حسن بن صباح ایک ایسا فتنہ گزرا ہے جس نے عالم اسلام کو
شدید نقصان پہنچایا ۔ اس کا ہدف نوجوان تھے جنہیں حشیش کا نشہ پلا کر اور
حسین عورت کے جال میں پھنسا کر جھوٹی جنت دکھا کر اسلامی رہنماؤں کے خلاف
کھڑا کیا گیا تھا ۔ اس کی فوج فرقہ پرستوں کا ایک گروہ تھا ۔آج وہی کام ملک
کی بڑی سیاسی پارٹی اور اس کی لیڈر شپ کی پہچان ہے ۔پی ٹی آئی سر براہ نے
اپنے مفاد اور اقتدار کیلئے اپنے ہی ملک کے نوجوانوں کے ایک گروہ اپنی
ریاست ، اس کی سا لمیت اور ملکی و نظریاتی سرحدوں کی پاکبان و نگہبان پاک
فوج کے خلاف کھڑا کر دیا ہے ۔کھلے عام جلسوں میں پاک آرمی مخالف نعرے
لگوائے جاتے ہیں۔ جو کام ہمارا ازلی دشمن گزشتہ 75 برسوں میں نہیں کر سکا
وہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی نے چند ماہ میں کر دیا۔ دشمن
کے ہاں تو خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں ۔ اور ادھر یہ پی ٹی آئی ووٹر
، سپورٹر ملک کو سرلنکا بنانے کا عزم لئے ہوئے ہیں ۔ میرا دل لرز کر رہ گیا
جب میں کپتان کے سپورٹروں اپنے ملک کے جوانوں کو بڑے فخریہ انداز میں یہ
کہتے ہوئے سنا کہ ہم پاکستان کو سر ی لنکا بنا کر چھوڑیں گے، یااﷲ یہ ان
نوجوانوں کے ذہنوں کو اتنا زہر آلودہ کر دیا ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی محبت
میں وطن کی محبت ہی فراموش کر بیٹھے ہیں ۔انہیں کون سمجھائے کہ یہ ملک اس
کی فوج ہے تو ہم ہیں وگرنہ یہ تمام سیاست دھرے کی دھری رہ جائے گی اور بچے
گا کیا ، کچھ نہیں ، انہیں عراق ، شام ، لیبیا اور افریقی ریاستوں کو یاد
رکھے کہ ایک طاقتور و مضبوط فوج ہی پاکستان کی سلامتی کی ضامن ہے ۔ پاک فوج
کی لازوال قربانیوں قومی تاریخ کا رروشن باب ہیں۔ہمارے فوجی جانباز ہماری
چین امن کی نیند کیلئے سرحدوں پر جانیں نچھاور کر رہے ہیں اور ادھر کرسی کی
م،لالچ میں ان کی تذلیل و تحقیر سے دشمنوں کی باچھیں کھل گئی ہیں۔یہ دیکھ
کر دل خون کے آنسورویا کہ پی ٹی آئی کے ورکروں نے لندن میں بھارتی نژاد
وزیر اعظم کے گھر کے سامنے پاک فوج کے خلاف نعرہ بازی کی اورسپہ سالار جنرل
عاصم منیر کے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر توہین آمیز ریمارکس درج تھے ۔ یہ
باہر بسنے والے کیا پاکستانی نہیں؟ان کی حب الوطنی بھی مشکوک ہے ۔ وہ ہنود
ویہود کے ملک دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہے ۔درحقیقت امریکہ کا افغانستان سے
انخلاء تو ہو گیا لیکن اب اس کے نشانے پر پاکستان ہے اور اب مکمل طور پر
پاکستان کو عالمی سامراج کی سازشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے ۔ قبل ازیں سابق
آرمی چیف جنرل باجوہ ان کا ہدف تھے۔ اب عمران نے اپنی توجہ موجودہ سربراہ
پر مرکوز کر دی ہے، جیسا کہ غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل عاصم
منیر پر ان کی حالیہ تنقید اس کا ثبوت ہے۔ جبکہ گزشتہ دنوں اس کے اہم
عہدیدار زلمے خلیل زادے کی پاکستان آمد اور عمران خان سے ملاقات کس جانب
اشارہ کرتی ہے؟یہ پاکستان دشمنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے یہ وہی
زلمے خلیل زادے ہے جو افغان جنگ کے دوران پینٹا گون کو ہدایت دیتے تھے کہ
افغان طالبان کے بجائے پاکستان پر زیادہ دباؤ ڈالا جائے۔زلمے خلیل زادے نے
کھل کر کہا کہ پی ٹی آئی والوں پر زیادتی ہوئی ہے ۔ ان سے سوال ہے کہ کیا
انہیں امریکی عقوبت خانوں ابو غریب جیل اور گوانتا ناموبے کے مظالم یاد
نہیں ؟مسلمان قیدیوں پر سفاکیت و بربریت کی انتہا کر دی گئی،کشمیر ، فلسطین
اور بھارت میں یہودیوں اور ہندووں کے ظلم دکھائی نہیں دیتے ؟ امریکہ کی
ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کاکیا جواز ہے ؟ ۔عمران خان نے اپنی
حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش قرار دیا اور اب یہ ملاقاتیں ، رابطے آخر کس
جانب اشارہ ہے ۔ملک میں آگ لگائی جارہی ہے ، ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا جا
رہا ہے ۔ پاکستانی کو دوسرے پاکستانی سے لڑایا جا ہا ہے ۔زمان پارک میدان
جنگ بنا رہا اور پولیس پر پٹرول بموں سے حملے ، اسلحہ برآمد ہوا ۔ توڑ ،
پھوڑ ، جلاؤ گھیراؤ کیا یہ دہشت گردی نہیں تو کیا ہے ۔ اپنی ریاست کو نقصان
پہنچا یا جا رہا ہے اور یہ سب کس کی ایماء پر ہو رہا ہے ۔سنا تھا ہتھکڑی
سیاستدانوں کی شان ہوتی ہے اور جیل جانا ان کو دوام بخشتا ہے ۔پاکستان کی
تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیے کہ گزشتہ 75 برسوں میں حکمران جیل
گئے ۔سیاسی انتقام اور مفادات کی لڑائی میں ملکی امن و سلامتی ہی داؤ پر
لگا دیا گیا ہے ۔ قوم کے اہم اداروں پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے ْ۔پوری
دنیامیں ہم تماشا بن کر رہ گئے ہیں ۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کی جوہری
اثاثوں کے حوالے سے شرائط نے قومی جوہری قوت کے خلاف عالمی استعمار کی سازش
واضح ہو گئی ہے کہ ان کا ٹارگٹ عالم اسلام کی اٹیمی پاور پاکستان اور اس کی
افواج ہیں ۔ جس کو تقسیم کرنے اور ہمیں عراق ، لیبیا ، شام بنانے کے مذموم
منصوبے پر عملدرآمدجاری ہے ۔ معاشی مشکلات کے باوجود پاکستان کی اصل طاقت
اور فخر عوام کا جذبہ اور پاک فوج کا عزم ہے جو دنیا کی چند منظم افواج میں
سے ایک ہے۔ پاک فوج ہماری نظریاتی سرحدوں کی محافظ نے ہمیشہ پاکستان کی
سلامتی اور استحکام کے لیے کام کیا ہے اور ہمیشہ دشمن کو ہر محاذ پر شکست
دی، جس کی وجہ سے دشمن اس کے ایٹمی اثاثوں اور میزائل پروگرام سے خوفزدہ
ہیں۔ایک عرصے سے یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے
محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہیں۔ اﷲ کا شکر ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام فول
پروف کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت ہے۔لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ موجودہ
سنگین حالات میں جب ہماری سالمیت خطرے میں ہیں ،افسوس !حکومت اور اپوزیشن
دونوں فریقین اپنی پوزیشنوں سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں، عمران خان
کی ممکنہ گرفتاری کے ارد گرد ہنگامہ جاری ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین کے خطاب سے
ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی صرف پولیس کے خلاف کھڑے ہونے سے حوصلہ افزائی کر رہی
ہے، اور اب مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان کیارنگ لائے گا؟۔ جس نے ج ملکی
حالات کے حوالے سے تشویش اور بڑھا دی ہے ۔جس طرح سے پولیس اور پی ٹی آئی کے
کارکنان پچھلے کچھ دنوں میں سڑکوں پر آمنے سامنے ہوئے ہیں، اس سے مزید
جھڑپیں متوقع ہیں۔پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال دن بہ دن ابتر ہوتی جا
رہی ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ موجودہ حالات مستقبل قریب میں ہمیں
کس طرف لے جائیں گے اور اس کے طویل مدتی نتائج کیا ہوں گے؟ ْ۔سیاسی عدم
استحکام نے سیاست کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ حکمران اتحاد کا موقف ہے کہ اس
نے ایک جائز آئینی عمل کے ذریعے اقتدار سنبھالا، اس سال ستمبر تک اپنی مدت
پوری کرنے کا مینڈیٹ ہے۔ عمران اپنے انتخابات کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو
تیا ر نہیں اس لئے سیاسی مذاکرات کے کسی بھی امکان کو مسترد کرتے ہیں۔یہاں
قبل از وقت انتخابات کے نتائج کے حوالے سے اہم سوالات ابھرتے ہیں۔ اگر
عمران خان قطعی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تو کیا وہ انتخابی نتائج کو
تسلیم کر لیں گے؟ اگر وہ سادہ اکثریت حاصل کر لیتا ہے، تو اسے سڑکوں پر
احتجاج کرنے اور محاذ آرائی کی سیاست دوبارہ شروع کرنے سے روکے جا سکے گا؟
یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ کیا واقعی اگر وہ اقتدار میں واپس آتے ہیں تو
ممکنہ انتقامی کارروائی کے خوف نے عدلیہ، بیوروکریسی اور میڈیا میں بہت سے
لوگوں کو یا تو اپنا موقف نرم کرنے یا پی ٹی آئی کی حمایت کرنے پر مجبور کر
دیا ہے۔ واضح رہے کہ سیاسی تعطل کا خمیازہ بالآخر ہماری سیاست کو بھگتنا
پڑے گا۔سیاسی پولرائزیشن اپنے عروج پر ہونے سے آگ میں مزید اضافہ ہورہاہے
۔یہ سیاسی رسہ کشی ملک کو معاشی تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے، غربت، بے
روزگاری، جرائم کی شرح، اور روپے کی قدر میں کمی سب بڑھ رہی ہے۔اس گھمبیر
صورتحال سے نبر د آزما ہونے کیلئے کو ملک کو مضبوط پالیسیوں کی اشد ضرورت
ہے ۔ لہذاضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات اور اختلافات کو
بالائے طاق رکھ کر ملک کی بہتری کے لیے کام کریں۔ |