ہمارے ننھیال اور دودھیال دونوں ہی طرف کے بزرگوں کا تعلق
حیدرآباد دکن سے تھا ۔ پتہ نہیں ان کا کیا رواج یا روایت تھی یا ان چاہی
بیٹی کو ہی بیٹا سمجھ لینے کا شوق کہ ہمارے خاندان کی کئی خواتین کے نام
بالکل مردوں والے تھے ۔ جیسے شوکت مقبول عابد قاسم نظام نعیم فہیم پاشا
قیصر خواجہ حشمت اور اشرف وغیرہ ۔ آپ یقین کریں یہ سب خواتین ہی کے نام تھے
اور وہ انہی سے پکاری جاتی تھیں ان کی تعلیمی اسناد اور دستاویزات پر بھی
یہی نام درج تھے ۔ ایسا نہیں کہ عابدہ کو عابد یا نعیمہ کو نعیم پکارا جاتا
ہو خود ہماری نانی اماں کا نام احمد بی تھا ۔ امی کا اصل اور زنانہ نام صرف
اسکول کی حد تک تھا باقی وہ پورے خاندان محلے اور اپنی سہیلیوں میں بی جان
کے نام سے بلائی جاتی تھیں ۔ مگر نانا ابا نے ان کا نام چُنو پاشا رکھ
چھوڑا تھا اور ساری زندگی امی کو اسی نام سے بلایا ۔ پھر عجیب اتفاق کی بات
ہے کہ امی کا بہت اچانک بالکل غیروں اجنبیوں میں رشتہ طے ہؤا اور جھٹ پٹ
شادی بھی ہو گئی تو ابو کا نام بھی پاشا تھا ۔ پھر اسی والی نسل سے لڑکیوں
کے مردانہ قسم کے ناموں کا سلسلہ متروک ہؤا اور خوب چن چن کر بہت خوبصورت
اور دلکش شاعرانہ قسم کے نام رکھے جانے لگے اکثر ہی فلمی ہیروئینوں کے
ناموں سے متاثر ہو کر رکھے گئے ۔ نام انسان کا اثاثہ اور شناخت ہوتا ہے وہ
خوبصورت اور منفرد ہو تو اس پر فخر بھی ہوتا ہے ۔
ہمارے نام کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے امی بیچاری سماجی رویوں سے خائف
اور مخصوص صنفی رجحانات سے متاثرہ ایک روایتی سی سوچ کی اسیر تھیں کہ پہلی
اولاد بیٹا ہونا چاہیے ۔ ان کو لگتا تھا کہ بیٹے کی ماں بن کر ان کا مقام و
مرتبہ بہت محفوظ اور معتبر ہو جائے گا ۔ مگر ساتھ ہی شاید انہوں نے ٹھان لی
تھی کہ کچھ نیا کرتے ہوئے وہ لڑکے کا نام لڑکیوں والا رکھیں گی یعنی تبسم ۔
جو کہ قواعد کی رُو سے تو مذکر ہے اور استعمال بھی مذکر کے طور پر ہوتا ہے
مگر بطور نام اسے صنف مؤنث کے لئے ہی مخصوص کر دیا گیا ہے بہت کم کسی مرد
کا پہلا اور پکارا جانے والا حقیقی نام تبسم ہو گا اکثر ہی لوگ اپنے نام کے
ساتھ شوقیہ طور پر بھی لگا لیتے ہیں جس کا کوئی دفتری اندراج نہیں ہوتا
وہاں گھر والوں کا رکھا ہؤا اصل نام ہی درج ہوتا ہے ۔ ویسے بھی نومولود کا
نام گھر والے ہی رکھتے ہیں عموماً دودھیال کی طرف کے بزرگ وغیرہ ۔ دیسی
سماج میں ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ بچے کے والدین اس کا نام اپنی مرضی اور
پسند سے رکھ لیں اس کا حق انہیں نہیں ہوتا ۔ پتہ نہیں کیسے ہمارے ماں باپ
کی چل گئی کہ بیٹی ہونے کی صورت میں ابو کو رانی نام پسند تھا امی نے انہیں
سمجھایا کہ یہ نام عرفیت کے طور پر بلانے کا ہوتا ہے دستاویزات پر درج
کرانے کا نہیں ۔ باہمی مشاورت سے اس کے ایک مناسب متبادل پر اتفاق ہو گیا
یعنی رعنا پھر دونوں نے اپنی اپنی ضد پوری کی اور دونوں ہی کی پسند کے
ناموں کو یکجا کر دیا گیا اور جھٹ پٹ اندراج بھی کرا دیا گیا سارا خاندان
منہ دیکھتا رہ گیا ۔ ویسے بھی ہم رواج کے مطابق اپنی نانی ہی کی طرف کے ایک
مشہور حیدرآبادی اسپتال میں پدھارے تھے ۔ میکے والے تو بیٹی کی خوشی میں
راضی تھے مگر سسرال والوں کی متفقہ رائے یہ تھی کہ یہ شہر (کراچی) کی
لڑکیاں ایسی ہی پٹاخہ ہوتی ہیں میاں کو اپنے اشاروں پر نچاتی ہیں حالانکہ
یہ کام امی مرتے دم تک نہیں کر سکی تھیں ۔
ابو پردیس نہیں گئے اور نہ ہی وہ گھر کے بڑے بیٹے تھے مگر انہوں نے روایتی
مشرقی پردیسیوں کی طرح اپنے خاندان کی کفالت میں بہت بڑا کردار ادا کیا اور
یہ کام خود اپنے بیوی بچوں کو نظر انداز کر کے اور ان کی حق تلفی کیے بغیر
ہو ہی نہیں سکتا ۔ ابو اپنے بڑے بھائی سے عمر میں دو سال چھوٹے تھے اصولاً
اُن کی شادی کے دو سال بعد ابو کی شادی ہو جانی چاہیے تھی مگر وہ آٹھ سال
بعد ہوئی ۔ اور جو بھائی ابو سے عمر میں آٹھ سال چھوٹا تھا اس کی شادی ابو
سے صرف دو سال بعد ہو گئی اور ابو ہی کی محنت کی کمائی سے ہوئی ، امی
جوائنٹ سسٹم کا حصہ نہ ہو نے کے باوجود اس کے جہنم کا ایندھن بنیں ۔
پھر اسی پُر خطر دور اور سندھ کے ایک دور افتادہ و پسماندہ گاؤں میں جانے
کیسے ہمارے بال و پر اور پُرزے نکلے اور قلمی نگارشات کا سلسلہ شروع ہؤا “
بچوں کا مشرق “ اور “ ہمدرد نونہال “ سے تو ہم نے امی ابو اور پردادا کے
مشترکہ نام کو اپنے نام کا حصہ بنا لیا ۔ قلم و قرطاس کا سفر ایک موڑ پر آ
کے رک گیا پھر برسوں بعد سوشل میڈیا اور “ ھماری ویب “ کے توسط سے دوبارہ
بحال ہؤا تو کسی وقت اتفاقاً ہی ہم پر انکشاف ہؤا کہ یہ نام انٹر نیٹ
سرگرمی کی حد تک صرف ہمارا ہے اور پوری دنیا میں ہمارے علاوہ اور کسی کا
بھی نہیں ہے ۔ گاہے گاہے گوگل کو کھنگالتے ہیں کہ شاید کوئی ہم نام نکل آئے
مگر خود اپنے سوا کہیں کوئی نہیں ملتا ۔ |