سفارش پر تقرریاں، پولیس قیادت کی کمان کمزور پڑ گئی

 پنجاب کی نگران حکومت میں سیاسی سفارشوں سے تقرریوں اور تبادلوں کاوہ طوفان برپا ہے کہ پولیس کا محکمہ مکمل تباہی اور بربادی کا نمونہ بن کے رہ گیا ہے، سیاسی سفارشوں پرتبادلوں کے باعث پولیس محض سیاستدانوں کی خوشنودی میں مصروف ہو کے رہ گئی ہے اور عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنے اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہی، حالیہ چند ہفتوں میںصوبے بھر میں مرحلہ وار تعینات کئے گئے ایس ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوز سینئر پولیس افسران کی بجائیان سیاسی ناخدائوں کی خدمت کو اپنا اولین مقصد بنایا ہو ا ہے جنہوں نیانکی تقرری سے محض دودن پہلے فون کالز کر کے انہیں تعیناتیوں کی نوید سنائی تھی، ان میں سے بیشتر ایس ڈی پی اوز اور ایس ایچ اوز کے CDRڈیٹا چیک کئے جائیں توباآسانی ثابت ہو جائے گا کہ کس کا کس سیاسی آقا سے مسلسل رابطہ ہے، سیاسی سفارشوں کے حالیہ طوفان کانتیجہ یہ ہے کہ آئی جی پنجاب سمیت ڈی پی اوز، سی پی اوز کی ماتحت افسران پر کمان کمزور ہو چکی ہیاور وہ بے بسی سے عوام کی نہ صرف جمع پونجیاں بلکہ حوا کی بیٹیوں کی عصمتیںلٹتے ہوئے دیکھنے پر مجبور ہیں، سینئر افسران کے وعظ نصیحتیں اور ماتحتوں کے ساتھ سرکھپائی رائیگاں جارہی ہے، قانون کی عملداری مذاق بن گئی ہے ایک طرف گوجرانوالہ کے نواحی علاقوں میں ڈکیتیوں اور عصمت دری کے واقعات رکنے کانام نہیں لے رہے دوسری جانب نوشہرہ ورکاں،واہنڈو، فیروزوالا جیسے علاقوں میں اسلحہ سے بھری گاڑیوں کی کھلے عام آمدورفت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے چیلنج بنی ہوئی ہے، سیاسی لوگوں کی کاسہ لیسی کے باعث پولیس جرائم کو روکنے کی جانب کو ئی توجہ نہیں دے پارہی، چند کروڑ پتیوںکو انکا مال لوٹانے کو عام آدمی کی جان و مال کے تحفظ کانام نہیں دیا جاسکتا، سول انٹیلی جنس ادارے جو جرائم پیشہ عناصر کا پتہ لگانے اور انہیں جڑ سے اکھاڑدینے کے کام میں بنیادی کردار دا کرتے ہیں انہیں ٹکٹ ہولڈرز اور دیگر الیکشن لڑنے کے خواہشمندعوامی خادموں کی مقبولیت کے سروے کرنے پر لگا دیا گیا ہے، سفید کپڑوں والوں کی جانب سے منشیات فروشی کی صدقہ اطلاعات بھی آرہی ہیں،گوجرانوالہ کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران میں متنازعہ ساکھ رکھنے والی بعض شخصیات کی تقرریاں تباہی کی اینٹ ثابت ہوئی ہیں وہ افسران جو بدعنوانی کے الزامات میں ملک سے باہر مقیم رہے ہوں انہیں واپس لا کرمحکمے کی کمان دے دینا مضحکہ خیز ہے، یہی وجہ ہے جرائم پیشہ عناصر کو جیسیکھلی چھوٹ مل گئی ہے اور پولیس عوامی دبائو کو کم کرنے کے لئے فرسودہ پولیسینگ پر لوٹ آئی ہے، گوجرانوالہ میںڈکیتی کے بعد عصمت دری کے مسلسل واقعات نے پولیس کی جعلی کارکردگی کا پول کھول کے رکھ دیا ہے چنانچہ پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے اگلے ہی دن مبینہ ملزمان کی اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاکت والاروایتی اور کمزور سکرپٹ دوبارہ نکال لیا ہے، پولیس نے بندے پکڑے خود ہی جزا اور سزا کا فیصلہ کیا مقابلے میںپار کر دیئے اورسارے ضلع میں ہونے والی وارداتیں انہی کے نامہ ء اعمال میں لکھ دیں اور خوب داد بھی صول کی،یہ اس تباہ حال معاشرے کی تصویر ہے جہاں قانون کی عملداری کا جنازہ نکل چکا ہے، بہت سے مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کی طرح اس حالیہ کہانی کا سکرپٹ بھی انتہائی کمزور ہے ایسے وقت میں جب دنیا سوشل میڈیا کے انقلاب کے ثمرات سمیٹ رہی اور معلومات اور اطلاعات تک رسائی کی رفتار ناقابل یقین حدوں کو چھو رہی ہے ہماری پولیس ابھی تک اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاکت والی کہانی سے آگے نہیں جاسکی، پولیس نے بغیر تفتیش مکمل کئے، بغیر کسی فرانزک لیب سے رپورٹس کرائے اور بغیر کسی عدالت میں کوئی چالان پیش کئے لوگوں کو محض الزام لگا کر پھڑکانا ہی ہے تو پھرعدالتیں بند کردی جائیں البتہ کہانیوں میں تھوڑا بہت حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے پولیس کو چاہئے کہ کسی پروفیشنل لکھاری کی خدمات ہی حاصل کر لے جو کم ازکم ان کہانیوں کو ڈھنگ سے لکھ تو سکیں، حالیہ کہانی میں ایک گھر میں واردات کر کے دوبارہ انہی لوگوں کے ساتھ ڈکیتی بلکہ عصمت دری کا واقعہ منسوب کر کے ایک کامیڈی کی سی صورتحال پیدا کر دی ہیجبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جس دن دوسری ایف آئی آر درج کی گئی اور اسے وائرل کرایا گیا ہلاک کئے گئے تینوں ملزمان پولیس کے زیر حراست تھے، پھر کیسے دوسری بار اسی جگہ واردات کے لئے چلے گئے، مذکورہ ملزمان بااثر بھی نہ تھے چنگڑ برادری کے ان غریب نوجوانوں میں دو سگے بھائی تھے جنہیں سزا دلوانا یا ان کی مکمل تفتیش کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن انہیں گرفتاری کے اگلے ہی دن مبینہ پولیس مقابلے میں پار کر دیا گیا،پولیس کی جانب سے کمزور مئوقف کاعالم یہ ہے کہ اس پر پریس کانفرنس سے بھی گریز کیا گیا اس حوالے سے بعض ذرائع نے نہایت اہم معلومات دی ہیں کہ دوسری واردات کی کہانی امن و امان کی خراب صورت حال اور جرم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لئے گھڑ ی گئی تاکہ ملزمان کی ہلاکت کے بعد زیادہ سے زیادہ نمبر ٹانکے جاسکیںاس حوالے سیبعض سابق پروفیشنل افسران کا کہنا ہے کہ ایک جگہ سنگین واردات کرنے کے بعد ملزمان کا فوری طور پر دوبارہ اسی جگہ رخ کرنا غیر معمولی اور ناقابل یقین ہے، سوال یہ ہے کہ پولیس کی جانب سے تمام وارداتوں کے ملزمان قرار دئیے گئے ان مبینہ ڈاکوئوںکے لئے اس ایک واردات کے بعد ضلع کم ہو گیا تھا یا مزید وارداتوں کے لئیآبادی کم پڑ گئی تھی، واقفان حال کایہ کہنا ہے کہ پہلی و اردات کے بعدجب مبینہ ملزمان زیر حراست تھے تو دوسری واردات کی کہانی پولیس کیکسی جعلی دانشور نے معاملے کومزید سنگین بنانے کے لئے گھڑی تھی، پولیس کی یہ چتر چالاکیاں نئی نہیں ہیں، یہ فرضی اور جعلی کہانیاں نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگیاں برباد کر دیتی اور کتنے گھروں کے چراغ گل کردیتی ہیں پولیس والوں کو احساس نہیں کہ وہ ایف آئی آر نہیں لکھتے بلکہ جیتے جاگتے انسانوں کے مقدر سے کھیل رہے ہوتے ہیں، مبینہ طور پر زیر حراست ملزمان کو پار کرنا یہ بتاتا ہے کہ اگر چنگڑ برادری کے انتہائی کمزور پس منظر رکھنے والوں کو بھی عدالت سے نہیں دلائی جاسکتی تو پھر کسی طاقتور وڈیرے سیاستدان یا کسی امیر زادے کو تو قانون کے شکنجے میں لانا ناممکن ہی ہے پنجاب کے اعلیٰ پولیس افسران کو حالیہ جعلی پولیس مقابلے کی اعلیٰ سطحی تفتیش کرانی چاہئے اور ذمہ داران سے پوچھنا چاہئے کہ دوسری داردات کی ایف آئی آر درج کر کے فوری طور پر اسکی کاپی وائرل کرانے کے کیا مقاصد تھے، پولیس نے سارے ضلع کی وارداتیں ان ہی ملزمان پر ڈالی ہیں ضلع کے کئی تھانوں میں ہونے والی وارداتوں کی صرف ایک دن میں اتنی سرعت سے تفتیش کیسے مکمل کر لی، کیا ملزمان کا کوئی ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا، کیا ضلع بھر میں عصمت دری کی شکار خواتین کو ملزمان کی شناخت کے لئے بلانے کی زحمت کی گئی، یہاں تو یہ بھی اطلاع ہے کہ کہانی کو ڈرامائی تشکیل کے لئے مدعیان کو غائب کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیاتھا، پولیس نے قانون، جزا سزامرنے مارنے کے سب اختیارات اپنی مٹھی میں بند کر لئے ہیں،اندریں حالات مجھے کہنے دیجئے کہ پولیس محض کمزوروں کو دبانے کا ایک بدمعاش ا دارہ ہے جسکی سیاسی آقائوں،طاقتوروں اور رسہ گیروں کے سامنے چوں تک کرنے کی ہمت نہیں ہوتی، عوام کی نظروں میں اس کی اوقات اتنی رہ گئی ہے کہ گوجرانوالہ میں سی پی او کی جی ٹی روڈ پر موجودگی میں سر عام پتنگیں اڑائی جاتی رہیں، وکلاء کے طاقتور گروپ نے تھانے میں جا کر جس طرح اپنے ملزما ن چھڑوائے اور ایک اعلیٰ افسر نے مبینہ طور پرایس ایچ او کو وکلا کے سامنے ملزم کی طرح پیش کرنے اور اسکی معطلی کا وعدہ بھی کیا۔۔ یہ ڈوب مرنے کامقام ہے، پولیس کا قانون صرف غریب کو دبانے کے لئے رہ گیا ہے بدمعاشوں، لفنگوں، قبضہ و پریشر گروپوں نے تو اپنی متوازی حکومتیں قائم ہیں پولیس ان بدمعاشوں کے احکامات پر سارا دن لین دین کراتی ہے جس سے معاشرے مین یہ ناسور معزز بن کے بیٹھ جاتے ہیںمگر غریب کو کہہ دیا جاتا ہے کہ لین دین پولیس کا کام نہیں،کروڑوں غریب عوام غلاموں سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں اورظلم یہ ہے کہ صاحبان اقتدار انہی غریب عوام کے نام پر اپنی سیاست حکومت اور افسرشاہی قائم رکھے ہوئے ہیں، پولیس کہتی ہے جیسا معاشرہ ہے ویسی ہی پولیس ہے، منہ بند کریں۔۔ایساہر گز نہیں۔۔ معاشرے میں جرائم ہیں تو انہیں روکنے کے لئے پولیس کی ضرورت ہے اگر ہر طرف امن و آشتی ہو تو پھر آپکی توندیں بھرنے کے لئے عوام کے خون پسینے کی کمائی بہانے کی ضرورت ہی کیا ہے
 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 76273 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.