ابھی حال ہی میں یہ اہم خبر سامنے آئی کہ ایران کے صدر
ابراہیم رئیسی نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے سعودی
عرب کے دورے کی دعوت قبول کر لی ہے۔یہ اقدام مارچ کے اوائل میں بیجنگ میں
چین کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد اٹھایا گیا ہے، جس کے دوران
سعودی عرب اور ایران نے سفارتی تعلقات بحال کرنے اور دو ماہ کے اندر سفارت
خانوں اور مشنوں کو دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔ بیجنگ میں کئی روز تک
جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد چین، سعودی عرب اور ایران نے 10 مارچ کو ایک
مشترکہ بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے دونوں ممالک نے
سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ سعودی عرب نے 2016 کے اوائل میں
ایران میں سعودی سفارتی مشنوں پر حملوں کے جواب میں ایران کے ساتھ سفارتی
تعلقات منقطع کر دیے تھے اور اب چین نے ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کا کردار
نبھاتے ہوئے دونوں ممالک کو نزدیک لانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ،جسے
عالمی سطح پر وسیع پزیرائی ملی ہے۔
اس ضمن میں چین کے صدر شی جن پھنگ نے اپنی "صدارتی سفارت کاری" کا ایک
مرتبہ پھر کھل کر اظہار کیا اور چین کے امن دوست رویوں کی دنیا میں عمدہ
ترجمانی کی۔انہوں نے مستقبل میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بہتری کے
لیے چین کی حمایت کا وعدہ بھی کیا ہے اور ساتھ ساتھ امید ظاہر کی ہے کہ"
بیجنگ مذاکرات" کی روشنی میں مشرق وسطیٰ کے دونوں ممالک اپنے حالیہ سنگ میل
کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
مبصرین کے نزدیک مذاکرات کے بعد مشرق وسطیٰ میں مصالحت کے رجحان میں اضافہ
دیکھا گیا ہے، سعودی عرب اور شام، ایران اور خلیجی خطے کے کچھ دیگر ممالک
کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ چین واضح کر چکا ہے کہ بیجنگ مذاکرات
اور اس کے اہم نتائج سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے
سازگار ہیں۔یہ پیش رفت خطے کے ممالک کے درمیان اتحاد اور تعاون کے فروغ اور
خطے میں کشیدگی کو کم کرنے میں مثالی اہمیت کی حامل ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر
ہوتا ہے کہ تنازعات اور اختلافات کو بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنا
درست انتخاب ہے اور یہ عوام کے دلوں، وقت کے رحجان اور تمام ممالک کے
مفادات کے ساتھ وابستہ ہے۔چین اس حوالے سے بھی پُرامید ہے کہ سعودی عرب اور
ایران اچھے ہمسایہ کے جذبے کو برقرار رکھیں گے اور بیجنگ مذاکرات کے نتائج
کی بنیاد پر تعلقات میں بہتری کا عمل جاری رکھیں گے، ساتھ ساتھ اس نے سعودی
عرب ایران مذاکراتی عمل کی بھی حمایت کی ہے۔یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ
سعودی عرب اور ایران نے بیجنگ کی مضبوط حمایت کو خلوص دل سے سراہا ہے جو
ایک ذمہ دار بڑے ملک کے طور پر چین کے کردار کو ظاہر کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین علاقائی اور بین الاقوامی معاملات میں تیزی سے
اہم اور تعمیری کردار ادا کر رہا ہے اور ثالثی اور قیام امن میں چین جیسے
کلیدی ممالک کے اہم کردار کو ویسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ایک
اہم ثالث کے طور پر بیجنگ کے کردار نے مشرق وسطیٰ کے مزید ممالک میں امید
پیدا کی ہے کہ وہ بھی مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقوں سے پیچیدہ مسائل سے
نکلنے کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔چین کی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ آج مشرق
وسطیٰ کے کچھ ممالک نہ صرف سفارت کاری اور سیاست بلکہ سلامتی اور معیشت کے
حوالے سے بھی مختلف محاذوں پر اپنے درمیان برف پگھلا رہے ہیں۔چین نے بنیادی
طور پر ان ممالک کے درمیان کچھ مشترک مقاصد اور مفادات کو اجاگر کیا ہے جو
تعمیری تعلقات کی کلید ہیں۔ اگرچہ کچھ گہرے مسائل کو راتوں رات ختم نہیں
کیا جاسکتا ہے ، لیکن یہ امید ضرور کی جا سکتی ہے کہ حالات درست سمت میں
آگے بڑھیں گے جس سے نہ صرف متعلقہ ممالک بلکہ دنیا کو بھی فائدہ ہو گا۔
|