کی آ ہ وزاری ہوتی ہے۔ہمارا انصاف کا ایوان عوام کی ایسی آوازوں کو ترس رہا ہے مگر ججوں کی آوازیں بڑی نمایاں ہیں۔جو قابل افسوس ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500233 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More