" />

کتاب زندگی "شیخ اکبر محی الدین ابن العربی"

کتاب زندگی
"شیخ اکبر محی الدین ابن العربی"

کتاب زندگی "شیخ اکبر محی الدین ابن العربی"

کئی عشرے ہوئے لاہور کے مکتبہ نبویہ پر شیخ کی کتاب"فتوحات مکیہ " کی جلد اول کا ترجمہ دیکھا تو خرید لیا۔ مگر اپنی کم علمی اور کوتاہ فہمی کہ شیخ کے افکار و نظریات اور فکروفلسفہ کے اسرار ورموز نہ پاسکے۔ یوں جلد اول تک محدود رہ کر مزید جلدوں کے حصول کی کوشش ترک کردی۔لیکن جب اسلامی فتوحات پر مبنی شہرہ آفاق ترک ڈرامہ سیریز "ارطغرل غازی " اردو ترجمہ کے ساتھ پاکستان میں نشر ہونا شروع ہوئی تو ایک مرتبہ پھر"ابن عربی " کی شخصیت میڈیا میں زیر بحث آئی ۔
کچھ احباب نے شیخ کی پُراثر علمی و روحانی کردار کو سراہا تو کچھ نے اپنی علمی استعداد اور ذہنی و فکری وسعت کے آئینے میں شیخ کے نظریات پر تنقید کرکے اُن کی ذات کو وجہ نزاع ٹھہرانے کی کوشش کی ۔اور انہیں عقیدہ ختم نبوت کے انکار کا مجرم ٹھہرایا ۔جس کی وجہ سے اچھے خاصے اہل علم بھی شیخ کی بعض عبارات پر نالاں دکھائی دئیے۔
اسی دوران ہمارے محترم پروفیسر ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی اور پروفیسر ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب کی مشترکہ تصنیف "شیخ ابن عربی کا تصور نبوت اور عقیدہ ختم نبوت" کی تقریب رونمائی میں شرکت کا موقع ملا تو پروفیسر زاہد صدیق مغل صاحب کی سادہ مگر پرمغز گفتگو نے ذہن کے سوتے کھول کر ابن عربی کی علمی ووروحانی شخصیت سے آشنا ہونے میں مدد دی۔پھر ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب کی عطا کردہ کتاب نے ان تمام غلط فہمیوں اور شبہات کا بھی ازالہ کردیا جو ڈاکٹر حافظ زبیر اور جاوید احمد غامدی کی وجہ سے خلجان کا باعث تھیں۔
آجکل جناب ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی اور ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب کی مشترکہ تصنیف "شیخ ابن عربی کا تصور نبوت اور عقیدہ ختم نبوت" زیر مطالعہ ہے۔ عنقریب اس پر کچھ لکھنے کا ارادہ ہے۔سردست شیخ ابن عربی کے حالات زندگی سے آگاہی کے لیے ضروری معلومات پیش خدمت ہیں۔
-----------------------
شیخ ابن عربی
اسلام میں ایک ایسے منفرد مصنف ہیں جن کی مخالفت اور موافقت میں بڑے بڑے لوگوں نے حصہ لیا اور آج بھی ان کی تصنیفات معرض بحث ہیں۔ مگرشیخ نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کی مخالفت کی پرواہ نہ کی اور نہ ہی کسی سے مناظرہ کیا ہے بلکہ خاموشی اور متانت سے لوگوں کی باتوں کو سنا اور اپنا علمی کام جاری رکھا۔ شیخ کے طرز تحریر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں غلط فہمیاں بھی پیدا ہوئیں۔ بعض نادان یورپ زدہ ابن عربی کے فلسفے یا حکمت کو افلاطون کا فلسفہ سمجھتے ہیں مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ تمام کتب جنید البغدادیؒ، بایزید بسطامیؒ، سہیل تشتری اور بزرگان اسلام کے اقوال، آیات قرآن مجید اور احادیث شریف کے حوالوں کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔ ابن عربی کی کتب میں مغربی فلسفہ کا کہیں ذکرنہیں ہے۔
-----------------------
ابن عربی
کسی معمولی شخصیت کا نام نہیں ۔ یہ بارہویں صدی کی عبقری شخصیت، عظیم فلسفی ، مفکر اور محقق ہیں ۔ دنیا انہیں شیخ ِاکبر ابن عربی کے نام سے جانتی ہے تقریباً 800 کتابوں کے مصنف ابن عربی کو صوفیاء نے ‘‘شیخ الاکبر ’’ کا لقب دے رکھا ہے۔عموماًآپ کے نام کے ساتھ ال نہیں لگایا جاتا کیونکہ آپ سے ایک صدی قبل ابن العربی کے نام سے ایک علمی شخصیت امام غزالی کے شاگرد قاضی ابو بکر ابن العربی اشبلیہ ہسپانیہ میں مشہور رہے ہیں۔ اس لیے دونوں شخصیات میں تمیز کرنے کی خاطر انہیں ابن العربی اور آپ کو ابنِ عربی لکھا جاتا ہے۔جناب ڈاکٹر زاہد صدیق مغل کے بقول:
"بعض لوگوں نے شیخ اکبر کو مالکی فقیہ ابوبکر ابن العربی (م 543 ھ) سے ممیز رکھنے کے لئے شیخ کے لئے "ابن عربی" کی کنیت استعمال کرنا شروع کردی۔ یہ ایک قسم کا تکلف تھا نہ کہ کوئی علمی عمل کہ جس پر کسی بھی بنیاد پر اصرار کیا جائے۔ اسلامی تاریخ میں متعدد شخصیات ہم نام، ہم کنیت یا ہم لقب رہی ہیں۔ مثلا "الرازی" تین لوگوں کے لئے مشہور ہے جن میں سے ایک طبعیات و بیالوجی وغیرہ کے لئے مشہور ہیں (ابوبکر الرازی)، دوسرے حنفی فقیہ (ابو بکر الرازی الجصاص) اور تیسرے شافعی متکلم ہیں، عام طور پر لوگ اس تیسری شخصیت ہی کو "امام رازی" کے نام سے پہچانتے ہیں۔ اسی طرح "النسفی" بھی تین مشہور شخصیات میں مشترک ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ تینوں متکلم ہیں اور تینوں ہی ماتریدی: ابو معین نسفی، ابو حفص نسفی (عقائد نسفیہ والے) اور ابوالبرکات نسفی۔ ان شخصیات کے مابین فرق کرنے کے لئے ایسا کوئی تکلف نہیں کیا جاتا جو شیخ الاکبر اور مالکی فقیہ کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔""
ابن عربی
کا پورا نام شیخ اکبر محی الدین محمد بن علی بن محمد بن احمد ابن عربی الاندلسی الحاتمی الطائی ہے۔ آپ حاتم طائی کی نسل سے تھے ۔جن کی اولاد میں سے ایک صوفی منش گھرانے نے اندلس میں آکر رہائش اختیار کر لی تھی ۔ابن عربی کے دادا محمد اندلس کے قضاۃ اور علما میں سے تھے۔ ابن عربی کے والد علی بن محمد فقہ اور حدیث کے آئمہ اور زہد و تصوف کے بزرگوں میں سے تھے۔اُن کا گھرانہ حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒ سے بہت عقیدت رکھتا تھا۔
ابن عربی
سترہ رمضان المبارک 560ھ ( بمطابق 1165ء)میں اندلس یعنی اسپین کے ایک شہر مرسیہ میں پیدا ہوئے۔ جس وقت آپ کی پیدائش ہوئی اندلس میں خانہ جنگی کا ماحول تھا اور کوئی مستحکم حکومت نہیں تھی ۔ ابن عربی کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مرذنیش کے دربار سے متعلق تھے۔ ابن عربی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کے قبضہ کرلینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے لشبونہ (حالیہ پرتگال کا دار الحکومت لزبن) ہجرت کرنا پڑی۔ جلد ہی آپ اپنے خاندان سمیت اشبیلیہ منتقل ہو گئے ، جہاں پر ابن عربی نے عام بچوں کی طرح تعلیم و تربیت پائی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا ۔
ابن عربی
کی ابتدائی تعلیم حسب دستور گھر پر اور دیگر مراحل آپ مرسیہ اور لشبونہ میں طے کر چکے تھے۔ اشبیلیہ میں آپ کو اپنے وقت کے نامور عالموں کی مجالس میں بیٹھنے کی سعادت ملی۔ تصوف، فقہ اور دیگر مروجہ دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ آپ کا بہت سا وقت صوفیاءکی خدمت میں گذرنے لگا۔اس دوران آپ حصول علم میں ہمہ تن مصروف رہے اور کئی علوم مثلاً قرات، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، ریاضی، فلسفہ، نجوم، حکمت میں دسترس حاصل کی۔ آپ نے اپنے دور کے نامور اور اعلی مقام اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔آپ کے مشائخ اور اساتذہ کی تعداد 70 تک پہنچتی ہے۔ابن عربی بچپن ہی سے نیک اور صادق القول تھے اور بہت ذہین بھی تھے۔ ان کی ذہانت کا چرچا جلد ہی دور دور تک پھیل گیا تھا اور لوگ اکثر ان کو ملنے آنے لگے تھے۔
ابن عربی
کی غیر معمولی صلاحیت اور علم کا چرچا اندلس میں پھیلنا شروع ہوا، تو مشہور فلاسفر اور قرطبہ کے قاضی القضاۃ ابن رشد نے ابن عربی کے والد جو ان کے دوست بھی تھےسے کہا کہ کسی وقت اپنے بیٹے کو میرے پاس بھیجیں۔ ابن شد ، ابن عربی سے مل کر بہت متاثر ہوئے۔ابتدائی عمر میں ابن عربی کا رجحان تصوف وتزکیہ کی جانب نہیں تھا۔ لیکن اس درمیان ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے آپ کی پوری زندگی کوبدل دیا۔آپ کے والد وزیر ریاست تھے اور آپ کے خاندان کا شمار ملک کے باوقار لوگوں میں ہوتا تھا ۔ اندلس کے صوبہ اشبیلہ کے حاکم کے یہاں شیخ ابن عربی کا اپنے والد کے ساتھ آنا جانا لگا رہتا تھا۔ جس وقت آپ کی عمر بیس برس کی تھی آپ اشبیلیہ کے کسی امیر کی دعوت میں مدعو تھے، جہاں پر آپ کی طرح دوسرے روساءکے بیٹوں کو بلایا گیا تھا۔ کھانے کے بعد جب جام گردش کرنے لگا اور صراحی آپ تک پہنچی اور آپ نے جام کو ہاتھ میں لے کر پینا چاہ رہے تھے کہ اچانک ایک شخص کی آواز ان کو سنائی دیتی ہے ۔
"نوجوان ….! تمہارا کام شراب پینا اور اس طرح کی مجلسوں میں شرکت کرنا نہیں ہے۔" اس واقعہ کے بعد ابن عربی نے جام ہاتھ سے پھینک دیا اور پریشانی کے عالم میں دعوت سے باہر نکل آئے ۔ دورازے پر آپ نے وزیر کے چرواہے کو دیکھا ، جس کا لباس مٹی سے اٹا ہوا تھا وہ بکریاں لیے چلا جارہا تھا۔ آپ اس کے ساتھ ہو لئے اور شہر سے باہر جاکر اپنا شاہانہ لباس اس چرواہے کو دیا اور اس کے بوسیدہ کپڑے پہن کر کئی گھنٹوں تک ویرانوں میں گھومتے رہے۔ دن اور رات ذکر الہٰی میں مصروف ہو گئے ، اس دوران ان کے دل کی کیفیت بدل چکی تھی۔ اپنی صوفی منش طبیعت کے ہوتے شاہی ماحول سے آپ کا دل اچاٹ ہونے لگا تو آپ نے ملازمت سے ہاتھ اٹھا لیا اور زہد و فقر کو اپناشعار بنایا۔آپ کے مرشد شیخ یوسف نے آپ کی سمت نمائی میں اہم کردار ادا کیا۔
تصوف میں اندلس کے بزگوں اور صوفیوں سے علم حاصل کرنے کے بعد انہیں احساس ہواہے کہ انہیں مزید علم کی ضرورت ہے چنانچہ ابن عربی نے حصولِ علم کی خاطر دور دراز کے سفر کیے، کئی علاقوں میں درس و تدریس کا سلسلہ قائم کیا۔وہ پہلی بار اندلس کی سر زمین سے باہر نکلے اورشمالی افریقہ پہنچتے ہیں۔ یہاں آپ کو ایسے صوفیا کی صحبت میسر آئی جنہوں نے آپ کی روحانی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی سفر کے دوران آپ کی ملاقات ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ساتھ ہوئی ، جن کی فرمائش پر آپ نے اندلس کے صوفیا کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس لکھی۔ انہوں نے شمالی افریقہ میں ایک خانقاہ بھی قائم کی ۔مگر جلد ہی ابن عربی اندلس لوٹنا پڑا ، جس کا سبب آپ کے والد کی وفات تھی۔ اندلس واپسی کے راستے میں ابن عربی مریہ کے مقام پر ، جہاں پر ابن عریف (مصنف محاسن المجالس) نے صوفیوں کے لئے تربیتی دائرہ قائم کر رکھا تھا پہنچے ، یہاں آپ نے اپنی کتاب مواقع النجوم صرف گیارہ روز کے اندر تصنیف کی۔ یہاں سے آپ آبائی وطن مرسیہ پہنچے ۔ وہاں والد کی جائیداد کو فروخت کرکے آپ اشبلیہ پہنچے اور چند برس گھروالوں کے ساتھ رہے۔
آپ پر گھر بار کی ذمہ داری آن پڑی تھی ہرطرف سے ابن عربی پر زور ڈالا جانے لگا کہ وہ ریاست کی ملازمت اختیار کر لیں، مگر آپ نے انکار کر دیا۔ آپ اپنی والدہ اور دو بہنوں کے ساتھ فاس (مراکش ) آگئے اور وہیں اپنی بہنوں کی شادی کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے۔ اور اپنی والدہ کی خدمت میں مصروف ہوگئے ۔ چند سال کے بعد ابن عربی کی والدہ بھی واصل بحق ہوگئی۔
اس کے بعد اپنی دیرینہ خواہش مکہ مکرمہ کی زیارت کے بارے میں سوچنے لگے ۔ والدہ اور بہنوں کی ذمہ داری کے سبب اس خواہش کو ملتوی کرتے رہے تھے ۔ 596ھ (1199 ء) میں ابن عربی نے اندلس سےمکہ مکرمہ کا سفر کیا وہ براستہ بجایہ (الجزائر)، تیونس، مصر، القدس (یروشلم) سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچے اور تقریباً دو سال وہاں قیام کیا ۔اس دوران وہاں کے علمی اور مذہبی حلقوں میں آپ کی وجہ سے ایک غیر معمولی ہلچل پیدا ہوئی۔ ابن عربی کی تصنیفی سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے اس دوران میں اپنی کتاب روح القدس کے مسودے کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ تین دوسری کتابیں ( مشکوٰۃ الانوار، حلیۃ الابدال اور تاج الرسائل) تحریر کیں۔ انہوں نے ایک معرکۃ الآراء کتاب الفتوحات المکیہ تصنیف کی۔ یہ تصنیف آپ نے 599ھ میں لکھنا شروع کی۔ جس کی تکمیل28 برس بعد 627ھ میں ہوئی۔ یہ کتاب 37 جلدوں ، 560 ابواب پر مشتمل ہے۔ عبد الوہاب الشعرانی (المتوفی 973ھ) نے فتوحات مکیہ کا خلاصہ لواقع الانوار القدسیہ المنقاۃ من الفتوحات المکیہ کیا۔ اس خلاصہ کا خلاصہ بعنوان الکبریت الاحمر من علوم الشیخ الاکبر بھی ہوا۔
ابن عربی
نے اپنی مختصرزندگی میں آٹھ سو سے زائد کتابیں لکھ ڈالیں۔اس دوران آپ نے حجازسے لے کر مراکش،حلب اورایران عراق سے لے کرترکی،مصراور یروشلم تک سفر در سفر تلاش حق،ریاضت اور تبلیغ میں وقت گزارا۔اس دور میں ذرائع ابلاغ بہت محدودہوتے تھے اور سفر دشوار گزار تھے،ان کٹھن مسافتوں میں بھی ان کا پڑھنے لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ابن عربی درس و تدریش اور تصنیف میں مصروف رہتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق وہ روزانہ ایک سو صفحات لکھتے تھے۔ ابن عربی کی تصنیف کردہ کئی کتابیں حوادث کی نذر ہوگئیں ۔ مندرجہ ذیل کتابیں کتب خانوں میں مل سکتی ہیں۔ فتوحات مکہ چار جلدیں، نصوص الحکم، شجرۃ الکون، مطالع انوار الہیہ، مشاہدہ اسرار، حلیہ ابدال، افاد مطالعہ جعفر، تفسیر صغیر، کتاب الاخلاق، محاضرۃ الابرار، الجلاہ امر محکم، مواقع الجنوم، المعارف الیہ عقدہ محضر، کتاب الازل، مراتب وجود، نقش القصوص، کتاب الہود، تاج الرسائل، عنقا العقرب اور کئی ایک کتب وغیرہ۔ فتوحات مکیہ اور نصوص الحکم یہ دونوں کتابیں ہر دور میں اولیاء اللہ و صوفیائے کرام کے درس و تدریس میں رہی ہیں ۔
بعض جگہ آپ کی کتابوں کی تعداد 651 دی گئی ہے ، جب کہ عثمان یحییٰ کی ببلیوگرافی میں آپ کی 846 کتابوں کے عنوان درج کئے گئے ہیں۔آج ابنِ عربیؒ کی پانچ سو سے زائد کتابیں محفوظ حالت میں ہیں اور کتابوں بھی چندصفحات پرمشتمل کتابچے یاپھررسالے کی طرح نہیں تھیں صرف ایک الفتوحات المکیہ کے مجموعی صفحات کی تعدادپندرہ ہزار ہے۔کہا جاتا ہے کہ آپ کے لکھنے کی رفتار فی روز تین جزو تھی۔ سفر یا حضر میں بھی تصنیف و تالیف کا کام جاری رہتا ۔
ابن عربی
عربی نظم و نثر پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ جو بات نثر میں بھی لکھنا محال ہو اس کو نظم میں بےتکلف بیان کردیتے تھے۔ شعر کہنے کا ملکہ فطری تھا اور اکثر و بیشتر فی البدیہہ اشعار کہتے تھے۔ عربی کی لغت اور محاورہ پر ان کو غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ آپ کے پانچ شعری مجموعے ‘‘دیوان’’ بھی ہیں ۔مشہور عرب مورخ ابن ذہبی لکھتے ہیں کہ ابن عربی کی جسارت، قدرت اور ذہانت کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ جب حمد و ثناء میں مشغول ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے ان کو اپنا بھی ہوش نہیں ہے۔ عشق الٰہی میں سرشار تھے۔ ان میں کئی اچھی صفات موجود تھیں ۔ ان کی روحانی تجلیوں اور کیفیت کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ فکر کی گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ انہیں بچپن سے ہی سچے خواب نظر آتے تھے۔
شیخ اکبر ابن عربی
نہ صرف سچے خواب دیکھتے تھے بلکہ خوابوں کی حقیقت اور افادیت کے بھی قائل تھے۔ ان کا قول ہے کہ انسان جیسا ہوتا ہے، ویسے ہی اس کو خواب آتے ہیں۔ اگر کوئی خواب میں بھی حاضر دماغ رہنا سیکھ لےتو اس میں بےپناہ قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ خوابوں کے ضمن میں ان کے کئے واقعات ملتے ہیں۔601ھ میں ابن عربی مکہ سے بغداد، موصل (عراق)، یروشلم اور دوسرے شہروں میں سفر کیا۔ دمشق میں ان کی ملاقات سلطان صلاح الدین ایوبی کے بیٹے الملک الظاہر سے ہوئی ، جس نے آپ کی بہت قدر کی۔604ھ میں آپ ایک مرتبہ مکہ میں وارد ہوئے اور ایک سال تک وہاں پر قیام کیا ۔ اس کے بعد آپ ایشیاءکوچک چلے گئے ، جہاں سے607ھ میں قونیہ پہنچے ۔ قونیہ اس وقت سلجوق سلطنت کی راجدھانی تھی اور ایک عظیم شہر تھا۔ یہاں پر سلطان کیکاؤس نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا ۔
قونیا میں آپ کی آمد مشرقی تصوف میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ بنی۔ جس کا وسیلہ آپ کے شاگرد اور سوتیلے بیٹے صدر الدین قونوی بنے، جن کی ماں سے آپ کی شادی ہوئی۔ صدر الدین قونوی، جو آگے چل کر تصوف کے بزرگوں میں شمار ہوئے، مولانا جلال الدین رومی کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔
آپ نے ابن عربی کی کتاب فصوص الحکم پر شرح لکھی۔صدرالدین کی ظاہری و باطنی تربیت ابن عربی نے کی۔ وہ کئی زبانوں کے ماہر اور تمام علوم میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ ان کی علمی استعداد کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جس زمانہ میں صدرالدین نے فتوحات مکیہ کا درس شروع کیا تو درس میں حاضر ہونے والے نوجوانوں میں حضرت مولانا جلال الدین رومی جیسا ہونہار طالب علم بھی موجود تھا ، جن کی شہرہ عالم تصنیف ‘‘مثنوی روم’’ لازوال شہرت کی حامل ہے ۔سلجوق سلطان علاءالدین کیقباد آپ کے مریدوں میں تھے اور بہت عزت کرتے تھے ۔قونیہ میں سلجوق سلطان علاء الدین ابن عربی کا معتقد تھا۔ اسی دور میں انا طولیہ کی سرزمین پر ترکوں کے ایک قبیلے کائی کا سردار ارطغرل (جس کے تیسرے بیٹے عثمان نے خلافت عثمانیہ قائم کی) اپنے قبیلے کے لیے ایک محفوظ اور معاشی لحاظ سے فائدہ مند مقام پر مستقل قیام کے لیے جدوجہد میں مصروف اور صلیبیوں اور منگولوں سے لڑرہاتھا۔ ابن عربی اور ارطغرل غازی کا زمانہ ایک ہے۔ ابن عربی اور ارطغرل کی ملاقات رہی اور اطغرل نے ابن عربی سے رہنمائی اور ان کی دعائیں لیں۔
ابن عربی
غیر معمولی صلاحیتیں اور خوبیاں رکھتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم اور کیفیت ظاہری و باطنی کے حامل تھے۔ شیخ کے طرز تحریر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں غلط فہمیاں ہیں۔ بعض نادان یورپ زدہ ابن عربی کے فلسفے یا حکمت کو افلاطون کا فلسفہ سمجھتے ہیں مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ تمام کتب جنید البغدادیؒ، بایزید بسطامیؒ، سہیل تشتری اور بزرگان اسلام کے اقوال، آیات قرآن مجید اور احادیث شریف کے حوالوں کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔ ابن عربی کی کتب میں مغربی فلسفہ کا کہیں ذکرنہیں ہے۔
ابن عربی
تاریخ اسلام میں ایک ایسے منفرد مصنف ہیں جن کی مخالفت اور موافقت میں بڑے بڑے لوگوں نے صدیوں سے حصہ لیا اور آج بھی ان کی تصنیفات معرض بحث ہیں۔ شیخ نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کی مخالفت کی پرواہ نہ کی اور نہ ہی کسی سے مناظرہ کیا ہے بلکہ خاموشی اور متانت سے لوگوں کی باتوں کو سنا اور اپنا علمی کامجاری رکھا۔ابن عربی نے دمشق میں 22 ربیع الثانی 638ھ مطابق 1240ء کو وفات پائی ۔ آپ کا مقبرہ دمشق، ملک شام کے شمال میں جبل قاسیون کے پہلو محلہ صالحیہ میں ہے ۔ اس جگہ کو اب محلہ ابن عربی بھی کہا جاتا ہے۔
ابن عربی
غیر معمولی صلاحیتیں اور خوبیاں رکھتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم اور کیفیت ظاہری و باطنی کے حامل تھے۔ شیخ کے طرز تحریر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں غلط فہمیاں ہیں۔ بعض نادان یورپ زدہ ابن عربی کے فلسفے یا حکمت کو افلاطون کا فلسفہ سمجھتے ہیں مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ تمام کتب جنید البغدادیؒ، بایزید بسطامیؒ، سہیل تشتری اور بزرگان اسلام کے اقوال، آیات قرآن مجید اور احادیث شریف کے حوالوں کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔ ابن عربی کی کتب میں مغربی فلسفہ کا کہیں ذکرنہیں ہے۔
ابن عربی
تاریخ اسلام میں ایک ایسے منفرد مصنف ہیں جن کی مخالفت اور موافقت میں بڑے بڑے لوگوں نے صدیوں سے حصہ لیا اور آج بھی ان کی تصنیفات معرض بحث ہیں۔ شیخ نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کی مخالفت کی پرواہ نہ کی اور نہ ہی کسی سے مناظرہ کیا ہے بلکہ خاموشی اور متانت سے لوگوں کی باتوں کو سنا اور اپنا علمی کام جاری رکھا۔ابن عربی نے دمشق میں 22 ربیع الثانی 638ھ مطابق 1240ء کو وفات پائی ۔ آپ کا مقبرہ دمشق، ملک شام کے شمال میں جبل قاسیون کے پہلو محلہ صالحیہ میں ہے ۔ اس جگہ کو اب محلہ ابن عربی بھی کہا جاتا ہے۔
ابن عربی
کی وفات کے تقریباً نصف صدی بعد ان کی تصانیف مشرقی ممالک میں گردش کرنے لگ گئی تھیں، عبدالوہاب شعرانی جیسے جید عالم نے ابن عربی پر ابتدا ئی کام کر کے آنے والوں کے لئے راستہ ہموار کیا۔ مغربی ممالک میں ابن عربی کے کثیرالابعاد افکار کا موازنہ کیا گیا۔ تیرھویں صدی عیسوی میں جرمنی میں ابن عربی پر سنجیدہ کام شروع ہو گیا تھا، لیکن مغرب کے د یگر علاقوں کو یہ علمی خزانہ بہت بعد میں نظر آنا شروع ہوا،ا لبتہ گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں مغرب کے دیدہ ور مستشرقین اورمشرقی علما و حکما ابن عربی کی طرف زیادہ متوجہ ہوئے اور اُ ن کی سحرانگیز شخصیت نیز افکارونظریات پر تحقیق و تنقید کے مطالعات پیش کئے۔ مغربی مفکرین نے انسان اور کائنات کے باہمی ربط ،مابعدالطبیعیاتی اور الہٰیاتی مسائل کی تعبیر و توضیح ، فلکیات ، فطری سائنس کے کئی نظریات ابن عربی کے فلسفے سے اخذ کیے۔آپ نے علم کی اخلاقی و عملی جہات پر زور دیا- ابنِ عربی کے لیے علم لامحدود وسعت کا مالک ہے- آپ کے خیال میں کوئی انسان علم کی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتا اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے-ابن عربی کا قول ہے کہ انسان علم کا حصول بنیادی طور پر دو طریقوں سے کرتا ہے- ایک اپنے وجدان سے اور دوسرا حواسِ خمسہ یا غوروفکر سےدرحقیقت ابنِ عربی اسلامی فکر کا عظیم سرمایہ ہیں،اُن کی علمی وراثت کی حفاظت اور تصنیفی قدروقیمت کا تعین کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 312469 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More