کہاں ہے پاکستان کہاں ہے عوام؟

اب جنگ ہماری ذاتی ہے
تم جیتوں گے یا ہم
گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستانی سیاست انتہائی گرم ہے جیسے ابلتا ہوا پانی ہو یا آگ کا ایسا شعلہ جس کو جو بھی ہاتھ لگاتا ہے وہ ایسے بے آبرو ،بے عزت ،اور بے وقار ہوتا جا رہا ہے ۔ نہ اپنی عزت ہے، نہ کسی کی عزت رہنے دینی ، کا شیوا اپنائے سیاست دان اپنے لیڈران کی چاپلوسی میں اس قدر محو نظر آتے ہیں جیسے ایک زمانہ میں انگریزوں کی غلامی کرنے والے برصغیر کے لوگ۔ اُس زمانہ میں بہت سے با اثر گھرانوں نے انگریز کی بھر پور غلامی کی اور تلوے چاٹے اور اُس کے عوض بہت سی مراعات حاصل کی وہی خاندانوں کے لوگ آج بھی اور اُن کی اولاد در اولاد آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں اپنی سیاست چمکائے ہوئے سرکاری ایوانوں میں بیٹھے نظر آتے ہیں مگر ہم تو بات کریں گے اپنی ہمیں کسی سے کیا؟
بس جب سوچ میں غلامیت اور بات میں منافقت اور نیت میں کھوٹ، پیسے کی حوس عام ہوں تو معاشرے میں بگاڑ ہی نظر آنا ہے۔

جب ایسے کالی آندھی چھائی ہو تو بس ایک ہی اُمید کی کرن نظر آیا وہ عمران خان تھا ۔اس میں شک نہیں کہ وہ شخص ایماندار، باوقار، اور غیرت مند شخص ہے۔ بہت سی مخالفت رکھنے والے لوگ بھی اکثر خان صاحب کی تعریف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی سیاست کوئی موروثی سیاست نہیں نہ ہی وہ کسی ایسے خاندان سے ہیں جن کا سیاست میں شروع سے کوئی عمل دخل ہو۔وہ تو وہ مشہور کرکٹر ہے جس کی کپتانی میں ہم نے پہلی بار ورلڈ کپ جیتا اور آج تک وہ ورلڈ کپ پھر ایک خواب کی مانند ہے۔ تو بات ہے ساری نیت کی، حوصلے کی، اور ایک نہ ہارنے والے جذبے کی ،جو آپ کو نہ گرنے دیتا ہے ، نہ ڈولنے اور نہ مایوس ہونے دیتا ہے ۔یہ ایک واحد صفت ہے جو عمران خان میں بہت خاص، جس کی وجہ سے اُس شحص نے چاہے کرکٹ کا میدان ہو یا سیاست کا ،ہر میدان میں کامیابی حا صل کی۔

اب بات کرتے ہیں عمران خان کے سیاسی کرئیر کی۔ اس میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ وہ پاکستان کی مقبول ترین وزیراعظم رہیں ہیں لیکن اس کا مقصد یہ نہیں کہ وہ سیاسی شعور بھی اُتنا رکھتے ہو۔ سیاست بہت گہری چیز ہے جس میں اگر کوئی سیاسی حریف ہے تو اُس کی مخالفت برائے نعرہ ہے، طبیت میں نرمی، جھکاو اور مفاہمت پرستی اولین ترجیح ہے جو آپ کو سیاسی دانشور کے طور پر ظاہر کرتی ہے اصل میں سیاست تو یہی۔

اب ہمارا معاشرہ جن مسائل کا شکار ہے وہاں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا شحص اِن مسائل کی زد میں ہے اور اب سیاست اس قدر میلی ہوگئی ہے کہ میرا خیال یہ کہتا ہے کہ جب آپ کی ذاتی زندگی ہی محفوظ نہیں تو ایسی سیاست سے کیا لینا جس میں آنے کہ لیے تو آپ سرتوڑ کوشش کر دیتے ہیں مگر یہ آپکو ایسے زلیل کر تی ہے جس سے آپ کی عزت دو کوڑی جتنی بھی نہیں رہتی مسلہ تو عزت کا ہے ،جو اب نہیں ہے، جب ذاتی زندگی پر ایسے حملے ہوں جس میں نہ آپ محفوظ، نہ آپ کی زوجہ ،نہ آپکا بیٹا اور نہ بیٹی اور باتیں ایسی کہ بندہ اگلے کا منہ توڑ دے مگر یہ ہی تو سیاست ہے جس میں یہ برداشت ہے وہ خوشی سے حصہ لے۔نہیں تو صرف ان سے دوری بہتر۔

اب بات کرتے ہیں بغض عمران خان کی۔ کون نہیں جانتا کہ جو حکومت اس وقت ملک کو اپنے قبضے میں لئیے ہوئے ہیں وہ رجیم چینج کے نتیجے میں معارض وجود میں آئی انکا آنے مقصد بس غلامی ہے وہ بھی کن کی وہ گورا جو ایک زمانے میں انکا حاکم تھا آج بھی انکا آقا ہے ۔ یہ حکومت اور پی ڈی ایم کا اتحاد بغض عمران میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ اب بس ایک ہی حل ہے کہ اگر عمران خان زندہ رہ گیا تو اس پی ڈی ایم کے ٹولے کی یہ آخری سیاست کا دور ہے اس کے بعد ان کی سیاست زمین بوس ہوجانی اور پھر انکا نام و نشان بھی نہیں رہنا اور یہ پی ڈی ایم کا اتحاد اچھی طرح جانتا ہے تو اس لیے اب ایک حل یا "مر جاو یا مار دو"۔ اور اب یہ سیاست نہیں دشمنی ہے وہ بھی ذاتی اور جب ذاتی دشمنی ہو تو پھر تو بس وہ رہیں گے یا ہم کی بات ہوگی۔ اس حکومت کو سال ہونے والا ہے اس ایک سال کے عرصے میں میڈیا پر پابندیاں، ارشد شریف جیسے مشہور اینکر پرسن کا قتل، کُھل کر بولنے والوں کو یا حکومت پر تنقید کرنے والوں کو اغوا یا اُن کو قتل کی دھمکیاں اُن کی فیملیز کو حراساں کرنے کے واقعات عام و عام نظر آئے۔ بس ان انگریز کے غلاموں اور ہمارے حکمرانوں کے یہاں تک ہی نہیں ملک میں معیشت کا بھٹہ بٹھانے اور مہنگائی کی شرح کو 48 فیصد تک پہنچانے اور غریب کو اس ملک سے یا صفہ ہستی سے مٹانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔

اب ان کی تلسمی حرکات بس یہی تک نہیں، یہ بہت آگے نکل چکے وہ ہر چیز جو اس پی ڈی ایم کے لیے فائدہ مند ہوئی وہ کیا۔ نیب کا قانون بدل ڈالا، اپنے اوپر پرانے کیسیسز معاف کروالیے جو جیل کی ہوا کھانے کے قریب لوگ تھے وہ اب دنیا کی ہوا کھارہے ہیں اور حکومت کے مزے لے رہے۔ ساری کابینہ ہی مجرم اور سارے حکمران ، کتنی حیرانی کی بات ہے اور اگر زیادہ سوچے تو ہم نے ایسا کیا کیا جس کی سزا ہم اس صورت میں بھگت رہے۔ ان کے دور میں تمام قوانین ان کے ذاتی مفادات کی بنا پر منظور ہوئے اور اب بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کررہے۔ میں آپ کو بتا دو زرہ لیول پلیئنگ فیلڈ اور کوئی نہیں بلکہ پاکستان کا مجرم، مفرور اشتہاری نوز شریف صاحب ہے جن کو پاکستان میں لانے کے لیے دن رات کوشش کی جا رہی ہے ۔

اب ماجرہ یہ کہ عمران خان کی مقبولیت ان کے گلے پڑھ گئی ہے کیوں نکہ عوام کا سمندر اُس کے پیچھے تو جہاں عوام ہوگے جہاں میجورٹی ہوگی اس کا تخت اس کا تاج ہوگا۔ خان صاحب کو روکنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں آئے روز نیا کیس اور نئی پیشی کہ ساتھ ساتھ اُن کو روکنے کے لیے اور رستے سے ہٹانے کے لیے مختلف لوگوں کو ٹاسک دیا جاچکا ہے

اب بات بس آخری اور کچھ سوالات؟ مان لیتے ہیں بغض عمران خان اس حکومتی ٹولے کے سر پر چڑھا ہوا ہے مگر اس جرم میں صرف حکومتی اتحاد شامل نہیں یہ تو بس وہ آلہ کار ہے جو کسی کے کہنے پر یہ کام کرتے ہیں اور پاکستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو آپ کو ہر ادوار میں ایسا کچھ نظر آیا ہوگا۔ حکومتی ٹولہ،سول بیروکریسی والے، جسٹس سٹم ، اور وہ پولیٹیکل انجیئنرز جو اپنی مرضی سے ملک کہ حالات بدلتے ہیں ان سب کا بہت اہم کردار ہے۔ہم جن کو بھی سٹیٹ پلرز کہتے ہیں وہ تمام ستون اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں اسی وجہ ہم آج یہاں کھڑے ہیں جہاں ہماری کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ۔ بات بھی ٹھیک ہے جب ہم اپنی مدد خود نہیں کر سکتے تو کسی نے ہماری کیا کرنی۔اور یہ جو 75 سالہ تاریخ میں جو اداروں میں پولیٹیکل انٹرفیرنس ہے اور وہ جو طاقت رکھتے ہیں اور ہر جگہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں یہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز ہیں جن کی وجہ سے ہر ادارہ تباہ و برباد ہے ٹرانس پیرنسی کا نام ونشان نہیں اور اب عوام کو بھی کسی ادارے پر اعتبار اور اعتماد نہیں۔ کیوں نکہ کوئی ملک کا سوچ کر راضی نہیں اور اس کا مفاد تو بہت دور کی بات ، اور ہماری عوام کی تو بات بھی نہ کریں۔ کیونکہ جب تک ملک کا خیال ، پاکستان کا خیال نہ آئے اس کی عزت کی فکر نہ ہو تو عوام تو پھر اس ملک کے باسی ہیں
تو ہم لکھنے والے صرف اپنے قلم کی طاقت سے لکھ سکتے اور کہہ سکتے کہ تمام وہ ادارے جو با اثر ہے اور جو اس ملک کو چلاتے ہیں مہربانی کر کے ملک کا سوچے، ملک ہے تو سب ہے، اور ایسا کونسا جرم کیا ہے ، ہماری عوام نے۔ کہ آپ آئے روز ہماری عوام سے بدلے لے رہے خواہ وہ مہنگائی کے آدم خور کی شکل میں ہو یا پیٹرول بم۔ ایسا بھی کیا بگاڑا ہے عوام نے ،کہ اے انگیزوں کے غلاموں ۔زراعت کے پیشے سے وابسطہ ملک میں لوگ آٹا، چینی لینے کے لیے قطاورں میں لگتے ہیں اور سسٹیمٹک فیلئر کی وجہ سے جو غریب عوام کا ہجوم اور پھر آٹا چینی لینے کے لیے گتھم گتھا ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ جان سے ہاتھ دو رہے اور حکومتی ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو اس بات کی رتی بھر پرواہ نہیں۔کیوں کی اُنکی روٹی لگی ہوئی ہے عوام بے شک مرتی رہے۔ذرا سوچیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Syed Saleh Hashmi
About the Author: Syed Saleh Hashmi Read More Articles by Syed Saleh Hashmi: 4 Articles with 9369 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.