پاکستانی حکمران ملک میں بحران ختم کرنے کے بجائے بحران
پیدا کرنے کا جواز ہاتھ سے نہیں جانے دیتے. ابھی پاکستانی حکمران اپنی
مخالف اور حزب اختلاف جماعت تحریک انصاف سے روڈوں اور عدالتوں میں
برسرپیکار تھے . حکمران جماعت اور اس کے اتحادی جماعتوں نے عدالتی اصلاحات
کے نام پر اس مُلک میں ایک نئے بحران کے لیے 23 کڑوڑ عوام کو کرب میں مبتلا
کردیا ہے. اگر یہ سیاست ہے تو اس ملک اور اس کی عوام کے ساتھ زیادتی کی
انتہا ہے. ہر سیاسی جماتیں چاہے حکمران ہوں یا حزب اختلاف جب بھی ان کے
مفادات کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو اور ان کے اپنے مفادات کو جب کاری ضرب
لگے پھر جس تیزی سے یہ سب سر جوڑ کر چند گھنٹوں میں کابینہ کا اجلاس ہو یا
مشترکہ اسمبلی کا اجلاس کا انعقاد کرانا اور اس میں بلز پیش کرکے منظور
کرانا لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی لیڈران ہیں جن کے حکمراں ادوار میں کاروکاری،
بچوں کے اغوا و جسمانی تشدد، ماں حوا کی بیٹیوں کی عزت تار تار کرنا، انصاف
غریب کی دہلیز پر، رشوت و کرپشن کا خاتمہ، پولیس آئین میں ریفارمز ، کراچی
کی مردم شماری میں گھپلے، غرض ہر طرح کی مافیہ کا خاتمہ وغیرہ میں پر کبھی
نہ بلز لائے اور اگر لائے تو اُن پر سوائے تقریر کرکے اُنہیں فاعلوں میں ہی
تدفین کردی گیں . انہیں نہ کل عوام کی فلاح و بہبود کی فکر تھی اور نہ آنے
والے ادوار میں اور نہ ہی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے یہ اس طرح کی پھرتی
دیکھائیں گی.
مگراس وقت وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے حکومت
نے عدالتی نظام میں اصلاحات کے منصوبے کا بلز اپنے وفاقی کابینہ کے اجلاس
میں منظور کیا اور اس کو اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرانے کی جو کوشش
کی جارہی تھیں شاید رات تلک منظور بھی کروادیا ہوگا. اس سے پاکستان تاریخ
کے سب سے بڑے بحرانوں کی لپیٹ میں آجائیگا۔ پی ڈی ایم حکمران اتحاد کی یہ
عدالتی اصلاحات سے ملک کی جمہوریت اور عدالتی نظام میں کمزوری عیاں
ہوجائیگی ۔ اگرچہ پاکستان کے عدالتی نظام نے ہمیشہ حکومت کو اپنے اختیارات
سے تجاوز کرنے سے روکا ہے۔ اس پر ایک کاری ضرب لگے گی ان اصلاحات سے حکمران
جماعت کے لیڈران محفوظ ہو جائیں گے جن پر بدعنوانی کے سنگین الزامات کے تحت
مقدمہ زیر التوا ہیں . ان عدالتی اصلاحات کے بعد حکومت بلا رکاوٹ من چاہے
قوانین منظور کروا لے گی۔ ان عدالتی اصلاحات کو عوام حکومت کے اختیارات
بمقابلہ عدالتی اختیارات کے حوالے سے جانے گی جو اس مُلک کا ایک بہت بڑا
المیہ ہے.
ان عدالتی اصلاحات سے سپریم کورٹ کا قوانین کا جائزہ لینے کا اختیار کمزور
سے کمزور تر ہوجائیگا. جو پاکستان جیسے وراثتی سیاسی حکمرانوں کی من مانی
کا نہ رکنے والا سفر کی شروعات ہوجائینگی۔ کسی ایک پارلیمان میں سادہ
اکثریت سے عدالتی فیصلوں کو کالعدم بھی قرار دیا جاسکے گا۔
سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی میں حکومت کا اثر و رسوخ
بڑھ جائے گا۔ اس کمیٹی میں حکومتی نمائندگی بڑھ جائے گی جو ججوں کی تعینات
کرتی ہے۔
وزرا اپنے قانونی مشیران (جنھیں اٹارنی جنرل کی ہدایت ملتی ہے) کے مشورے
ماننے کے پابند نہیں ہوں گے۔ فی الحال انھیں قانون کے تحت ایسا کرنا پڑتا
ہے۔
ان عدالتی اصلاحات میں سے ایک کو منظور کر کے قانون بنا لیا گیا ہے۔ اس میں
اب یہ اختیار ختم کر دیا جائیگا کہ وہ وزیر اعظم کو یک و جنبش قلم نااہل
قرار دے۔
حکمران جماعت کا خیال ہے کہ عدلیہ ضرورت سے زیادہ آزاد خیال ہے اور نئے
ججوں کی تعیناتی کے نظام میں اس کی نمائندگی کم ہے۔
حکمران اتحاد حکومت کی طرف سے پیش کردہ متنازع عدالتی اصلاحات منظور ہو
جاتی ہیں تو سپریم کورٹ کے فیصلوں کی وقعت کم ہوجائے گی اور پارلیمنٹ عدلیہ
پر بالادست تصور ہوگی جو پاکستان جیسے ملک میں اس کی ابھی گنجائش نہیں.
اس سے عدالتی اصلاحات سے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار پر سیاستدانوں کی گرفت
بھی مضبوط ہو گی۔
حکمران جماعت کو روشن عیاں کی طرح دیکھنا چاہیے کہ”قانونی صورتحال واضح ہے.
عدلیہ کو تبدیل کرنے کے اقدامات میں کسی بھی طرح کی شمولیت سے گریز کرنا
چاہیے.
وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادی جماعت کے کندھوں پر یہ ذمہ داری ہے
کہ وہ قومی بحران کے وقت ایک وسیع اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش کریں جس کے
اندرون ملک اور بیرون ملک اثرات مرتب ہوں گے.
یہ عدالتی اصلاحات سپریم کورٹ کی بالادستی پر لگام ڈالنے کی ایک بہودہ کوشش
کی گیں ہیں ، کہ اس سے پاکستانی عدالتیں کمزور ہوں گی اور شہری آزادیوں کو
خطرہ لاحق ہو گا اور معیشت کو نقصان پہنچے گا۔
ملک میں عدلیہ پر قدغنیں لگانے کا متنازعہ بلز سوائے بحران پیدا کرنے کا
جواز پیدا کریگا اس وقت پاکستان اس کا متہمل نہں ہوسکتا.
وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کی حکومت کے اقدامات سے عدلیہ کی
ملک کے اندر اور باہر ساکھ مجروح ہوگی، عدالتی آزادی متاثر ہوگی اور انسانی
حقوق کا معاملہ پست تر ہو جائے گا جو پہلے ہی پست ہے جبکہ بدعنوانی بے لگام
ہو جائے گی.
حکمراں اتحاد سے اگر ُملک بھر میں وکلا سپریم کورٹ کی حمایت میں مظاہروں
اور ریلیوں پر باہر نکل آئے اور انتیظامیہ کی طرف سے سختی برتی گئی تو پھر
حکمرانوں کو گزشتہ دہائیوں میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی وکلا تحریک
بھی نظر سے گزری ہوگئ اس تحریک سے پاکستان نے سیاسی ، معاشی و خارجی محاز
پر پاکستان کو کتنا نقصان ہوا اور خاص کر کشمیر کے مسئلے پر جو پیش رفت
ہونی تھی وہ نہ ہوسکی کیونکہ غیر ملکی طاقتوں اور …… نے کشمیر مسئلے کو پس
پش ڈالدیا. پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کو گزشتہ
ادواروں کی وکلا تحریک نہ یاد ہو بھی تو حال ہی میں ایک کافر مُلک اسرائیل
کا ہی حال دیکھ لیں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی اس ہی طرح عدالتی
اصلاحات کا بلز اسمبلیوں میں پیش کرکے اور ایسے منظور کروانے کے لیے پورے
ملک میں وکلا ، سول سوسائٹی ، حزب اختلاف ، طلباء ، مزدور کسان ہر شخص
سراپا احتیجاج روڈ پر ہے اوراسرائیلی وزیراعظم اور انتیظامیہ سے حالت ابھی
تلک سنبھل نہیں پا رہے ہیں . پاکستانی وزیراعظم اور ان کے اتحادیوں کو
سوچنا چاہیے کہیں یہ عدالتی اصلاحات بعد میں تمھارے خلاف ہی استعمال نہ
ہوجایں . کیونکہ پاکستان کی یہ روایت ہمیشہ سے رہی ہے جانے والے پر وہی
قانون نافذ ہوتا ہے جو اس نے دوسروں کے لیے نافذ کیا ہوا ہوتا ہے.
|