کشمیریوں کا خون ناحق ۔۔ او آئی سی کی چشم پوشی

مسئلہ کشمیر پاکستان، بھارت اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان مقبوضہ علاقے کی حاکمیت کا تنازع ہے، یہ مسئلہ تقسیم ہندوستان کے وقت سے چلا آرہا ہےاور پاکستان اور ہندوستان کے مابین تین جنگوں کے باوجود یہ مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔

مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں ایک دیرینہ تنازعہ ہے لیکن بدقسمتی سے اسے ابھی تک حل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اقوام عالم کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے مودی حکومت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرچکی ہے۔ آرٹیکل 35 اے، بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو تقویت پہنچاتا تھاجس کے تحت جموں کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دیا گیا تھا۔

آرٹیکل 35 اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری مانا جاتا اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو اور جائیداد کی خرید و فروخت کیلئے کشمیریوں کے علاوہ کسی شخص کو اجازت نہیں تھی تاہم اس آرٹیکل کو ختم کرنے کے بعد کشمیریوں کے علاوہ دوسروں کو بھی اجازت مل گئی ہے جس کی وجہ سے کشمیریوں کی ناصرف جائیدادیں خریدی جارہی ہیں بلکہ بھارت کے دیگر علاقوں سے ہندوؤں کو بلاکر کشمیر میں آباد کیا جارہا ہے۔

اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی جموں و کشمیر کے حوالے سے ان قرار دادوں کی رہی سہی اہمیت بھی ختم ہونے کا بھی اندیشہ ہے جن کے مطابق جموں کشمیر کو متنازعہ قرار دیا گیا تھا۔

پاکستان اپنی بساط سے بڑھ کر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوششیں اور کاوشیں کرتا رہا ہے اورپاکستان نے 131صفحات پر محیط ایک ڈوزیئر اقوام متحدہ میں جمع کروایا اور اس ڈوزیئر میں تقریباً وہ تمام شواہد موجود ہیں جو بھارت کو جنگی جرائم کا مرتکب ثابت کرسکتے ہیں اور پاکستان نے بھی ڈوزیئر میں اقوام عالم کو یہ باور کروایا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جتنے ظلم و ستم کررہا ہے وہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں اور ان جنگی جرائم پر بھارت پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

اگر ہم پاکستان اور بھارت کے مطالبات کو ایک طرف رکھ دیں تو بھی اقوام متحدہ اور مہذب ممالک میں انسانی حقوق کے حوالے سے قوانین بہت واضح ہیں اور بھارت مسلسل ان قوانین اور ضوابط کی خلاف ورزی کا ارتکاب کررہا ہے۔

پاکستان نے بھارت کے شرمناک اقدامات کو بے نقاب کرنے کیلئے جو ڈوزیئر اقوام متحدہ کو دیا ہے اس پر سیکریٹری جنرل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جنرل اسمبلی کو اس ڈوزیئر کے حوالے سے اجلاس بلانے کیلئے قائل کرسکتے ہیں اور سادہ اکثریت سے قرار داد پاس کرسکتے ہیں۔

یہاں اہم بات یہ ہے کہ اس قرار داد کی وہ اہمیت نہیں کیونکہ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ 2649 قرار داد میں مزاحمت اور جدوجہد کرنے والوں کی تحاریک کو جائزہ قرار دیا گیا تھا تاہم بھارت نے اس کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر متنازعہ بنادیا۔

وزیرخارجہ بلاول بھٹو درست کہتے ہیں کہ پاکستان کیلئے مسئلہ کشمیر کو مرکزی ایجنڈا بنانا مشکل ہے کیونکہ اس مقصد کے حصول کیلئے پاکستان کو سلامتی کونسل میں دیگر رکن ممالک کی حمایت درکار ہے اور بدقسمتی سے ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

جنرل اسمبلی میں کچھ ہلکی پھلکی قرار دادیں تو پاس ہوچکی ہیں لیکن بھارت کے طاقتور اور ویٹو پاور کھنے والے ممالک سے دیرینہ مراسم کی وجہ سے اس معاملے پر پیشرفت نہیں ہوتی۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ایک مفصل رپورٹ پیش کی جاچکی ہے جو دنیا کے سامنے ہے اور ہمارے ڈوزیئر سے کئی گنا زیادہ اہمیت رکھتی ہے، ہمیں کرنا یہ چاہیے کہ وہ ممالک جو انسانی حقوق پر زیادہ زور دیتے ہیں ان کے ساتھ ملکر آواز اٹھائیں اور روایتی سفارتکاری کے ساتھ عوامی اور قانونی سفارتکاری کا دائرہ وسیع کیا جائے۔

مہذب ممالک میں عوام کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہےا ور اگر پاکستان بیرونی دنیا کے عوام کو کشمیریوں کے زخمیوں اور دکھ درد سے روشناس کروانے میں کامیاب ہوتا ہے تو عین ممکن ہے کہ ان ممالک کے عوام کی آواز بھی کشمیریوں کی آواز میں شامل ہوجائے جس سے عالمی دنیا کیلئے کشمیریوں کی آواز کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔

گزشتہ دو دہائیوں میں وادی کشمیر میں دو لاکھ سے زیادہ بے گناہوں کو آزادی کا حق مانگنے کے جرم میں زندگی سے محروم کیا جاچکا ہے، 40 ہزار بیٹیاں بیوہ، 2 لاکھ کے قریب بچے یتیم ہوچکے ہیں اور اس بات کو اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں خود بھی تسلیم کرتی ہیں لیکن بھارت کے انسانیت سوز مظالم پر خاموشی ہے۔
بقول شاعر
ہزاروں ظلم ہونگے مظلوم پر تو چپ رہے دنیا
اگر مظلوم کچھ بولے تو دنیا دہشت گرد کہتی ہے

بھارت کشمیریوں کے خلاف اپنے منفی پروپیگنڈے اور بیانیے کو دنیا میں پھیلانے کی کوشش کررہا ہے جس پر ہمیں فوری اقدامات اٹھاکر بھارت کے سامنے بند باندھنے کی ضرورت ہے لیکن افسوس کہ اس مقصد کیلئے اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے۔

پاکستان کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کے حل کیلئے ہمیشہ سے سنجیدہ کوششیں کرتا رہا ہے لیکن بھارت پاکستان کے مثبت رویئے کو شائد کمزوری سمجھ کر مزید آنکھیں دکھانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔

اس وقت دنیا کو یہ باور کروانا ضروری ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی پاس کردہ ایک درجن کے قریب قراردادوں پر بھی عمل نہیں کررہا اور کشمیر میں ہونے والے مظالم کی عالمی اداروں کی رپورٹس کا بھی حوالہ دیا جائے اور اقوام عالم کو بھارت کا حقیقی چہرہ دکھایا جائے۔

دنیا ایک طرف اس بات کا ادراک بھی رکھتی ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں اور کشمیر کا تنازعہ دونوں ممالک کو کسی بھی بڑی مہم جوئی کی طرف دھکیل سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اقوام عالم کی چشم پوشی باعث حیرت ہے۔
بقول شاعر
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کیخلاف
اگر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

حال ہی میں امریکا میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم سے متعلق رپورٹ میں بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا احاطہ کیا گیا ہے، بھارت کے خلاف ان تمام رپورٹس کو 57 ممالک کے پلیٹ فارم او آئی سی کا سربراہ اجلاس بلاکر قرار داد پاس کرکے اقوام متحدہ کو بھیجی جائے تو اقوام متحدہ کیلئے اس قرار داد کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوگا لیکن بدقسمتی سے او آئی سی بھی پاکستان کے ساتھ آواز ملاکر کشمیریوں کا بھرپور ساتھ نہیں دیتی۔

پاکستان کو خارجہ پالیسی کے اہداف حاصل کرنے کیلئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور دنیا میں بڑھتے اسلامو فوبیا اور اسلام دشمنی کو روکنے کیلئے او آئی سی کو فعال کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی طرح او آئی سی کو متحرک کریں تاکہ دنیا ہماری آواز پر کان دھرے۔
 

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 33369 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More