اس وقت پاکستان کا عام شہری پورے عالم میں تماشابنا ہوئے
ہے ۔اسے ملکی معاملات کی بالکل سمجھ نہیں آ رہی۔وہ اپنے مسائل میں اتنا
الجھ چکا ہے کہ اس کیلئے سچائی تک پہنچنا انتہائی کٹھن ہو چکا ہے۔وہ جھوٹ
کو سچ اور سچ کو جھوٹ سمجھ رہا ہے۔اسے جو کچھ دکھا یا جاتا ہے وہ اسی میں
مستغرق ہو چکا ہے ۔وہ اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے اور جو کوئی اس کی رمق
دکھاتا ہے وہ اسی کا علم تھام لیتا ہے ۔اسے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ
کہنے والا کتنا سچا ہے؟اسکو مسائل نے اتنا الجھا دیا ہے کہ وہ اپنی ذہنی
صلاحیتوں کے استعمال سے بھی محروم ہو چکا ہے۔وہ جذباتی کیفیت کا غلام بن
چکا ہے۔اسے اس طرح کی کیفیت میں ایک خا ص قسم کی لذت کا احساس ہو تا ہے اور
وہ خود کو اس سے دور کرنے سے کترارہا ہے۔جھوٹ ،مکر و فریب اور بد دیانتی سے
معا شرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔اخلاقی دیوالیہ پن اپنی انتہاؤں کو چھو
رہا ہے ۔ کھوٹے کھرے اور نیک و بد کا تقابل نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔جو
درہم دینارکا مالک ہے وہی مقدر کا سکندر ہے ۔میزانِ دولت نے ایک نیا پیمانہ
تشکیل دے دیا ہے۔میزانِ عدل بھی طاقت کے سامنے جھکنے کی روائیت قائم کر رہی
ہے۔غریب کی کہیں شنوائی نہیں ہے ۔ اس کے لئے عدل و انصاف کے ساتھ معاشرے
میں زندہ رہنے کے سبھی باب بند ہو چکے ہیں۔وہ ہیجانی کیفیت کا شکار ہے۔اس
کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔اس میں عدمِ برداشت پیدا ہو چکی ہے۔اسے سمجھ
نہیں آ رہی کہ وہ موجودہ نظامِ حکومت کی بساط کس طرح الٹے کیونکہ موجودہ
نظامِ حکومت اس کے لئے کسی بھی قسم کی آسانیوں کی گنجائش نہیں رکھتا۔وہ
اپنی آنکھیں پھاڑے چاروں طرف دیکھ رہا ہے لیکن اسے گھپ اندھیرے میں کچھ بھی
دکھائی نہیں دے رہا۔وہ ایک قسم کی بغاوت کا شاخسانہ بنا ہوا ہے لہذا جو
کوئی نظام کو چیلنج کرتا ہے وہ اس کا دیوانہ بن جاتا ہے ۔جب ریاست انسانوں
کی ضروریات سے آنکھیں بند کر لے تو پھر عوام بھی ایسی ریاست سے بے پرواہ ہو
جاتے ہیں۔ان کے لئے سانسوں کی ڈوری کو قائم رکھنا ریاست کی بقا سے زیادہ
اہم ہو جاتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ عوام ریاست کا دم بھرنا اپنے لئے باعثِ فخر
سمجھتے ہیں لیکن اگر ریاست ان کی معاش اور زندگی کا تحفظ فراہم کرنے میں
ناکام ہو جائے تو پھر وہ ایسی ریاست سے دست کش ہو جاتا ہے۔ اس کیلئے ریاست
سے زیادہ اپنے خاندان اور افراد کی زندگی اہم ہوتی ہے۔جب ریاست اپنے شہریوں
سے آنکھیں بند کر لے تو پھر اس ریاست کا طویل عرصہ تک قائم رہنا ممکن نہیں
ہوتا۔،۔
اس وقت ہر سو غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ملکی بقا پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔اس
میں کوئی دو راے نہیں کہ ملک میں تعلیم کا فقدان ہے ۔عام آدمی ریاستی امور
کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔وہ خالی نعروں اور ان کی کشش کا اسیر ہو تا
ہے۔ہر وہ لیڈر جو زیادہ جھوٹ بولنے اور دھوکہ دہی کا ماہر ہوتا ہے اس کی
چرب زبانی عوام کو اپنی جانب کھینچنے کی قوت رکھتی ہے۔یہ ہمارا روزمرہ کا
مشاہدہ ہے کہ جھوٹ اور مکر وفریب پر اپنی سیاست کی بنیاد رکھنے والے اور
عوام کے جذبات سے کھلواڑ کرنے والے سیاستدان عوامی مقبولیت کو اپنی مٹھی
میں بند کر لیتے ہیں۔ہمارے سامنے شیخ مجیب الرحمن کا کردار اور بیانیہ
ہے۔شیخ مجیب الرحمن نے جس طرح عوام کو دھوکہ دیا اور ان کے جذبات سے کھلواڑ
کیا اور پھر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو دو لخت کیا وہ کسی سے مخفی
نہیں۔اگر تلہ سازش کیس سے شروع ہونے والا معاملہ دن بدن الجھتا چلا گیا اور
اس میں سیاست دانوں کے رویوں نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔چھ نکات کی
تدوین اور مغربی پاکستان سے نفرت کا آلاؤ اتنا تیز تھا جس سے ریاست کا تنِ
تنہا نپٹنا ممکن نہیں تھا۔اقتدار کے بھوکے کچھ سیاستدان اندر کھاتے شیخ
مجیب الرحمن سے ملے ہو ئے تھے اور عالمی قوتو ں کے آلہ کار تھے۔مقصد ریاست
کے حصے بخرے کرنا تھا جو ہو کر رہا۔ اگر تلہ سازش کیس کو اگر اپنے منطقی
انجام سے ہمکنار کر دیا جاتا تو شائد اس خطے کی تاریخ مختلف ہوتی۔ابتدا میں
عوام شیخ مجیب الرحمن کے مخفی عزائم سے آگاہ نہیں تھے لیکن جب سارا منظر
واضح ہوا تو اس وقت عوام کے بس میں کچھ بھی نہیں تھا۔عالمی سازش اور بھارتی
مداخلت نے سب کچھ الٹ کر رکھ دیا۔جو بنگلہ دیش نہیں چاہتے تھے انھیں بھی
وقت کے دھارے میں بہنا پڑا۔بنگلہ دیش ایک حقیقت بنا اور پاکستان کو بھی اسے
تسلیم کرنا پڑا۔عوام اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ عمومی سیاسی بیانیے ملکی
سالمیت پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔انتشار اور بد نظمی مضبو ط سے مضبو ط
قوموں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔عظیم رومن ایمپائر باہمی جنگ و
جدل اور اندرونی سازشوں سے زوال سے ہمکنار ہو ئی تھی۔جولیس سیزر کی قائم
کردہ عظیم سلطنت جب اس کے اپنے ہی دوستوں کے ہاتھوں تاراج ہوئی تو کچھ عرصہ
بعد اس کا نام ونشان مٹ گیا۔ریاست کئی حصوں میں بٹ گئی اور پھر باقی سب
تاریخ ہے ۔،۔
پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے پوری دنیا کی نگاہوں میں ڈارلنگ
بنا ہوا ہے۔عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ اس ریاست کو کمزورسے کمزور تر کر
دیا جائے تا کہ ان کے مفادات پورے ہوتے رہیں۔مالی معاملات کی ابتری اسی کا
شاخسانہ ہیں۔معیشت کی ابتری اور زرِ مبادلے کہ ذخائر میں کمی اسی کہانی کا
دیباچہ ہیں۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ ریاست کی بقا کس طرح قائم رکھی
جائے کیونکہ سیاستدانوں کی باہمی لڑائیاں اسے مزید ابتری کی جانب دھکیل رہی
ہیں۔آئے دن کی ریلیاں ،جلوس اور احتجاج ملکی معیشت کو ضعف پہنچا رہے
ہیں۔عدلیہ سیاسی مید ان میں کودی ہو ئی ہے اور عدلیہ کی مسند سے جو فیصلے
صادر کر رہی ہے جو بے اثر ثابت ہو رہے ہیں۔اس پر جس طرح کے الزامات لگ رہے
ہیں اور ویڈیوز اس کی ایمانداری کو جس طرح طشت از بام کرر ہی ہے وہ عوام
کیلئے باعثِ حیرت ہے۔عدلیہ کی دخل اندازی کے واقعات سے ہماری تاریخ کے
صفحات بھرے پڑے ہیں جس پر عدلیہ کو کبھی تاسف نہیں ہوابلکہ سچ تو یہ ہے کہ
ہر آنے والے چیف نے آئین و قانون کی اپنی ہی تعریف و تشریح کی جس سے ملک کو
نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا ۔جو کام عدلیہ کا نہیں ہے وہ اسی کو پایہ تکمیل
تک پہنچانا چاہتی ہے جس سے ملکی مسائل مزید الجھتے جارہے ہیں۔اس میں کوئی
دو رائے نہیں کہ آئین عدلیہ کے فیصلوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن عدلیہ کا
بھی تو کام ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ اپنے منصف سے تجاوز نہ
کرے ۔ اس کیلئے ذاتی پسند و نا پسند سے اجتناب ضروری ہو تا ہے۔یہ سچ ہے کہ
عدلیہ دباؤ کا شکار ہو تی ہے لیکن دباؤ کوسنبھالنے سے ہی تو انسان مہان
بنتے ہیں۔جب کٹھ پتلی بن کر ہی فیصلے صادر کرنے ہیں تو پھر عدلیہ کے فیصلوں
کو کون تسلیم کرے گا؟؟ریاستی اداروں کو جلد یا بدیر کوئی مشکل فیصلہ کرنا
ہو گا وگرنہ یہ ریاست اتنی کمزور ہو جائے گی پھر کسی کیلئے بھی اسے
سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا۔تمام ادارے ایک میز پر بیٹھیں اور اس ملک کو
نئی سمت عطا کریں اور اگر کوئی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے ملکی مشاورت سے
بغاوت کرتا ہے تو اس کیلئے ریاستی طاقت کوحرکت میں لایا جائے۔کوئی فرد کتنا
ہی بڑا کیوں نہ ہو وہ ریاست سے بڑا نہیں ہوتا۔ملکی بقا ہر شہری سے بلند د
بالا ہوتی ہے ۔ ریاست کو بچانے کی کوششیں تیز ہو نی چائیں وگرنہ سب کچھ
انتشاور اور بد حالی کے سیلاب کی نظر ہو جائے گااور ہماری داستان تک نہ
ہوگی داستانوں میں۔،۔
|