تمکنت بیگم جس عارضے میں مبتلا ہیں وہ احرام مصر کے معمے
سے مماثلت رکھتا ہے۔ یہ کوئ سال دو سال کا ذکر نہیں بلکہ ان کی زندگی کا
طویل حصہ اسکی نظر ہو چکا ہے۔ کمال حیرت تو اخلاص صاحب کی ہمت، وفا، احساس
اور محبت کے جذبے سے جڑی ہے۔ کہانی کے آغاز میں ہی میں اپنے قارئین کو مطلع
کر دوں کہ یہ کہانی حقیقت پر مبنی ہے ماسواۓ کرداروں، جگہ وغیرہ کے فرضی
ناموں کے۔
کہانی کی ابتداء لاہور میں سنہ 1993 سے ہوتی ہے۔ تمکنت بیگم جیسے ہی اعلٰی
اعزاز کے ساتھ اپنی ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرتی ہیں، والدین ان کے لیے کسی
مناسب رشتے کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔ ان کے لیے جو پہلا رشتہ آتا ہے وہ
اخلاص صاحب کا ہے جسے ان کے گھر والے فوراً ہی قبول کر لیتے ہیں کیونکہ منع
کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا۔
لمبا قد، گورا رنگ، خوش اخلاقی، فرمانبرداری، پنج وقت نمازی ہونا تو ان کی
شخصی خوبیاں ٹھہری۔ پیشے کے اعتبار سے گورنمنٹ کے اعلٰی ادارے میں ملازمت
اور ہومیو ڈاکٹر بھی۔ والدہ محترمہ بھی نیک اور صوم و صلٰوۃ کی پابند،
نہایت ہی سادہ اور شفیق طبیعت کی مالک۔ یوں ہاں ہوتے ہی چٹ منگنی، پٹ بیاہ
پر عملدرآمد ہوتا ہے۔
تمکنت بیگم بھی کسی طور اخلاص صاحب سے کم نہیں۔ گوری رنگت کے ساتھ لمبا قد۔
صرف پڑھائی میں ہی آگے نہیں بلکہ گھر کے سلیقے اور کھانا پکانے میں بھی
ماہر۔ یوں چند ماہ میں ہی عزت اور دعاؤں کی چادر اوڑھے تمکنت بیگم بیاہ کر
اخلاص صاحب کے گھرانے کا حصہ بن جاتی ہیں۔
اللہ کے کرم سے شادی کے پہلے ہی سال اخلاص صاحب اور تمکنت بیگم کے ہاں بیٹے
کی ولادت ہوتی ہے۔ جس کا نام شاہ زیب رکھا جاتا ہے۔ گھر میں ہر سو خوشحالی
کی مہک ہوتی ہے۔ اخلاص صاحب کی ڈیوٹی خاصی سخت ہوتی، پہلے دفتر اور پھر شام
میں اپنی پرائیوٹ کلینک کو وقت دے کر جب وہ گھر پہنچتے تو شاہ زیب سو رہا
ہوتا اور تمکنت بیگم ان کا انتظار کر رہی ہوتی۔ تمکنت بیگم کے بناۓ مزیدار
کھانے کھاتے ہوۓ خوش گپیاں بھی ہوتی، دن بھر کی مصروفیات کی تفصیل کا بیان
ہوتا اور کچھ مستقبل کے خوابوں کا ذکر بھی۔
اخلاص صاحب کے کام کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ انہیں اکثر دوسروں شہروں کیا،
بیرون ملک کا سفر بھی کرنا ہوتا۔ اخلاص صاحب کی غیر موجودگی میں تمکنت بیگم
نہ صرف گھریلو ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دیتی بلکہ باہر کے تمام
کاموں کا بیڑہ بھی خوش اسلوبی سے اٹھاتی۔
قریباً ایک سال بعد اللہ تعالٰی ان کو بیٹی کی صورت اپنی رحمت سے نوازتے
ہیں۔ بیٹی کو طربیہ کا نام دیتے ہیں۔ رحمت تو گھر میں آتی ہے مگر ساتھ ہی
ایک ایسی آزمائش کا آغاز ہوتا ہے جو تاحال جاری ہے۔ تمکنت بیگم ایک ایسی
بیماری کا شکار ہو جاتی ہیں جس کو سمجھنے سے ڈاکٹرز قاصر ہیں۔
اخلاص صاحب کی ذمہ داریوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ دفتر، کلینک اور
پھر گھر آ کر تمکنت بیگم کو کسی ڈاکٹر یا حکیم کے لے جانا ہوتا۔ گھر کی
صفائ، بچوں کی دیکھ بھال کے لۓ اخلاص صاحب نے خادمہ کا بندوبست کر دیا ہوتا
ہے مگر تمکنت بیگم کھانا خود ہی پکاتی کیونکہ اخلاص صاحب کو کسی اور کا
کھانا جو نہ بھاتا۔
اخلاص صاحب نے تمکنت بیگم کے علاج میں کوئ کسر اٹھا نہ رکھی۔ شہر کے ہی
کیا، دور دراز علاقوں کے حکیموں یا اللہ والوں کے پاس بھی جانا ہوتا تو
اخلاص صاحب اپنی تھکان کو پس پشت ڈال کر، بغیر تیوریوں میں شکن ڈالے انہیں
لے جاتے۔ مہنگی ادویات، اعلٰی ڈاکٹروں، مشہور حکیوں کے نسخوں اور پیرومرشد
کے تعویزوں سے ذرا فرق نہ پڑتا۔ یوں دن بدن تمکنت بیگم کی صحت گرتی جاتی
ہے۔ خوراک کم اور ادویات کا استعمال انہیں جیسے اندر سے کھوکھلا دیتا ہے۔
دوست، احباب، رشتہ دار سب ہی اخلاص صاحب کو مشورہ دیتے ہیں کہ بچے ابھی
چھوٹے ہیں آپ دوسری شادی کر لیجیۓ۔ آپ کی دوسری بیگم بچوں کا خیال رکھے گی
اور تمکنت بیگم کی خدمت بھی کرے گی۔ لیکن اخلاص صاحب کا ایک ہی جواب ہوتا
جو آج کے دور میں شاید ہی سننے کو ملے۔ تمکنت پہلے سے تو بیمار نہیں تھی،
میں بیاہ کر لایا ہوں تو اب یہ میری ذمہ داری ہیں، اگر رب تعالٰی نے انہیں
اور مجھے آزمائش کے لۓ چنا ہے تو میں انہیں اکیلا کیونکر چھوڑوں۔ اخلاص
صاحب کے یہ دو جملے جیسے تمکنت بیگم کے لۓ طاقت و توانائ کا مربہ ہوتے۔ وہ
اپنے آپ کو پھر سے صحت مند محسوس کرنے لگتی۔
ڈاکٹروں کے سپاٹ لہجے اور غیر تسلی بخش جوابات گو تمکنت بیگم اور اخلاص
صاحب کی ہمت توڑ دیتے مگر وہ اپنے اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوۓ۔
تمکنت بیگم کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا، ان کے لۓ اعلٰی کپڑے خریدنا، ان
کے بال بنانا، ان کو تیار کرنا اخلاص صاحب کے مشاغل ہی شمار ہوتے ہیں۔
تمکنت بیگم کی کمر جھک گئ ہے، ہاتھوں، پیروں کی طاقت کھو چکی ہے، بات کرنے
کا انداز تبدیل ہو گیا ہے مگر جو نہیں بدلا وہ تمکنت بیگم کی خوش مزاجی ہے۔
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اخلاص صاحب، تمکنت بیگم کو کہیں بھی ساتھ لے
جانے میں ذرا جھجھک محسوس نہیں کرتے، چاہے کوئ دعوت ہو یا شادی کی تقریب۔
سال گزرتے گۓ اور طربیہ کی شادی کا وقت آن پہنچتا ہے، جس کی ساری تیاری
اخلاص صاحب کرتے ہیں اور دونوں نہایت خوشی سے بیٹی کو رخصت کرتے ہیں۔
28 سال کا ایک طویل عرصہ تمکنت بیگم نے صرف اخلاص صاحب کے مثبت رویے،
ہمدردانہ خدمت، مزاح بھرے جملوں اور تسلی بخش، پرامید باتوں کے سہارے گزار
دیا اورابھی تک گزار رہی ہیں۔ کبھی کبھار وہ اخلاص صاحب کی بے انتہا محبت،
پرخلوص رویے اور وفا پر حیران بھی ہوتی ہیں مگر پھر سوچتی ہیں شاید یہ میری
کسی نیکی کا اجر ہو۔
اخلاص صاحب ریٹائیر ہونے کے بعد تمکنت بیگم کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف رہتے
ہیں۔ اب تو وہ بہت ذبردست کک بھی بن گۓ ہیں۔ روز مرہ کھانوں کے علاوہ گھر
پر ہونے والی دعوتوں کا اہتمام بھی اکیلے سر انجام دیتے ہیں۔ تمکنت بیگم
انہیں گائیڈ کرتی ہیں اور وہ مزیدار کھانے پکا لیتے ہیں۔ تمکنت بیگم کی
دلجوئ کی خاطر 10-7 بجے والے ڈرامے ان کے معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ باہر کی
مصروفیات بہت مختصر ہیں اخلاص صاحب کی کیونکہ وہ تمکنت بیگم کو بیماری کے
ساتھ تنہائ کے کڑے امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتے ہیں۔
آج بھی اخلاص صاحب اور تمکنت بیگم کسی معجزے کے انتظار میں ہیں کہ شاید کسی
کی دعا کا اثر ہو اور تمکنت بیگم صحت یابی کی سیڑھی دھیمے ہی سہی چڑھنا
شروع تو کریں۔ آپ سب سے گذارش کرونگی کہ جب بھی آپ دعا کے لۓ ہاتھ اٹھائیں
تو تمکنت بیگم کی صحتیابی کے لۓ بھی دعا کریں۔
مشہور کہاوت ہے کہ بیوی کی وفا پرکھنی ہو توشوہر کی تنگدستی میں پرکھو اور
شوہرکی وفا کا معیار ماپنا ہو تو بیوی کی بیماری میں ماپو۔ میرے خیال میں
تو اس کہانی کے اخلاص صاحب وفا کے معیار پر٪100 پورے اترتے ہیں۔ آپ سب بھی
میری اس بات سے یقیناً اتفاق کریں گے۔
کیا آپ نے دور حاضر میں ایسی وفا اور خلوص کی داستان سنی یا پڑھی ہے؟
|