تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کی قیادت
کاغلبہ بڑھ رہاتھااسی طرح اسلام دشمن ہندواپنی اصلیت دکھانے پراترآئے تھے۔
انگریزجانتاتھاکہ مسلمانوں نے جوٹھان لی وہ کرکے دکھائیں گیا اس لیے وہ
مسلمانوں کو نہ صرف شک کی نگاہوں سے دیکھتے تھے بلکہ اپنی سخت پالیسیوں سے
کمزورکرنے کی ناکام کوشش بھی کرتے رہتے ۔ اس نازک موقع کو ہندوؤں نے غنیمت
جانا اور اسلام دشمنی میں انگریزوں کے آلہ کار بن کرخوب فائدہ
بٹورا۔کانگریسیوں کا بنیادی منشور چونکہ مسلمانوں کا خاتمہ تھا اس لئے ان
کا شرمناک رویہ کوئی انوکھی بات نہ تھا لیکن جب 1930ء میں گورنمنٹ آف انڈیا
ایکٹ کے تحت کانگریس کو ہندوستان کے چھ صدیوں میں اقتدار ملا تو اسے
مسلمانوں کے خلاف اور کھل کر کھیلے۔ کانگریس نے انگریز دوستی کو نظر انداز
کرتے ہوئے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے حکومت کی امداد کے لئے یہ شرط
رکھی کہ اسے مرکز میں حکومت سونپی جائے۔ وائسرائے نے اس شرط کو رد کر دیا
جس پر کانگریس نے بظاہر جنگ کی پالیسی سے اختلاف کیا اور چھ صوبوں کی وزارت
سے ہاتھ اٹھالیے۔اس پر قائداعظم نے اپنی سیاسی بصیر اور معاملہ فہمی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے پورے ملک پر کانگریس کے تسلط سے نجات پر 26 دسمبر1939ء کو
’’یوم نجات‘‘ منانے کا اعلان کر دیا۔ مسلمانوں کے ساتھ دوسری اقلیتی قوموں
نے بھی اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے یوم نجات منایا اور اس روز بھرپور
جشن کا اہتمام کیا۔ جس کا قدرتی طور پر یہ نتیجہ نکلا کہ کانگریس کا یہ
جھوٹا پراپیگنڈہ اور دعویٰ کہ اسے پورے ہندوستان کی نمائندگی حاصل ہے اپنی
موت آپ مر گیا۔ کانگریس نے شروعسے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو
تکلیف دہ اور شرمناک رویہ اپنا رکھا تھاکھل کرسامنے آگیا اور انہیں احساس
ہوگیا تھا کہ اپنی تہذیبی سلامتی اور قومی تشخص کی سلامتی کے لئے ایک آزاد
اور خود مختار ریاست ضروری ہے کہ اسی میں ان کی بقاء ہے۔ اس ضمن میں
قائداعظم کی زیر صدارت1938ء میں سندھ مسلم کانفرنس میں قرار داد پاس ہوچکی
تھی۔جس میں قائداعظم نے خطبہ صدارت میں کانگریس کے گھناؤنی سازش کوواضع
کرتے ہوئے مسلمانوں کو قومی اتحاد اور تنظیم کی ضرورت سے آگاہ کر دیا
تھا۔‘‘کانگریس کی بدمستیوں اور انگریز قوم کی زیادتیوں نے برصغیر کے
مسلمانوں کا عرصہ حیات جب تنگ کر دیا توآخر کار اس ضرورت کوسمجھتے ہوئے
مارچ1940ء لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کا پروگرام طے
ہوا۔ بدقسمتی سے اجلاس سے پہلے حکومت اور خاکساروں کے مابین تصادم کے نتیجے
میں بہت سے خاکسار شہید ہونے سے فضا انتہائی کشیدہ اور سوگوار ہوگئی۔ ایسے
حالات میں ملک گیر تنظیم کا ہندوستان بھر سے آئے مسلمانوں کے اجتماع سے
انتہائی حساس معاملات پر اجلاس منعقد کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ تاہم
قائداعظم نے جرات و ہمت کامظاہرہ کیا اور یوں مسلمانوں کے مستقبل کے لئے
نوید کا سامان یہ اجلاس بڑی کامیابی سے منعقد ہوا۔23 مارچ1940ء کو لاہور کے
منٹو پارک میں منعقد ہواجسے بعد میں مزار اقبال سے نزدیک ہونے کی بنا پر
اقبال پارک کا نام دیا گیا ہے۔ قائداعظم کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا جس
میں مسلم لیگ کی پکار پر ہندوستان گلی کوچے سے مسلمانوں نے شرکت کی۔ بنگال
کے مسلم لیگی راہنما مولوی ابوالقاسم فضل الحق نے قرار داد پیش کی جس میں
ہندوستان کے سیاسی مسئلے کا حل ملک کی تقسیم کو قرار دیا گیا۔قرارداد کے
الفاظ کچھ یوں تھے۔ ’’انتہائی غور و خوض کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے اس
اجلاس کی رائے یہ ہے کہ کوئی آئینی منصوبہ بغیر اس کے قابل عمل اور
مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا کہ وہ مندرجہ ذیل بنیادی اصولوں پر
مبنی ہو۔ یعنی یہ کہ حد بندی کرکے اور ملکی تقسیم کے اعتبار سے حسب ضرورت
ردوبدل کرکے مستقل واحدوں کو ایک ایسے منطقے بنا دیا جائے کہ وہ علاقے جن
میں مسلمان بہ اعتبار تعداد اکثریت میں ہیں جیسے ہندوستان کے شمال مغربی
اور مشرقی منطقوں میں، اس طرح یکجا ہو جائیں کہ وہ ایسی خود مختار ریاستیں
بنیں جن کے واحدے اندرونی طور پر بااختیار اور خود مختار ہوں یہ کہ ان
واحدوں میں اقلیتوں کے لئے ان کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی
اور دوسرے حقوق و مفاد کے تحفظ کے لئے ان کے مشورے سے بقدر ضرورت موثر اور
واجب التعمیل تحفظات معین طور پر دستور کے اندر مہیا کئے جائیں اور
ہندوستان کے دوسرے حصوں میں کہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں حسب ضرورت موثر
اور واجب التعمیل تحفظات ان کے اور دوسری اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی،
اقتصادی، سیاسی و انتظامی اور دوسرے حقوق و مفاد کی حفاظت کے لئے ان کے
مشورے سے متعین طور پر دستور کے اندر رکھے جائیں۔‘‘قرار داد پیش کئے جانے
کے بعد قائداعظم نے شرکائے اجلاس سے خطاب کیا۔ قائداعظم کا یہ خطبہ صدارت
سیاست کے نصاب میں ایک اچھوتے باب کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس سے مسلمانوں کے
موقف کی وضاحت کے ساتھ بہت سے مشکوک و شبہات دور ہوئے اور ایسے لوگ جو
تقسیم ملک کی تجویز کو ایک شاعر کی مجذوبانہ بڑ قرار دیتے تھے اپنا سا منہ
لے کر رہ گئے۔ انہوں نے فرمایا:’’آج ہندوستان میں جیسی ہماری حالت ہے، جیسے
بھی ہم ہیں، بہرحال ہم اپنے ماضی کے تجربات کو فراموش نہیں کر سکتے۔
بالخصوص کانگریسی حکومتوں کے صوبوں میں صوبائی دستور کے نفاذ سے حالیہ
برسوں میں ہم نے کافی تلخ تجربات حاصل کیے ہیں اور ان سے کئی سبق سیکھے
ہیں۔ قائداعظم نے دوٹوک لفظوں میں کانگریس اور حکمران ٹولے کو مخاطب کرتے
ہوئے کہا کہ مسلم لیگ کو ایسا کوئی بھی دستور قابل قبول نہ ہوگا جس میں اس
کی مشاورت شامل نہ ہوگی۔ انہوں نے فرمایا:’’ہندوستان کے اائندہ دستور کے
بارے میں حکومت برطانیہ کو کوئی بھی اعلان ہماری منظوری اور رضامندی کے
بغیر نہیں کرنا چاہیے۔قائداعظم نے اپنے خطاب کے اختتام سے پہلے آزاد اور
خود مختار ریاست کے مطالبہ کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے آزاد ملک میں اپنے
مقاصد کی تکمیل کے لئے لائحہ عمل کی وضاحت بھی فرمائی۔ حضر قائد اعظم کی
قیادت میں23 مارچ 1940ء کے سب سے بڑے اجلاس کا مثالی نظم و ضبط اور عوام کا
ٹھاٹھیں مارتا ہجوم مسلمانوں کی بیداری اور روشن مستقبل کی نوید تھا۔ ہندو
پریس نے کانگریسیوں کی ہمنوائی میں پیشہ ورانہ بددیانتی کا مظاہرہ کرتے
ہوئے قرارداد لاہور کی غلط تعبیروں کے ساتھ شکوک و شبہات پیدا کرنے کی پوری
کوشش کی اور اس طرح خود اسے قرارداد پاکستان کا نام دے ڈالا۔جس کے
بعدبابائے قوم کامزیدحوصلہ بڑھااورپیچھے مڑکرنہیں دیکھااورآزادی کے خواب
کوشرمندہ تعبیرکردکھایا۔
|