رواں ہفتہ ایک انتہائی اہم مگر حیران کن خبر نے ملک میں
جاری سیاسی بحران میں مزید اضافہ کردیا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شدہ
حکم نامہ کے مطابق پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات 30اپریل کی بجائے
8اکتوبر کو ہونگے۔حکم نامہ کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے بلوائے گئے
متعدد اجلاسوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور متعلقہ وفاقی وزارتوں
سے تفصیلی بریفنگ لی گئی۔ متعلقہ وزارتوں کی جانب سے 30اپریل انتخابات کے
لئےناممکنات (جیسا کہ سیکورٹی اداروں نے سیکورٹی مہیا کرنے سے معذرت کی اور
وزرات خزانہ نے اپنا غلہ خالی ہونے کا رونا رویا)جس کی نشاندہی حکم نامے
میں کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کی کوششوں کے باوجود ایگزیکٹو اتھارٹیز،
وفاقی اور صوبائی حکومتیں پنجاب میں آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات
کے انعقاد میں انتخابی ادارے کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل نہیں تھیں۔یاد رہے
آئین کے آرٹیکل 218کی شق 3کے تحت یہ الیکشن کمیشن کا فرض ہوگا کہ وہ
انتخابات کا انعقاد کرے اور ایسے انتظامات کرے جو اس بات کو یقینی بنانے کے
لیے ضروری ہوں کہ انتخابات ایمانداری، انصاف کے ساتھ، منصفانہ اور قانون کے
مطابق منعقد کیے جائیں۔ اور آرٹیکل 220کے تحت یہ وفاق اور صوبوں میں تمام
انتظامی حکام کا فرض ہوگا کہ وہ کمشنر اور الیکشن کمیشن کی ان کے کاموں کی
انجام دہی میں مدد کریں۔اب جبکہ ریاست کے اہم ستون یعنی Executivesنے
انتخابات انعقاد کے لئے اپنے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیںاور الیکشن کمیشن کی مدد
کرنے پر اپنی بے بسی کا اظہار کردیا ہے۔ اسی لئے الیکشن کمیشن نےآئین کے
آرٹیکل 218کی شق 3اور الیکشن ایکٹ 2017کی سیکشن 58جسکے مطابق "الیکشن
کمیشن پہلے سے جاری نوٹیفکیشن کے بعد کسی بھی وقت انتخابی شیڈول میں تبدیلی
کرسکتا ہے" اور سیکشن 8-C جسکے مطابق "ایسی ہدایات جاری کرنا اور اس طرح کے
اختیارات استعمال کرنا اوراس بات کوالیکشن ایکٹ اور قواعد کے مطابق یقینی
بنانا کہ انتخابات ایمانداری، انصاف کے ساتھ، منصفانہ اور شفاف طریقے سے
کرائے جائیں"کے تحت پنجاب صوبائی اسمبلی انتخابات کو ملتوی کردیا۔ الیکشن
کمیشن نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ آئین کےتحت حاصل اختیارات کے انتخابی
شیڈول واپس لیا گیا اور نیا شیڈول بعد میں جاری کیا جائے گا۔ پنجاب کی
صوبائی اسمبلی انتخابات کے التواء کا شکار ہونے کے بعد کے پی کے اسمبلی
انتخابات بھی التوا ء کا شکار ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی
جانب سے تازہ ترین حکم نامہ نے پاکستان میں جاری سیاسی بحران میں مزید
ارتعاش پیدا کردیا۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے حکم نامہ کو آئین شکنی
قرار دے دیا۔ عمران خان نے ٹویٹر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اکتوبر تک
پنجاب کےانتخابات ملتوی کرکےECP آئین سےکھلےانحراف کا مرتکب ہواہے۔آج ہر
کسی کو اِس امید کےساتھ کہ یہ دستور کا تحفّظ کریں گے،عدلیہ اور قانونی
برادری کی پُشت پرکھڑا ہوناہوگا۔کیونکہ آئین پر یہ سنگین حملہ اگر آج
قبول کرلیاجاتاہےتو پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا خون ہوجائےگا۔ہم
نےاپنی 2 صوبائی اسمبلیاں اس امید پرتحلیل کیں کہ 90 روز میں انتخابات
کروائےجائیں گے،جسکا ہمارا دستور واضح حکم دیتاہے۔ہم نےیہ قدم فسطائیوں
کےایک ٹولے کو آئین سےانحراف اور قانون کی حکمرانی سےفرار کے ذریعے خوف و
دہشت کا راج قائم کرنےکی اجازت دینے کیلئےنہیں اٹھایا تھا۔ موجودہ حالات
میں یقینا جناب عمران خان صاحب صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلہ پر ضرور
پچھتا رہے ہونگے۔ اور چوہدری پرویز الہی کا فواد چوہدری کی گرفتاری پر دیا
گیا بیان (کاش یہ بندہ پہلے پکڑا جاتا تو صوبائی اسمبلییاں تو نہ ٹوٹتی)
بہت یاد کررہے ہونگے۔پی ٹی آئی رہنما الیکشن کمیشن کے ممبران کے خلاف
آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کے مطالبے کرتے نظر آرہے ہیں۔ پی ٹی آئی بہت
جلد الیکشن کمیشن کے اس حکم نامہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردےگی۔ جہاں
پورے ملک میں الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ پر تنقید کی جارہی ہے وہیں پر حکومت
وقت سے اس فیصلہ پر خیر مقدم کیا ہے ۔وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا
ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے سے ملک کو بڑے آئینی بحران سے بچا لیا
ہے، 30 اپریل کو 2 صوبوں میں الیکشن ہوتے تو ہمیشہ کے لیے متنازع ہو
جاتے۔انہوں نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ تحفظات
تھے کہ ایک آدمی کی انا کے سبب 2 صوبوں پر زبردستی الیکشن مسلط کیا جا رہا
ہے۔وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ شخص جب چاہے آئین
توڑ دے، جب چاہے اسمبلی توڑ دے، اب یہ نہیں چلے گا۔ حکومت اور حزب اختلاف
کی آراء سے قطع نظر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پنجاب میں انتخابات
اکتوبر تک ملتوی کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے تمام آئینی اداروں سے آئین
کے تحفظ کا مطالبہ کر دیا۔اعلامیے میں سپریم کورٹ بار کا کہنا ہے کہ الیکشن
کمیشن نے انتخابات اکتوبر تک ملتوی کر کے آئین منسوخ کر دیا۔سپریم کورٹ
بار نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کسی بھی صورت انتخابات کی تاریخ تبدیل نہیں
کرسکتا۔الیکشن کمیشن نے اپنے آئینی مینڈیٹ اورسپریم کورٹ کے حکم کی خلاف
ورزی کرتے ہوئے آئین و سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، آئین کے تحت
نگراں حکومت بھی 90 دن سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتی۔سپریم کورٹ بارایسوسی
ایشن نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی اس طرح آئین
کی کھلی خلاف ورزی ملک میں انتشار پھیلائے گی۔بہرحال عنقریب سپریم کورٹ سب
کی توجہ کا مرکز بننے والی ہے۔ لیکن اگر تمام ریاستی ادارے one page policy
کے تحت الیکشن کمیشن کی طرح سپریم کورٹ میں بھی انتخابات انعقاد کے لئے
اپنی معذرت پیش کردیں تو سپریم کورٹ بھی الیکشن کمیشن کے نئے حکم نامہ کو
منسوخ نہ کرپائے گی۔ کیونکہ الیکشن کمیشن انتخابات کا انعقادآئین کے
آرٹیکل 220کے تابع ریاستی اداروں کی بدولت ہی کرسکتا ہے۔ قطع نظر الیکشن
کمیشن کا حکم نامہ آئینی ہے یا غیر آئینی؛ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ کی عوام کو انکے حق رائے دہی سے محروم رکھنا
انتہائی تشویش ناک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبہ پنجاب اور کے پی کی
اسمبلیوں کے انتخابات کا انعقاد فی الفور کیا جائے۔تاکہ پہلے سے جاری سیاسی
و معاشی بحران میں کمی لائی جاسکے۔
|