خوشی اور غم کی آنکھ مچولی

وطن عزیز میں آئے دن وزیر اعظم مختلف حوالوں سے سورن کال کی دہائی دیتے رہتے ہیں ۔پچھلے سال مئی میں ’من کی بات‘ میں مودی جی نے کہا تھا کہ اس مہینے ملک میں یونیکورن کی تعداد 100 تک پہنچ گئی۔ یونیکورن کی اصطلاح خود وزیر اعظم نے بھی اس خطاب کی مشق کے دوران پہلی بار پڑھی ہوگی اس لیے انہوں نے وضاحت فرماتے ہوئے کہا کہ یونیکورن یعنی سالانہ ساڑھے سات ہزار کروڈ روپئے سے زیادہ کاروبار کرنے والی کمپنی ۔ ایک کروڈ چالیس لاکھ کی آبادی میں اگر سولوگوں کا کاروبار اتنا زیادہ ہو اور اسیّ کروڈ لوگ پانچ کلو چاول اور ایک کلو چنے کے محتاج ہوں تو اس میں کون سی خوشی کی بات ہے؟ وزیر اعظم کے پاس اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ کرکٹ کے میدان پر ٹیم انڈیا کے کسی بلے باز کی سنچری سن کر لوگ خوش ہوتے ہوں گے لیکن ہندوستان نے ایک اور میدان میں سنچری بنا ڈالی ۔ اس منطق کے مطابق ایک کھلاڑی کی سے سنچری سے عوام کا کوئی والے فائدہ نہیں ہوتا پھر بھی وہ خوش ہوتے ہیں ۔ اسی لیے سو لوگوں کے ہزاروں کروڈ کمانے سے بھی عام آدمی کو خوش ہونا چاہیے ۔

اس منطق میں ایک خطرہ ہےکہ دوسروں کی خوشحالی پر خوش ہونے والے ان کی بدحالی پر غمگین بھی ہوجاتے ہیں ۔ گوتم اڈانی چند ماہ قبل دنیا کا دوسرا سب سے امیرترین آدمی تھا ۔ اس پر وزیر اعظم بہت خوش تھے انہیں توقع تھی کہ جلد ہی وہ پہلے نمبر پر آجائے لیکن اب وہ پچویسیں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ اس کی بدحالی پر مودی جی سمیت ان کے سارے بھگت افسردہ ہو گئے ہیں ۔ شایدیہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے خوش کن ممالک کی فہرست میں ہندوستان 121پر پہنچ گیا ہے۔ اڈانی جیسے لوگوں کی دولت کا اندازہ کرنا بہت آسان ہے لیکن احساس و جذبات کی پیمائش کا کوئی آلہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے کسی ملک کے لوگوں کی خوشی کا اندازہ لگانا نہایت مشکل کام ہے۔ موجودہ دور کا انسان مسکراہٹ کو ناپنااور اور آنسو کو تولنا چاہتا ہے۔ ۔ گیلپ انسٹیٹیوٹ میں امریکی محققین کی ایک ٹیم یہ پتہ لگانے کی کوشش کرتی ہے کہ دنیا کے خوش ترین ممالک کون سے ہیں ؟

خوشی کی درجہ بندی کے لیے بنائی گئی کسوٹی کئی عوامل کا احاطہ کرتی ہے مثلاً مختلف ممالک کے باشندوں کا اپنی زندگی سے مطمئن ہونا؟ اس کے علاوہ ہر ملک میں زندگی کے معیار کا آمدنی و صحت، فیصلے لینے کی آزادی، سخاوت، دوسروں پر انحصار اور وہاں بدعنوانی کی شرح جیسے عناصر کا جائزہ لینا ۔ اس رپورٹ میں ذہنی صحت کو فلاح و بہبود کے لیے اہم گردانا جاتا ہےاور بلا امتیاز بنیادی انسانی حقوق کی ادائیگی کو جانچا جاتا ہے۔عوام کو حاصل میں زندہ رہنے اور آزادی کا حق، غلامی و تشدد سے آزادی، اظہار رائے کی آزادی ،تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کے حق کی بھی جانچ پڑتال نہایت سنجیدگی اور مہارت کے ساتھ کی جاتی ہے۔ حال میں شائع ہونے والی 'ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ' میں کل 137 ممالک کی درجہ بندی کی گئی ۔ اس سے قبل ممالک کی تعداد 146 تھی یعنی ۹ ممالک کو جائزے میں شامل نہیں کیا جاسکا۔

اس رپورٹ کے اندر یہ انکشاف ہوا کہ فن لینڈ نے مسلسل چھٹے سال بھی اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔ فن لینڈکا نہ تو معاشی میدان میں پہلا نمبر ہے اور نہ وہ فوجی حیثیت سے اول درجہ پر ہے ۔ اس کے باوجود وہاں کے لوگوں کا خوش باشی ظاہر کرتی ہے کہ شادمانی کا تعلق صرف مادی وسائل سے نہیں ہے۔ امیر کبیر ممالک کے لوگ ہی بہت زیادہ خوش ہوتے تو امریکہ پندرہویں، برطانیہ انیسویں اور فرانس اکیسویں پوزیشن پر نہیں ہوتے ۔ چین کو سپر پاور تسلیم کرلیا گیا ہے لیکن وہ 64ویں نمبر پر ہے اور دنیا کی تیزترینی معیشت ہندوستان 126 ویں مقام پر ہے کیونکہ چند لوگوں کے خوشحال ہوجانے سے ملک کے باقی عوام کی بدحالی دور نہیں ہوتی۔اس بار بھی فن لینڈ نے جہاں اپنا اول مقام قائم رکھا ہے ۔ افغانستان مسلسل تین سالوں سے آخری نمبر پر ہے ۔

اس رپورٹ کا ایک حصہ خوشی کی عدم مساوات کے جائزے پر مشتمل ہے یعنی یہ بتاتا ہے کہ اوپر اور نیچے کے نصف کی خوشی کتنا فرق ہے؟ اس حوالے افغانستان سب سے اوپر ہےیعنی وہاں نابرابری کم ترین ہے ۔ امیر کبیر لوگ غرباء و مساکین کے سکھ دکھ میں شریک ہیں ۔ یہ نہایت دلچسپ انکشاف ہے کیونکہ اس معاملے میں فن لینڈ تیسرے نمبر پر ہے۔جرمنی کو دیکھیں تو وہ انیسویں ، برطانیہ اکیسویں اور امریکہ چوتیسویںپائیدان پر ہے۔ ہندوستان کے اندر فی الحال جی 20 کے حوالے سے جشن کا ماحول ہے لیکن برصغیر ہندو پاک میں وہ سب سے نیچے ہے۔ اس خطے میں سب بہتر حالت نیپال کی ہے جو78 ویں مقام ہے جبکہ ہندوستانی ، سری لنکن اور بنگلہ دیشی عوام خوشی کے معاملے میں بتدریج 126، 112 اور 118 ہیں ۔

یہ بہت دلچسپ صورتحال ہے کیونکہ کہ پچھلے سال معاشی میدان میں ہندوستان خاصہ مستحکم رہا اور کانگریس کے رہنما پی چندمبرم نے بھی اس معاملے میں حکومت ہند کی تعریف کردی ۔ وہ ماہر معاشیات سمجھے جاتے ہیں اور انہوں نے وزیر مالیات کی ذمہ داری نبھائی ہے۔ انڈین ایکسپریس میں وہ ہر ہفتہ حکومت کی معاشی کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود ہندوستان کا سارے پڑوسی ممالک سب سے نیچے ہونا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ قومی معیشت کے استحکام کا عوام کی خوشی ومسرت کا براہِ راست رشتہ نہیں ہےورنہ پچھلے سال جس سر ی لنکا جہاں معاشی بحران کے سبب حکومت کا تختہ پلٹنے والے لوگ ہندوستانیوں سے زیادہ خوش نہیں ہوتے۔انسانی فطرت ظالم کو سزا دینا چاہتی ہے بعید نہیں وہاں کی عوام کو ایک و جابر حکمراں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے سبب خوش ہوں ۔نیپال کے اندرپچھلے سال بڑی سیاسی اتھل پتھل رہی مگر وہاں کے عام لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس لیے وہاں کے لوگ خوش خرم رہے ۔

ہندوستانی میڈیا میں عام طور پر اور ہندی میں خاص طور سے پاکستان کو برا بھلا کہنا یا تباہی کی پیشنگوئی کرنا عام مشغلہ ہے۔ ان لوگوں کو پاکستان میں بڑھنے والی مہنگائی کی فکر خود اپنے ملک سے زیادہ ہے۔ آئے دن اس کے دیوالیہ ہونے اور وزیر اعظم کے استعفیٰ کی امید باندھی جاتی ہے لیکن اس فہرست میں پاکستانی باشندے ہندوستان کے مقابلے پندرہ پائیدان اوپر 106 پر ہیں۔ یہ دیکھ کر ہندوستان کے فرقہ پرستوں کے غم و اندوہ میں بے شمار اضافہ ہوا ہوگا۔ پاکستان اگر 122پر ہوتا تو ہم اپنے 121 پر ہونے پر بھی خوش ہوجاتے۔حکمرانوں کو عوام کے حقوق پامال کرنے کے بعد خوشی ہوتی ہے مگر عام لوگ اس سے غمگین ہوجاتے ہیں ۔ وطن عزیز میں لوگوں کی ناخوشی حقوق انسانی کی دگر گوں صورت حال کے سبب ہے۔ جس دن خوشی والا جائزہ سامنے آیا اسی دن ایک امریکی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ ہندوستان میں حقوق انسانی کی حالت انتہائی خراب ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے 20 مارچ کو اس موضوع پر سالانہ معروضی جائزہ شائع کیا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے مذکورہ رپورٹ حکومت ہند کے جاری کردہ این سی آر بی کے اعداد و شمار کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے جس میں جرائم کی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے اندر2022 میں عدالتی حراست میں قتل کی تعداد بڑھی ۔ پریس کی آزادی، مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو ہدف بنایا گیانیز حکومت کی سبھی سطحوں پر بدعنوانی کے لیے جوابدہی میں کمی آئی۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں کو وقت پر سزا نہیں مل پاتی ہے۔ قانون نافذ کرنے میں نرمی، تربیت یافتہ پولیس افسران کی کمی اور بوجھ سے دبی اور وسائل کی کمی والے عدالتی نظام کی وجہ سے مختلف معاملوں میں سزا کی شرح بھی بے حد کم ہے۔ حکومت یا اس کے ایجنٹ ماورائے عدالت قتل کر رہے ہیں۔ لوگوں پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ پولیس یا جیل حکام کی جانب سے لوگوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک ہوتا ہے، صحافیوں اور سیاسی مخالفین کو بلاوجہ گرفتار کیا جا رہا ہے اور انہیں جیلوں میں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ حکومت بلڈوزر استعمال کر کے اس کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ان کے گھر اور ذریعہ معاش کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔ جس سماج میں یہ سب عام ہو وہاں کے لوگ کیونکر خوش رہ سکتے ہیں ۔ خوشی کی جائزاتی رپورٹ میں یہ کہا گیا کورونا کے بعد عوام کے اندر ہمدردی و غمخواری نیز اعتمادِ باہمی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی وہ چیز ہے لوگوں کو خوش کرتی ہے اور جن ممالک میں یہ زیادہ ہوا وہ درجہ بندی میں اوپر گئے اور اگر نہیں ہوا تو نیچے کھسک گئے۔ اس رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے مادی مفادات کے پیچھے انسانی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر بگ ٹٹ دوڑنے سے لوگ خوشی کی نعمتِ عظمیٰ سے محروم ہوجاتے ہیں۔ عدل انصاف کو قائم رکھ کر دوسروں کی فلاح و بہبود میں لگے رہنے والے ممالک خوش باش رہتے ہیں۔ امرت کال میں وطن عزیز کے لوگوں کا یہ حال ہے کہ؎
اب تو خوشی کا غم ہے نہ غم کی خوشی مجھے
بے حس بنا چکی ہے بہت زندگی مجھے

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449205 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.