زندہ قوموں اور متحرک لیڈروں میں اور عام قوموں اور
روائیتی لیڈروں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔زندہ قوموں کے متحرک لیڈراپنا ہاتھ
ہمیشہ قوم کی نبض پر رکھتے ہیں۔ انہیں لوگوں کی مشکلات کا احساس ہوتا ہے۔
وہ ہمیشہ لوگوں کے مسائل کو محسوس کرکے اس کے فوری ازالے کا بندوبست کرتے
ہیں۔ان کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ آج پوری دنیا میں جو مہنگائی کی لہر
آئی ہے اس نے تقریباً ہر قوم کو امتحان میں ڈالا ہوا ہے۔ ہر ملک معاشی دباؤ
کا شکار ہے۔عوام حد سے زیادہ پریشان ہے۔وہ لوگ جن کا گزارا تنخواہ یا پنشن
پر ہے او ران کا تعلق نچلے یا درمیانے طبقے سے ہے، انتہائی تلخی اور
کسمپرسی سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے جیسی قومیں جہاں روائیتی لیڈر
براجمان ہیں۔ جہاں لیڈروں کو حالات کی سنگینی کا کم اور اپنی فلاح کا زیادہ
خیال ہوتا ہے، جہاں لیڈروں کی سوچ ایک خاص حد سے زیادہ جاتی ہی نہیں وہاں
ہر لحاظ سے دیوالیہ پن نظر آتا ہے ، مالی طور پر بھی، معاشی طور پر بھی اور
اخلاقی طور پر بھی۔وہاں حکومتیں عوام کو فقط داؤ پیچ دکھا رہی ہوتی ہیں۔
قانون اور آئین ایک مذاق بن کر رہ جاتا ہے۔ان میں اچھے ہونے والی کوئی بات
نہیں ہوتی۔ اچھی حکومتوں کی بات کرتے ہوئے مجھے چند زریں مثالیں نظر آتی
ہیں میں جن کا ذکر کروں گا۔
برادر اسلامی ملک مصر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے نفاد کے فقط چند
گھنٹے بعدوہاں کے صدر عبدالفتاح السیسی نے لوگوں پر معاشی دباؤ کم کرنے کے
مقصد سے اپریل سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کم از کم ایک ہزار مصری
پاؤنڈ کا اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں مختلف سرکاری ملازمین کی کم سے کم
اجرت یا تنخواہ 3500 پاؤنڈ سے 7000 پاؤنڈ تک ہو جائے گی۔مصری حکومت موجودہ
حالات میں شدید دباؤ کا شکار رہی ہے۔ان کی کرنسی تیزی سے اپنی قدر کھو رہی
ہے۔ڈالر اور دوسری غیر ملکی کرنسیاں دستیابی میں بہت کم ہیں۔افراط زر کی
شرح 29 فیصد سے زیادہ ہے۔عوام کی ضروری اشیا خورد و نوش کی قیمتیں عوام کی
رسائی سے باہر ہو رہی ہیں۔ چنانچہ پٹرول کی قیمت میں حالیہ اضافے کے بعد
صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور اس کے بعد سرکاری اور تنخواہ دار ملازمین کی
تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا کہ سفید پوش لوگ کچھ سکھ کا سانس لے
سکیں۔
ترکی میں 6-2-23 کوجو زلزلہ آیا ، اس کی شدت شامی سرحدوں سے ملحق علاقوں
میں7.8 تھی، جس میں 51000 ہزار افراد لقمہ اجل ہوئے۔ ان مرنے والوں میں
ترکی کے باشندوں کی تعداد 47000 تھی۔ ترکی زلزلوں کا گھر ہے جہاں سارا سال
زلزلوں کے جھٹکے محسوس ہوتے ہیں۔ پچھلی ایک صدی میں یہاں جو ہزاروں زلزلے
آئے ان میں 21 زلزلے ایسے تھے جن کی شدت 7یا اس سے زیادہ تھی۔ 6-2-23 کو
آنے والے زلزلے سے ترکی کے دس صوبے بری طرح تباہی سے دو چار ہوئے۔ 84.1 ارب
ڈالر کا نقصان ہوا، جس میں 70 ارب ڈالر کا نقصان تعمیراتی شعبے میں تھا۔بہت
سی عمارتیں زمیں بوس ہوئیں۔ بہت سارے ہسپتالوں، سکولوں،سڑکوں اور پلوں کو
شدید نقصان پہنچا۔ جس سب کی بحالی کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہے مگر بحالی
کے کام کی ابتدا ہوچکی ہے۔
ترکی ایک زندہ قوم ہے اور اس کے حکمران لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ وہ
حالات کی پرواہ کئے بغیر لوگوں کی فلاح کا سوچتے ہیں۔ زلزلے سے ہونے والی
اس تباہی کے باوجود ترکی میں نئے انتخابات کا اعلان ہو چکا کیونکہ ان
حکمرانوں کے نزدیک انتخابات ایک جمہوری معاشرے کا لازمی جزو ہیں ۔حالات
چاہے جیسے بھی ہوں،اچھی حکومتیں بد ترین حالات میں بھی لوگوں سے رابطہ ختم
کرنے یا بگاڑنے سے اجتناب کرتی ہیں ۔چنانچہ ترکی کے صدر طیب اردگان نے ان
بد ترین حالات میں بھی 14 مئی کو نئے عام انتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ
ہار جیت سے بے نیاز عوام کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔اس لئے کہ انہوں نے
اپنے عہد میں لوگوں کی خدمت کی ہے لوٹ مار نہیں۔ اسلئے انہیں عوام کا کوئی
خوف نہیں۔وہ عوام کاسامنا کرنے سے ڈرتے نہیں۔
ایک ہمارا ملک ہے جہاں حکمرانوں کو عوام کا احساس ہی نہیں۔قرون وسطیٰ کے
سپین میں لوگ کہتے تھے کہ اگردولت کو حاصل کرنا ہے تو اس کا بہترین طریقہ
جنگ ہے۔ آج کے لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ دولت چاہتے ہیں تو اس کا بہترین
ذریعہ سیاست ہے۔ سیاست ایک انڈسٹری ہے جو پیسے کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے
اور پیسے آ جاتے ہیں تو آپ ہر چیز خرید سکتے ہیں ۔ اپنے محلات، جاہ و جلال
اور اثر سے آپ باعزت بھی ہو جاتے ہیں۔ ہمارے جیسے ملکوں کے حکمران پیسے سے
احترام بھی خریدنے کی سعی کرتے ہیں۔ہمارے موجودہ حکمرانوں نے اقتدار اور
طاقت حاصل کرنے کے لئے ہر ایسا طریقہ آزمایا ہے۔انہوں نے کسی قومی ادارے کو
قابل عزت نہیں سمجھا، بے جا تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ مگرحکومت کرنے کا یہ
طریقہ دائمی نہیں ہوتا۔ سب سے پہلی چیز عوام کی حمایت ہے۔ عوام اگر خوش
نہیں، مشکلات کا شکار ہے، حکومت کو پسند نہیں کرتی تو وہ حکومت کیسے اچھی
کہلا سکتی ہے۔ عوام کو بھی حکومت کو جانچنے کے لئے دیکھنا پڑتا ہے کہ اس نے
ورثے میں ملنے والے حالات سے کتنا بہتر پروفارم کیا ہے۔آیا اس نے ورثے میں
ملنے والی مالی، انسانی، سماجی اور معاشی صورت حال کو پچھلی جانے والی
حکومتوں سے بہتر کیا ہے،اگر ایسا ہے تو یقیناً یہ ایک اچھی حکومت کہلائے گی
۔لیکن اگر اس حکومت نے نفرت، منافرت، خوف، مالی پریشانیوں اور جبر کو فروغ
دیا ہے، قومی اثاثوں کا ستیا ناس کیا ہے۔بڑوں وڈیروں، سرمایہ داروں اور
مفاداتی گروہوں کو مراعات اور تحفظ دیا ہے اور انہیں پروان چڑھایا ہے تو یہ
ایک بری حکومت ہے ۔ یہ وہ سادا ترین معیار ہے جسے سامنے رکھ کر ہر شخص
آسانی سے اپنی حکومت کو پرکھ کر اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کس طرح کی حکومت
کے دائرہ کار میں رہ رہا ہے۔
|