توشہ خانہ کیس

توشہ خانہ کیس اس قدر سنگین ہو جائے گا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔عدالت کا ایک عام سا سمن تعمیل کرانے کے لئے جو ہتھکنڈے استعمال ہوئے وہ حیران کن ہیں۔ حکومت نے عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک پر باقاعدہ لشکر کشی کی ۔لوگ عمران خان کی حفاظت میں کھڑے ہو گئے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہماری مسلح فورسز نے نہتے عوام سے شکست فاش کھائی اور پیچھے ہٹ گئیں۔اچھا کیا کہ مزید کوشش کرتیں تو دونوں طرف سے بہت بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا خدشہ تھا۔عمران اور عوام کو تو جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہوتا۔مگر ہمارے اداروں کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جاتی۔ ایسے تصادم میں زیادہ نقصان ہمیشہ انتظامیہ کا ہوتا ہے۔ پولیس اور رینجر کے ذمہ داروں نے بہت اچھا کیا کہ وقتی طور پر اپنا دماغ استعمال کیا اور بہتر انداز میں اپنا اپریشن ملتوی کر دیا ورنہ نقصان بھی بہت ہوتا اور اداروں کو شرمندگی بھی بہت ہوتی۔یہ پہلا موقع ہے کہ ریاست نے اس بری طرح عوام پر چڑھائی کی اور عوام کوسلام کہ انہوں نے اس جبر کو قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ چٹان کی طرح ڈٹ کر عمران کا دفاع بھی کیا اور انتظامیہ کو بھر پور جواب بھی دیا۔

میں نے چند دن پہلے ایک بات چیت میں کہا تھا کہ ہجوم جب موب (بھگدڑ شدہ بھیڑ) میں تبدیل ہوتا ہے تو وہ بغیر قیادت ہوتا ہے۔وہ کسی لیڈر کی پرواہ نہیں کرتا۔ قیادت ہو بھی تو وہ اس کی ہدایات کا انتظار نہیں کرتا، وہ ہر لیڈر کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے اور اس کے بعد وہ بھیڑ کسی کے قابو میں نہیں ہوتی۔ اس وقت جو صورت حال بن چکی ہے ، ہماری ہر چیز اس بھیڑکی زد میں ہے جس سے بچنے کے لئے ہمارے اداروں کو بہت محتاط ہونا پڑے گا ورنہ یہ سب کچھ پھیل جائے گا۔لیکن لگتا ہے کہ ہمارے ادارے جان بوجھ کر عوام کو مشتعل کرکے اپنے کچھ خاص مقاصد حاصل کرنے کے چکر میں ہیں جس میں انہیں تو شاید ناکامی ہی ہو مگر اس ملک کا وہ مزید ستیاناس کر جائیں گے۔ عدلیہ کو بھی فیصلے دیتے ہوئے حالات کی سنگینی پر بھی غور کرنا ہو گا۔ ہمیں بھیڑ کی تخریبی کاروائیوں سے بچنا اور نا بالغ لیڈروں کو غیر ضروری بیانات سے روکنا ہو گا۔ عدالت کے فیصلے کے بعد پیشی کے لئے عمران خان کے اسلام آبادجانے کے دوران پولیس نے اسلام آباد عدالت کے باہر جس طرح عوام کو مشتعل کیا، ہجوم پر حملے کی ابتدا کی ،وہ بھی قابل افسوس ہے۔صاف لگتا ہے اسٹبلشٹ کومعاشی حالات سے کوئی دلچسپی نہیں۔وہ کسی ایسے شخص کو قبول کرنے کو تیار نہیں جو اس کا نافرماں ہو اور جو اس کی ہٹ دھرمی کو چیلنج کر سکے وہ اس شخص کو منظر عام سے ہٹانا چاہتی ہے ۔ لیکن موجودہ حالات میں عوام کے سامنے اسٹبلشمنٹ کو شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔اسٹبلشمنٹ کی ایسی ہر کوشش اس ملک کو ایک بھڑکتی آگ کی طرف لے جائے گی۔جسے روکنا شاید کسی کے بس میں نہ ہو۔

عمران کے گھر پر حملے کا کوئی جواز نہ تھا۔ یہ عمل بھی عوام کو مزید مشتعل کرنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ کسی کے گھر میں اس طرح توڑ پھوڑ کرنا ، خود کچھ قابل اعتراض چیزیں رکھ کر انہیں برامد کرنا اور کسی لیڈر کو دہشت گرد ثابت کرنا،ایک انتہائی ہلکی حرکت ہے ۔ ملک جب معاشی دگر گوں کی حالت میں ہو تو حکومتی توجہ کاواحد مرکز معیشت ہی ہونا پائیے مگر عمران اس وقت حکومت کے سر پر سوار ہے اور حکومت کی ساری توجہ ہی معیشت کی بجائے عمران پر ہے۔ اس کے خلاف سو کے قریب کیسز بھی ایک مذاق سے کم نہیں۔ اتنے کیسز ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہوتے ۔ ایسے فرضی کیسوں میں ضمانت آسانی سے اس لئے ہو جاتی ہے کہ کیس میں کوئی جان نہیں ہوتی اور ججوں کو بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب انتقامی کاروائی ہے۔کوئی کتنا بڑا مجرم ہو، ایک دو سیریس کیس ہی اس کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں۔ مگر اتنے کیسوں کی حماقت کے عمل سے حکومت مزید کمزور ہو رہی ہے۔ ویسے بھی حکومت اسٹبلشمنٹ کے ایک مہرے سے زیادہ کچھ نہیں۔مگر مہرے میں کچھ تو غیرت ہوتی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی۔

توشہ خانے کے بارے رولز کا اگر آپ مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کیس تو جعلی ہے اور اسے زبردستی بنایا گیا ہے۔رولز کے تحت ملنے والا گفٹ اس شخص کی ذاتی ملکیت ہوتا ہے وہ جو چاہے اس سے کرے۔ البتہ حکومت کے بنائے رولز کے تحت ہر گفٹ پہلے توشہ خانے میں جمع ہوتا ہے۔ توشہ خانے کا انچارج اس کی مارکیٹ قیمت کا اندازہ لگاتا ہے جو عملاً مارکیٹ سے کافی کم ہوتی ہے۔ جسے گفٹ ملا ہوتا ہے وہ اس اندازہ لگائی کی قیمت کا بیس یا پچیس فیصد ادا کرکے وہ گفٹ لے سکتا ہے۔ اگر وہ گفٹ وصول نہ کرے تو کسی دوسرے کو اسی قیمت پر حکام کی اجازت سے دیا جا سکتا ہے۔کچھ ہزار تک اندازہ کردا گفٹ بغیر کسی معاوضہ کے گفٹ وصول کرنے والے کو مل جاتا ہے۔قیمت ادا کرنے یا رولز کے تحت چھوٹا گفٹ وصول کرنے کے بعد وہ گفٹ اس شخص کی ملکیت ہوتا ہے اور یہ اس کی صوابدید ہے کہ وہ گفٹ کو جیسے چاہے استعمال کرے، کسی اور دے دے یا بیچ دے۔ رولز کے تحت اس پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ میں حیران ہوں کہ موجودہ توشہ خانے کے بارے گھڑی کا کیس ان لوگوں نے بنایا ہے کہ جنہوں نے گھڑی ہی نہیں گھڑیوں کے کارخانے تک گفٹ میں موصول کرکے بیچ کھائے ہیں۔گوئبلز کے یہ جانشین اس ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے اور لگاتار بولتے ہیں کہ عام آدمی کو سچ لگنے لگتا ہے۔ابھی نوے کی دہائی کی لسٹ آنی ہے جس میں ان لوگوں کی توشہ خانے کی لوٹ ماربہت واضع ہو جائے گی۔مگر اپنے جرموں پر نہ انہیں پہلے شرم آئی تھی نہ اب آئے گی۔

موجودہ حکومت کی شائع کردہ 446 صفحاتی رپورٹ کے مطابق آصف علی زرداری نے کل 181 گفٹ وصول کئے ۔جن میں ماسوائے دو یا تین کے ،جن کی اندازہ کردہ قیمت کا دس فیصد سے بھی کم ادا کیا گیا، باقی تمام مفت وصول کئے۔2013 سے 2017 کے دوران نواز شریف نے 55 گفٹ وصول کئے جن میں ایک کی قیمت 41 ملین روپے تھی۔ وہ گفٹ جن کی قیمت لگائی گئے 10 سے15 فیصد قیمت میں خریدے گئے۔شاہد خاقان عباسی نے 27 گفٹ وصول کئے ۔ جن میں اس کی بیگم کو ملنے والے ایک جیولری سیٹ کی قیمت 100 ملین تھی۔ پرویز مشرف نے کل 126 گفٹ وصول کئے جن میں کچھ کے لئے اندازہ کردہ قیمت کا 15 فیصد ادا کیا گیا۔عمران خان اور اس کی بیگم نے اپنے چار سالہ عہد میں 112 گفٹ وصول کئے جن میں وہ تین گھڑیاں بھی شامل ہیں جن کے بارے حکومت نے شور مچایا ہوا ہے۔ کیس ایک دفعہ درج ہو جائے تو اسے ختم کرنا کچھ وقت ضرور لیتا ہے مگر اس میں جرم والی بات نظر نہیں آتی اور میرا اندازہ ہے کہ اگر اس کیس کو ایک دو تاریخوں پر سن لیا جائے تو یہ اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ البتہ وہ ذہن جس کی یہ کیس پیداوار ہے اصل مجرم ہے جس کی وجہ سے ملک کے حالات میں اتنا بڑا تلاطم نظر آرہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ جب بھی کوئی نئی حکومت آئی ،اس شخص کو مجرم قرار دیا جائے گا اور اسے سزا ضرور ملے گی۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500069 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More