تم ڈال ڈال، ہم پات پات

راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے کانگریس کا کھویا ہوا اعتماد بحال کردیا ہے اس لیے وہ بالکل بھی مدافعت میں نہیں جاتی۔ راہل گاندھی کے بیان پر کسی نے یہ نہیں کہا کہ ان کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ ان کی زبان پھسل گئی ۔ انہوں نے یہ کہا ہی نہیں ۔ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ ان کی بات کا یہ مطلب نہیں تھا وغیرہ وغیرہ ۔ کانگریسی تو یہ کہہ رہے ہیں کہ راہل نے جو کچھ وہ بالکل درست تھا ۔ کانگریس نے واضح لفظوں میں کہا کہ راہل نے کوئی غلط بات نہیں کہی ہے اور وہ معافی نہیں مانگیں گے۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں دیے گئے اپنے بیانات کے لیے راہل گاندھی کے معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کانگریس کے پاس فی الحال ان اعتراضات کا جواب دینے کے لیے ایک دبنگ صدر ہے۔ ان سے جب معافی سے متعلق پوچھا گیا تو کھرگے نے کہا جو لوگ اس طرح کا مطالبہ کر رہے ہیں انہیں پہلے وزیر اعظم نریندر مودی کے ان "توہین آمیز" بیانات پر غور کرنا چاہئے جو بیرونی ملکوں میں ہندوستانی عوام کے خلاف دئیے گئے ہیں ۔کھرگے نے سوال کیا جو لوگ راہل گاندھی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کررہے ہیں وہ ان سے پوچھنا چاہتےہیں کہ مودی جی کے غیر ملکی دورے کے دوران ’ بھارت میں جنم لینا اپنے آپ میں ایک گناہ ہے‘کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے ؟ کیاوہ ہمارے ملک اوراس کے عوام کی توہین نہیں تھی؟
کانگریس کے صدر ملک ارجن کھرگے نے مزید کہا کہ کیا اس بات سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے کہ آج ہندوستان میں جمہوریت دم توڑ رہی ہے، اظہار رائے اور تقریر کی آزادی کو کمزور کیا جارہا ہے، ٹی وی چینلوں پردباو اور سچ بات کہنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ اگر یہ جمہوریت کا زوال نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ اس کے جواب میں مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ راہل گاندھی نے صرف عظیم الشان ہندوستانی پارلیمان ہی نہیں بلکہ عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن کی بھی توہین کی ہے۔ان کاالزام تھا کہ "راہل گاندھی نے غیر ملکی سرزمین پر ملک کو بدنام کیا ہے۔ کیا ہندوستان کی توہین کرنا جمہوریت ہے؟ کیا ایوان کے چیئرمین کی توہین کرنا جمہوریت ہے؟ ہندوستان راہل گاندھی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتا ہے‘‘۔ بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی توہین کو ملک کی توہین سمجھتے ہیں اس کا اعتراف کرتے ہوئے ایرانی نے کہاوزیر اعظم نریندر مودی سے راہل گاندھی کی نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن اب انہوں نے ملک سے بھی نفرت کرنا شرو ع کر دیا ہے۔ انہوں نے ان غیر ملکی طاقتوں کو، جنہوں نے بھارت کو کبھی غلام بنارکھا تھا، اکسانے کی کوشش کی وہ بھارت پر حملہ کیوں نہیں کرتیں۔ یہ تو سراسر بہتان ہے کیونکہ راہل نے کبھی نہیں کہا لیکن بی جے پی والوں کی فطرت ثانیہ ہے کہ وہ جو منہ میں آئے بکتے چلے جاتے ہیں ۔

اسمرتی ایرانی کے مطابق ہندوستان کا ہر شہری راہل گاندھی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ وہ بیچاری ان لوگوں کا ملک شہری سمجھنے سے قاصر ہے جو سرکار کا مخالف ہو۔ ان کا مطالبہ ہے کہ راہل پارلیمان میں آئیں اور معافی مانگیں نیز ہندوستان کے خلاف غیر جمہوری بکواس نہ کریں ۔ اسمرتی ایرانی نے جس دن یہ مطالبہ کیا دوسرے دن راہل گاندھی نے ایوان پارلیمان میں آکر اسپیکر سے ملاقات کی اور کہا چونکہ ایوان کے اندر چار ارکان نے ان کے خلاف بیانات دیئے ہیں اس لیے انہیں جواب دینے کا حق ہے۔ عام روایت تو یہ ہے کہ جو کچھ ایوان کے باہر کہا جاتا ہے اس پر پارلیمان کے اندر بحث نہیں ہوتی اس لیے راہل کے بیان کو زیر بحث آنا ہی نہیں چاہیے تھا لیکن بی جے پی والوں نے اس کو لوک سبھا و راجیہ سبھا کے اندر اٹھا کر خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارلی ۔ اب اگر وہ راہل گاندھی کو جواب دینے کا موقع نہیں دیتے تو یہ حق تلفی ہےاور اس سے راہل کے موقف کی تائید ہوجاتی ہے۔ انہیں موقع دے دیا گیا تو پھر ایک باروزیر اعظم سمیت پوری سرکار کی شامت آجاتی ہے۔ اس طرح سرکار کی حالت چھوڑو تو بھاگتا ہے اور پکڑو تو کاٹتا ہے والی ہوگئی ہے ۔ موجودہ صورتحال میں مودی سرکار نےازخود اپنے ہاتھوں سے خود کو راہل کا ترنوالہ بنادیا ہے۔

بی جے پی نے اس مسئلہ کا حل یہ نکالا کہ راہل گاندھی کی رکنیت منسوخ کرادی جائے اور اس کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل ہو۔ بی جے پی رکن پارلیمان پون کمار بنسل نے اوم برلا سے ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ظاہر ہے اس میں اکثریت بی جے پی والوں کی ہوگی اور بعید نہیں کہ وہ راہل گاندھی کی رکنیت رد کردے لیکن اس سے کیا ہوگا ۔ وائناڈ کی سیٹ خالی ہوجائے گی ۔ وہاں ضمنی انتخاب ہوگا اور پھر سے راہل گاندھی پرچۂ نامزدگی داخل کریں گے۔ کیرالہ میں توبی جے پی کا تو نام و نشان نہیں ہے۔اس ہنگامی صورتحال کے اندر ہونے والے انتخاب میں بعید نہیں کہ سی پی ایم اپنا امیدوار ہی نہ اتارے۔ ایسے میں راہل گاندھی پہلے سے زیادہ دھوم دھام سے جیت کر ایوان پارلیمان میں جائیں گے اور بی جے پی کا یہ دعویٰ غلط ہوجائے گا کہ پورا ملک ان کے خلاف ہے ۔ اس کے برعکس یہ ثابت ہوجائے گا کہ ملک تو راہل کے ساتھ اور بی جے پی کے خلاف ہے۔ یہ ایک ایسا سیلف گول ہوگا جس سے بی جے پی کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے ۔ حکومت کو گھیرنے کے لیے کانگریس نےلوک سبھا میں وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف راہل اور سونیا پر ان کے تبصرے کو لے کر تحریک مراعات شکنی کا نوٹس دے دیا ہے جس میں نہرو کا نام استعمال نہ کرنے کی بات تھی۔ یعنی کانگریس نے مدافعت کے بجائے وزیر اعظم ہر ہلہّ بول دیا ہے اور اب انہیں اپنی صفائی دینے پر مجبور کیا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانچویں دن ایوان بالا میں بی جے پی سمیت سارے لوگوں کے مائک بند کرنے پڑے اور صرف التواء کا اعلان کرنے کے لیے اسپیکر کا مائک کھلا۔

راہل گاندھی کے خلاف امیت شاہ ابھی تک بالکل خاموش ہیں مگر انہوں نے دہلی پولیس کے ذریعہ ایک نوٹس بھیج کر بھارت جوڑو یاترا کے 45 دن بعد ان خواتین کے بارے میں معلومات مانگی ہیں جنہوں نے انہیں ہراساں کیے جانے کے بارے میں بتایا تھا۔ راہل گاندھی نے خواتین کی جنسی ہراسانی کا کی بابت کہا تھا کہ خواتین کو پولیس کے پاس جانے سے ڈر لگتا ہے۔ دہلی پولیس ان خواتین کی تفصیل مانگ رہی ہے۔خواتین کی جنسی ہراسانی اس قدر عام ہے کہ ابھی حال میں دہلی کے اندر انجلی کو بی جے پی منوج متل نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کئی کلومیٹر گاڑی سے گھسیٹا تھا ۔ دہلی خواتین کمیشن کی سربراہ سواتی مالیوال کے ساتھ دست درازی کی کوشش کی گئی۔ سابق چیف جسٹس این وی رمنا نے کھلے عام کہا تھا کہ عام لوگ مشکل میں پولیس کے پاس جانے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ بدعنوانی، جانبداری اور سیاسی لوگوں سے قربت کے سبب اس کی شبیہ بگڑ گئی ہے۔ بی جے پی کی قومی نائب صدر بیبی رانی موریہ نے سورج غروب ہونے کے بعدخواتین کو تنہا پولیس تھانے میں جانے سے منع کیا تھا اور مرد اہل خانہ کے ساتھ جانے کی تلقین کی تھی۔ اس وقت دہلی پولیس کو عار نہیں محسوس ہوئی اور اب شرم آرہی ہےتعجب ہے۔

یہ دراصل شاہ جی کی جانب سے ہراساں کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کے جواب میں کانگریس نے کہا کہ یہ نوٹس اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت گھبرائی ہوئی ہے۔ یہ نوٹس جمہوریت، خواتین کو بااختیار بنانے، اظہار رائے کی آزادی اور اپوزیشن کے کردار کو کمزور کرنے کی تازہ ترین کوشش بھی ہے۔ تصویریں گواہ ہیں کہ آمر خوفزدہ ہے۔ کانگریس پارٹی دہلی پولیس کو قانونی طریقہ سے جواب دے گی۔پارٹی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے اڈانی کے ساتھ تعلقات پر راہل گاندھی کے سوالات سے مودی حکومت بوکھلا گئی ہے اور اب اس غصے میں وہ پولیس کی آڑ میں چھپ رہی ہے۔ فی الحال مودی جی کے ستارے گردش میں ہیں۔ ایوان پارلیمان میں جب انہوں نے اپنی عادت کے مطابق کہانی کی ابتداء میں کہا دو دوست جنگل میں جارہے تھے تو نعرہ لگا ’مودی اور اڈانی‘ اس پر لوک سبھا ٹی وی کا کیمرا گھوم کر راہل گاندھی کی جانب آگیا اور بے ساختہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا۔ یہ حکومت’ سب کا ساتھ سب کا وکاس(ترقی)‘ کا نعرہ لگا کر آئی اور پھر ’ہم دو ہمارے دو ‘ میں بدل گئی لیکن اب اس میں سے بھی دو کم ہوگئے اور ’ہم بنے تم بنے ایک دوجے کے لیے ‘بچ گئے۔ مودی اور اڈانی کی رام ملائی جوڑی سنگھ پریوار کو کس کھائی رک لے جائے گی اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے ؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1447982 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.